پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا چاہتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں میاں نوازشریف کو پاکستان کی سیاست میں اتارا گیا تھا جنرل ضیاء الحق نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ میری عمر بھی میاں نوازشریف کو لگ جائے اور پھر یہ بھی کہا تھا کہ میاں نوازشریف کا ’’کلہ‘‘ مضبوط ہے اس طرح ہائوس آف شریف سیاست کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے بزنس امپائر کو بھی فروغ دیتا چلا گیا، اس خاندان کے ہر فرد نے اپنے اپنے طور پر مختلف سیکٹرز میں انڈسٹریاں لگائیں، دیکھتے ہی دیکھتے یہ خاندان ماضی کے بائیس خاندانوں کو بھی مات دے گیا اور پھر سیاسی اور معاشی میدان میں بلند چوٹیوں پر جا پہنچا۔ بے پناہ دولت کے بل بوتے پر جس کو چاہا خرید لیا۔ جرنیل ہوں یا جج اور یا پھر میڈیا ہائوسز یہ سب اس خاندان کی دولت کی چمک کے آگے ڈھیر ہوتے چلے گئے۔ قلم قبیلے کے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا کر صحافت کے میدان میں لفافہ گروپ متعارف کروایا۔ حتیٰ کہ صحافیوں کو کئی اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جانے لگا، کسی کو سفارت تو کسی کو وزارت اور پھر کسی کو مشیر خاص لگا کر ہائوس آف شریف کا کلہ مضبوط بنایا گیا۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستانی سیاست میں دو کرپٹ سیاسی جماعتوں نے غلبہ حاصل کرلیا۔ ایک طرف پاکستان پیپلزپارٹی تو دوسری طرف نون لیگ، دونوں نے مل کر قومی خزانہ لوٹا، ہائوس آف زرداری اور ہائوس آف شریف مال بنانے میں باریاں لگا کر یہ کھیل جیتتے رہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے عروج دیکھا اور پھر اس کا زوال شروع ہوگیا۔ آج بھی آصف علی زرداری مغربی میڈیا میں مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق پاکستان پیپلزپارٹی کو تباہ نہ کر سکے مگر یہ کام آصف علی زرداری نے سرانجام دیا۔ بے شک اپنی ولی عہد بلاول زرداری کو لاکھ بھٹو بنائیں، وہ ہرگز بھٹو نہ بن پایا۔ اب یہ پراسیس نون لیگ میں بھی شروع ہوچکا ہے۔ ایک طرف صاحبزادی مریم نواز تو دو سری جانب حمزہ شہباز دونوں ہی کو مستقبل کا لیڈر بنانے کی تیاری زوروں پر ہے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ مغربی میڈیا میں ہائوس آف شریف کو اب جس نام سے یاد کیا جانے لگا وہ یہ ہے: Penthouse Pirates کتنی بدقسمتی ہے ہماری کہ ایٹمی قوت کی حامل واحد اسلامی مملکت پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال قید بامشقت اور آٹھ ملین پائونڈ جرمانہ، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال قید بامشقت اور 2 ملین پائونڈ جرمانہ جبکہ داماد کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی ہے اور اس تاریخی فیصلے کے مطابق اب لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کو بحق حکومت پاکستان ضبط کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔ ماضی میں ہماری عدلیہ کی تاریخ بالعموم زیادہ درخشاں نہ تھی اورپھر خاص طور پر ہائوس آف شریف کو ہمیشہ ہی سے فری ہینڈ دیا جاتا رہا ہے جس کی بنا پر عدلیہ کے دامن پر بھی دھبے لگتے رہے تاہم اب یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گزشتہ چند برسوں میں ہماری عدلیہ نے اپنے فیصلوں سے اپنا دامن اجلا کرلیا ہے، اب ایسے ایسے لوگوں کے بارے میں اہم فیصلے ہوئے جن کے بارے میں کبھی گمان تک محال تھا اب قومی اداروں سے لے کردیگر شعبہ ہائے زندگی تک ہر فرد کو طلب کر کے فیصلے کئے جاتے ہیں اس پورے عمل میں عدلیہ نہ تو کسی لالچ میں آئی اور نہ ہی کسی کا کوئی دبائو ہی برداشت کیا گیا۔ میاں نوازشریف کو نااہل قرار دینا آزاد عدلیہ کی مثال ہے۔ عدالتوں کے فیصلے قانونی تقاضوں کے عین مطابق ہورہے ہیں۔ اس وقت ناہل ہوئے وزیراعظم میاں نوازشریف کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز کے علاوہ ان کے سمدھی اسحاق ڈار یہ سب اشتہاری قرار پائے ہیں اور پھر ساتھ ہی میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے ہیں ذرا اندازہ کریں کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جب میاں نوازشریف یہ فرما رہے تھے کہ ’’حضور یہ ہیں وہ ذرائع‘‘ جس سے ہم نے لندن کے لگژری فلیٹس خریدے، جب وہ بیان فرما رہے تھے ان کے ساتھ بیٹھے ان کے سمدھی اسحاق ڈار کا پریشان چہرہ اپنی الگ کہانی بیان کر رہا تھا ان کے چہرے پر مایوسی کے گہرے تاثرات نمایاں تھے اور وہ گھبرائی ہوئی آنکھوں سے آنے والے خطرات کو محسوس کر رہے تھے آج یہی اسحاق ڈار لندن کی سڑکوں پر پاکستانیوں کو دیکھ کر فوراً راستہ بدل لیتا ہے اور نامعلوم مقام پر رات بسر کرتا ہے۔ قومی خزانے کے سابق محافظ سے کوئی پوچھے کہ آخر لندن میں شریف خاندان کا پیسہ کہاں سے آیا اور کس طرح لایا گیا۔ اس بارے کھیل کا مرکزی کردار یہ خود ہے دبئی کے علاوہ لندن میں بھی اس کی بے نامی مختلف جائیدادیں اور اثاثے موجود ہیں۔ کرپشن کا الزام لیے پھرنا پورے شریف خاندان کے لیے عزت نہیں، اب لندن میں اس خاندان کے ساتھ جن عرب ممالک کے سفارتکاروں کے دوستانہ تعلقات تھے، وہ اب ان سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ برطانوی حکومت کے اعلیٰ حکام تو ان کے کسی فون کال کا جواب بھی نہیں دیتے جن لگژری فلیٹس میں شریف خاندان کے افراد رہتے ہیں، ان فلیٹس کی ضبطگی کا حکم بھی آ چکا ہے اور پھر یہاں برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے خلاف قانون بہت سخت ہے۔ برطانوی میڈیا میں پاکستان کے سابق وزیراعظم کی جائیدادوں کی قرقی کے حوالے سے خبریں بھی آنا شروع ہو گئی۔ ماضی میں میاں نوازشریف کے علاوہ ان کے خاندان کے دیگر افراد بڑی آزادی سے لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ کے علاوہ ہیرڈز میں شاپنگ کرتے تھے اب حالت یہ ہے کہ اس خاندان نے یہاں بھی برطانوی سکیورٹی کمپنی جوکہ پرائیویٹ طور پر وی آئی پی شخصیات کو سکیورٹی فراہم کرتی ہے اس کے گارڈز کرائے پر لے رکھے ہیں، ان گارڈز کی حفاظت میں لندن کے ہارلے سٹریٹ کلینک اور پھر پارک لین کے فلیٹس تک ان ہی کے سائے میں اپنی آمدورفت جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہوس دولت نے آخر کار اس خاندان کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے۔ بہرحال اب ن لیگ کے عروج کا وقت ختم ہوا جیسے اب پاکستان پیپلزپارٹی دوبارہ اسلام آباد میں کسی صورت میں بھی راج نہ کر سکے گی۔ اسی طرح ن لیگ کے پاکستان پر راج کے دن بھی چلے گئے اور اب این آر او کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ صرف اتنا کہوں گا کہ گزشتہ سال یہاں لندن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل آصف غفور سرکاری دورے پر آئے تھے، میں اپنے ایک کالم میں ان کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے اپنے تاثرات تحریر کر چکا ہوں۔ جنرل آصف غفور نے غیر رسمی ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ افواج پاکستان ہر قیمت پر آئین پاکستان کا تحفظ کرے گی اور کوئی غیرآئینی اقدام نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کی عدالتوں کے فیصلوں کا نہ صرف احترام کیا جائے گا بلکہ ان فیصلوں پر عملدرآمد بھی کروایا جائے گا اور ساتھ ہی جمہوری سفر کو بھی جاری رکھا جائے گا، اب موجودہ حالات میں افواج پاکستان کسی بھی قسم کے غیر آئینی اقدام کا تصور بھی نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی این آر او کرنے کے موڈ میں ہے۔ عسکری اداروں اور عدلیہ کے خلاف ہائوس آف شریف نے نفرت آمیز رویہ اختیار کئے رکھا ہے ۔ بہرحال قومی انتخابات میں ن لیگ کو چند سیٹیں تو ضرور مل جائیں گی لیکن اب ن لیگ کا کھیل ختم ہوا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں مثالی احتساب کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے جوکہ ہائوس آف شریف سے شروع ہو کر ہائوس آف زرداری تک ہی محدود نہیں رہے گا ہر اس شخص کا احتساب ہو گا جس نے اس سرزمین کی قومی دولت جمہوریت کے نام پر لوٹی اور بیرون ملک اثاثے اور جائیدادیں بنائی ہیں۔ اچھے دنوں کی امید رکھنی چاہیے اور مل کر تبدیلی کے لیے راہ ہموار کرنی چاہیے وہ اس طرح کہ انتخابات میں اپنا ووٹ اس بنا پر ڈالا جائے کہ اب آنے والی نسلوں کی خاطر پاکستان میں حقیقی معنوں میں عوام کی حکمرانی قائم ہو اور پھر لٹیرے، ڈاکو حکمرانوں کی جگہ عوام دوست عوامی نمائندے پارلیمنٹ کا حصہ بنیں جوکہ واقعی مملکت پاکستان کے محافظ ثابت ہوں۔ یقین جانیے کہ مجھے خوشی تو اس بات کی ہے کہ میں اپنی زندگی کے اس حصے میں جبکہ میں 65 برس کا ہو چکا ہوں۔ میں نے عملی طور پر پاکستان میں کرپشن کے خلاف جب آواز بلند کی اور کرپشن کو بے نقاب کرنا شروع کیا یہ 1994ء کی دہائی تھی۔ قلم قبیلے کے دوستوں اور ساتھی صحافیوں کے ایک حصے کا خیال تھا کہ ہمیشہ جیتتے ہوئے گھوڑے کے ساتھ رہنا چاہیے اور اس طرح بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے مگر کم از کم میں نے اور میرے چند دیگر صحافی دوستوں نے اپنا دامن بچا کر رکھا۔ یقینا ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ براوقت بھی دیکھا اور اپنی پاک دھرتی بھی چھوڑی اور برطانیہ آگئے لیکن آج کرپشن کے خلاف پورے پاکستان میں آوازیں بلند ہورہی ہیں اور اس ناسور کے خلاف احتسابی عمل بھی شروع ہوگیا ہے، اس سے بڑی اور خوشی کیا ہو گی کہ اپنی زندگی میں کرپٹ حکمرانوں کا انجام ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی بہت بڑی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی پوری قوم کو مبارک ہو۔