گئے تھے نمازیں بخشوانے روزے گلے پڑ گئے، ہم تو وزیراعظم عمران خان سے اخباری سٹیک ہولڈرز کی میٹنگ میں یہ امید لے کر گئے تھے کہ میڈیا کو درپیش بحران اور آزادی صحافت کے حوالے سے وزیراعظم کچھ مثبت یقین دہانیاں کرائیں گے اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ میں نے بطور صدر سی پی این ای کھلم کھلا اعتراف کیا کہ موجودہ حکومت نے صحافت پر کو ئی قدغن نہیں لگائی بلکہ سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی وی کو بھی آزاد کردیا ہے لیکن اگلے ہی روز سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات کو بریف کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ایک بہت بڑا ’’بم‘‘ چھوڑ دیا۔ ان کا کمیٹی کے سامنے یہ بیان تھا کہ حکومت پی ایم آر اے (پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی) بنا رہی ہے جس کا مقصد پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی نگرانی کرنا ہے۔ اس مجوزہ قانون کے بارے میں صحافتی برادری میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایسے قانون کے بارے میں دو بنیادی اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ اول تو یہ کہ وطن عزیز میں طویل جد وجہد کے بعد پرنٹ میڈیا نے آزادی حاصل کی ہے۔ ایوب خان کے بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس نے صحافت کو پابندیوں میں جکڑ کر رکھ دیا تھاجس کے تحت حکومت اخبارات شائع کرنے کا ڈیکلریشن نہیںدیتی تھی اور بلاجواز اخبارات کوبند بھی کر سکتی تھی۔ 1988ء میں یہ آرڈیننس جنرل ضیاء الحق کے طیارے حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد بننے والی عبوری حکومت کے دور میں قصہ پارینہ بن گیا تھا۔ اب گھڑی کو الٹا گھمانے اور اخبارات پر دوبارہ کاٹھی ڈالنے کی کوشش کیونکر کی جا رہی ہے؟۔ سینیٹ کمیٹی میں پیش کردہ مسودہ اصولی طور پر اخباری تنظیموں سی پی این ای، اے پی این ایس، پی بی اے اور پی ایف یو جے کے ساتھ شیئر کر کے اس پر ڈیبیٹ ہونی چاہیے تھی۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ فواد چودھری صاحب کو میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی کیوں سوجھی؟۔ ابھی تو حکومت کو آئے دوماہ ہی گزرے ہیں۔ آخر اس عرصے میں کون سی ایسی شکایات پیدا ہو گئی ہیں جن کی بنا پر میڈیا کی نگرانی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ باقی شعبوں کی طرح اطلاعات کے شعبے میں بھی قحط الرجال ہے کیونکہ کوئی اناڑی ہی اس قسم کے بے تُکے قانون کی درفنطنی چھوڑ سکتا ہے۔ جہاں تک الیکٹرانک میڈیا کا تعلق ہے، اکثر جمہوری مما لک میں ان کے معاملات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ریگولیٹری باڈیز ہوتی ہیں۔ وطن عزیز میں پیمرا بھی پرویز مشرف کے دور میں اسی مقصد کے لیے بنائی گئی تھی۔ اسے ریگولیٹری کردار دینے کے لیے خودمختاری دی گئی تھی اور یہ کیبنٹ ڈویژن سے منسلک کی گئی تھی۔ بعدازاں اسے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزارت اطلاعات کا حصہ بنا دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے ابصار عالم کو اس کا سربراہ بنانے کے لیے پیمرا کے چیئرمین کی اہلیت کا معیار ہی بدل دیا۔ پیمرا کے موجودہ چیئرمین سپریم کورٹ کے حکم پر ایک سلیکشن پراسس کے ذریعے لائے گئے اس سلیکشن کمیٹی کے سربراہ پلاننگ کمشن کے ڈپٹی چیئرمین بزرگوار سرتاج عزیز تھے اور اے پی این ایس کے صدر حمید ہارون، پی بی اے کے سربراہ میاں عامر محمود اور سی پی این ای کے صدر کے طور پر میں اس کمیٹی کے رکن تھے۔ خاصی عرق ریزی کے بعد موجودہ چیئرمین جن کا تعلق وزارت اطلاعات ہی سے ہے، سلیم بیگ کو چنا گیا۔ جہاں تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے، پریس کونسل آف پاکستان جس کے سربراہ ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج ہوتے ہیں، صحافتی تنظیموں اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی ایف یو جے کے اتفاق رائے سے تشکیل دی گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ پریس کونسل اتنی موثر ثابت نہیں ہوسکی لیکن پریس کونسل کا فلسفہ سیلف ریگولیشن یعنی خود احتسابی ہے۔ اسی لیے پریس کونسل کے ارکان میں سی پی این ای، اے پی این ایس اور پی ایف یو جے کے نامزد کردہ افراد شامل ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پیمرا جیسے ریگولیٹری ادارے کو ایک پریس کونسل جیسے سیلف ریگولیٹری ادارے کے ساتھ کیسے نتھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کا یہی مطلب لیا جائے گا کہ اس کے پیچھے اخبارات و جرائد پر قدغن لگانے کی سوچ کارفرما ہے۔ جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، یقینا یہ شتر بے مہار ہے اسے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن جب تحریک انصاف اپوزیشن کے میدان کارزار میں تھی تو اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ہزاروں فیک اکاؤنٹس کے ذریعے نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ صحافیوں کی کردار کشی کی گئی جواب بھی جاری ہے۔ اب شاید حکومت کو یہ خطرہ ہے کہ باقی سیاسی جماعتیں اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرکے انھیںبدنام کریں گی۔ پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) اور سائبر کرائم کے ادارے اس بارے میں بالکل غیر موثر ثابت ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر افواج پاکستان کے بارے میں جعلی اور جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا حدودوقیود سے آزاد ہے، لہٰذا ہمارے دشمن بھی اس سے بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ’فیک نیوز کی حوصلہ شکنی‘ اور پیمرا کو جہاں سیاسی بھرتیوں کی بھرمار ہے کو فعال اور موثر بنانے پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن پرنٹ میڈیا پر آمرانہ ادوار کے قانون کونافذ کرناکسی کو قبول نہیں ہو گا۔ گزشتہ کالم میں، میںنے عرض کیا تھا کہ ’’سی پی این ای کے رہنما اعجازالحق کے مطالبے پر وزیراعظم نے نیوز پرنٹ پر پانچ فیصد ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کیا‘‘جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ معاملہ سب سے پہلے انھوں نے ہی اٹھایا تھا اس پر اے پی این ایس کے سیکرٹری جنرل معترض ہیں کہ اعجازالحق صاحب نے نہ صرف نیوز پرنٹ کی مہنگائی کامعاملہ اٹھایا تھابلکہ میں نے پانچ فیصد امپورٹ ڈیوٹی اور ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی بات کی تھی جس پر وزیراعظم نے اے پی این ایس کے صدر کومخاطب کرتے ہوئے کہا تھا میں نے ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کاکام اسی کو ساجھے، یہ معاملہ تو اٹھانا ہی مالکان اور پبلشرز کی تنظیم اے پی این ایس کاکام تھا لیکن اعجاز الحق نے اس کی نشاندہی کر کے کو ئی گناہ نہیں کیا، اگر اس کا کریڈٹ اے پی این ایس لینا چاہتی ہے تو‘ بسم اللہ، ویسے بھی حمید ہارون میر ے ذاتی دوست ہیں اور میں زندگی بھر ان کو کریڈٹ دینے سے کبھی نہیں ہچکچایا۔