ہمارے محبوب مہمان گھر آنگن پدھارے۔ہم نے دیدہ و دل فرش راہ کئے اور راہ گزاروں میں سرخ قالین کے علاوہ پلکیں بچھا دیں۔محبوبوں، محسنوں اور دوستوں کا استقبال ہمیشہ اوقات سے بڑھ کر ہی ہوتا ہے۔ کھلے دل اور کھلی چادر کے ساتھ۔اس پہ جسے تکلیف ہے اسے ہوا کرے اورآپ نے دیکھ ہی لیا کس کس کو تکلیف ہے۔سب سے زیادہ ان لبرل دانشوروں کو جو سعودی عرب کی مخالفت میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ فارسی بولنے لگے۔کوئی ان مذہب بیزاروں کو بتائے کہ ایران کا پورا نام اسلامی جمہوریہ ایران ہے اور اسی ماہ اس نے اسلامی انقلاب کی چالیسویں سالگرہ پورے کروفر کے ساتھ منائی ہے۔یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ شاہ کا زیر نگین سیکولر ایران پاکستان کی حمایت میں پیش پیش رہا حتی کہ قیام پاکستان کے بعد اسے تسلیم کرنے والا پہلا ملک بھی۔شاہ ایران دنیا کے پہلے حکمران تھے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔یہ وہ دور تھا جب مصر میں جمال عبدالناصر سیکولر عرب قومیت کا علم بلند کئے ہوئے تھا اور عرب دنیا کے ان حکمرانوں کواس سے خطرہ لاحق تھا جو شاہ ایران کے ساتھ امریکی بلاک کا حصہ تھے جبکہ بھارت جمال عبدالناصر کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا رہا تھا۔ایسے میں پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایران کے ساتھ دوستی کے معاہدے پہ دستخط کئے۔دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو پسندیدہ ممالک کا درجہ دیا۔شاہ ایران نے پاکستان کو ایرانی تیل اور گیس آسان شرائط پہ مہیا کیں۔پینسٹھ کی جنگ کے دوران اس نے پاکستان کو مفت پانچ ہزار ٹن پیٹرولیم دیا اورغالبا جنگ کے دوران بھارت کے ساتھ تجارت بھی موقوف کردی۔اسی دوران امریکی عسکری امداد کی منسوخی کے بعد اس نے جرمنی سے نوے سیبر جیٹ طیارے خریدے اور پاکستان کے حوالے کئے۔پاکستان بھی دوستی کے جوابی مظاہرے میں پیچھے نہیں رہا۔پچاس کی دہائی میں گو سینٹو معاہدے میں اس کی شمولیت نومولود ریاست کے دفاع کے حوالے سے ضروری تھی ،پاکستان نے اس وقت تک اس میں شمولیت اختیار نہیں کی جب تک ایران نے برطانیہ سے ایرا ن میں موجود برٹش آئل کمپنیوں کے قومیائے جانے کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کی ضمانت نہ لے لی۔اکہتر کی جنگ کے دوران بھی شاہ ایران پاکستان کی پشت پہ کھڑا رہا لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ایران نے خاموشی سے پٹری بدل لی ۔1973 میں پاکستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف پاکستان کا ساتھ دینے میں بھی اس کا اپنا مفاد تھا لیکن 1974 میں اس نے ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے لاہور میں منعقد کی گئی اسلامی کانفرنس میں شرکت سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اس میں لیبیا کا معمر قذافی بھی شریک تھا۔ایران غالبا واحد اسلامی ملک تھا جس نے اس عالمی اسلامی کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ اسی سال جب بھارت نے پہلا جوہری تجربہ کیا تو پاکستان کو قوی امید تھی کہ ایران کم سے کم اسکی مذمت ضرور کرے گا لیکن وہاں پراسرار خاموشی تھی۔شنید ہے کہ 1977 میں بھٹو نے ایران کے سرکاری دورے میں اپنے دوست سے پاکستان کے جوہری پروگرام میں امداد کی درخواست کی جو رد کردی گئی۔بعد ازاں سعودی عرب نے ہمارے جوہری پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہر ممکن مدد کی۔پاکستان کے بھارت کے جواب میں جوہری دھماکے کے بعد امریکی پابندیوں کے دوران سعودی امداد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے نہ ہی کبھی حالات اور حکومتوں کی تبدیلی سے اس حسن سلوک میں کمی آئی۔سیکولر ایران کی اس بے وفائی کے باوجو د جب 1979ء میں پاکستان میں بھٹو اور ایران میں شاہ ایران کا تختہ الٹ دیا گیا ، ضیاء الحق نے سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ تعلقات کے باوجود انقلاب کے بعد قائم ہونے والی مذہبی ایرانی حکومت کا ساتھ دیا اور جس طرح ایران 1947 میں پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا اسی طرح پاکستان انقلاب ایران کے بعد قائم ہونے والی اسلامی جمہوریہ ایران کو تسلیم کرنے والاپہلا ملک بنا۔نو قائم شدہ ایران کی بنیاد مذہب میں تھی اور اس کے مقاصد بہت واضح تھے۔ مسلکی بعد کے باوجود ایران اور پاکستان کے تعلقات عمومی طور پہ بہتر رہے حتی کہ ہمیں اپنے جوہری پروگرام کے پھیلائو کے حوالے سے ایران اور شمالی کوریا کی طرف سے تلخ تجربہ ہوا۔عزیر بلوچ اور کلبھوشن یادیو آج کی باتیں ہیں۔اس کے باوجود جب حال ہی میں امریکہ نے ایران پہ اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو پاکستان نے ان کی پروا نہ کرتے ہوئے ایران کے ساتھ تجارت کا اعلان کیا۔اگر یمن میں پاکستان اپنے دیرینہ رفیق کی خواہش کے باوجود مداخلت کو تیار نہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا۔دوسری طرف ایران نے چاہ بہار کا مکمل کنٹرول بھارت کے حوالے کررکھا ہے۔اس پہ بھی پاکستان نے کسی تلخی کا اظہار نہیں کیا لیکن حالیہ مہمان عزیز کے دورے کے عین وقت پہ ایران کا بھارت کے ساتھ ہم آواز ہو کر پاکستان پہ الزامات کی بوچھاڑ کرنا کوئی اعلی اخلاق کا مظاہرہ نہیں ہے ۔جس طرح بھارت کو ضرورت ہے کہ وہ پلوامہ میں ہونے والے واقعہ کی جڑیں کشمیر میں اپنے ظلم و استبدادمیں تلاش کرے اگر وہ خو د اس میں ملوث نہیں، اسی طرح ایران کو بھی دہشت گردی کی جڑیں اپنے ملک میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔یہی مشورہ اشرف غنی کے لئے بھی ہے ۔پاکستان نے ایران کے اس الزام پہ حد درجہ تحمل کا مظاہر ہ کیا ہے تو اس کیوجہ صرف یہ ہے کہ وہ برادر اسلامی ملک کے ساتھ کوئی تلخی نہیں چاہتا لیکن برادر اسلامی ملک کو بھی سمجھنا چاہئے کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو اپنے اوپر لگائے گئے ہر الزام کو خجالت کے ساتھ برداشت کرتا آیا ہے۔یہ وہ پاکستان نہیں جس کا سربراہ نواز شریف اس کلبھوشن یادیو کو اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل اور کھل کر کہیں تو بھارت کی فیس سیونگ کے لئے بلاوجہ عالمی عدالت تک لے گیا تھا۔جس کے حکمران جدہ میں محل اور فیکٹریاں لگاتے رہے لیکن انہیں توفیق نہیں ہوئی کہ وہ سعودی عرب میں موجود پاکستانیوں کی حالت زار پہ بات کرسکیں۔اس دوران اپنے کاروبار تو پھلتے پھولتے رہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم کم ہوتا رہا حتی کہ صرف ڈھائی بلین ڈالر رہ گیا۔ سعودی عرب ہی نہیں تمام جی سی سی ممالک کے ساتھ بارہ سال کے دوران پاکستان کے صرف دو تجارتی اجلاس ہوئے۔پاک سعودی بزنس کونسل 2000ء میں بنی تھی جبکہ سترہ سال میں اس کے صرف تین اجلاس ہوئے ۔یہ ان کی ترجیحات تھیں۔یہ وہ نیا پاکستان ہے جس پہ دنیا کی نظریں جمی ہوئی ہیں جہاں امداد و خیرات نہیں سرمایہ کاری ہورہی ہے۔اس سرمایہ کاری کی ابتدا یقینا نواز شریف کے دور میں ہوئی ہوگی لیکن قیادت پہ اعتماد بھی کوئی شے ہے جس کا برملا اظہار معزز مہمان نے اپنی زبان اور بدن بولی سے کیا۔یہ وہ پاکستان ہے جس کا سربراہ پہلے خطاب میں ہی اپنے وطن کے مزدوروں کے لئے مراعات اوراپنے قیدیوں کی رہائی مانگتا ہے اور مہمان عزیز خوش دلی سے اعلان کرتا ہے کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر ہے۔اب جسے تکلیف ہے اسے ہوتی رہے۔