پاکستان میں عام انتخابات کا نقارہ بج چکا ہے۔ ساری جماعتیں، لائو لشکر کے ساتھ، میدان میں اتر چکی ہیں۔ ہر ایک کو دعوٰی ہے کہ فلاں پارٹی کچھ بھی نہ کر سکی، اب ہمیں موقع دیجیے۔ شیخ ِشیراز کہتے ہیں گر از چنگال ِگْرگم در ربْودی چو دیدم، عاقبت، خود گْرگ بْودی یعنی، بھیڑیے کے چنگل سے مجھے، تم چھْڑا لائے۔ لیکن آخر ِکار، تم بھی بھیڑیے ہی نکلے! خدا کرے کہ آج تک کا قاعدہ، کْلیہ نہ ثابت ہو اور اس دفعہ کولہو کے بیل کا سفر ختم ہو جائے۔ بَیل، الحمدللہ جاندار ہے۔ مگر کولھو بھی ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا۔ نتیجہ، دیکھیے کیا نکلتا ہے! افغانستان میں موجودگی نے امریکہ کو پاکستان کا ہمسایہ بنا دیا ہے! اس "ہمسایہ" ملک میں بھی، وسط مدتی انتخابات کا بگل بجا ہی چاہتا ہے۔ اِمسال، نومبر میں، ایوان ِزیریں کی ساری اور ایوان ِبالا کی ایک تہائی نشستیں خالی ہو رہی ہیں۔ اب تک کے اندازوں کے مطابق، ڈیموکریٹ، یعنی حزب ِاختلاف، ایوان ِزیریں جیت لے گی اور ایوان ِبالا میں بھی اس کی فتح کے امکانات، بڑھتے جا رہے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ جتنے ٹرمپ صاحب فعال ہوتے ہیں، اْتنا ہی ریپبلکن جماعت کا نقصان کرتے جاتے ہیں۔ بقول ِغالب ع جتنے زیادہ ہو گئے، اْتنے ہی کم ہوئے یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے ساتھ، امریکہ کے تعلقات، ریپبلکنوں کے ادوار میں زیادہ بہتر رہتے ہیں۔ ڈیموکریٹوں کی فتح، پاکستان کے حق میں، صرف اس حد تک بہتر ثابت ہو سکتی ہے کہ صدر ٹرمپ، باقی ماندہ مدت، خاصی بے دست و پائی میں گزاریں گے۔ مگر کون کِہ سکتا ہے کہ شکست ، انہیں منفعل کرے گی یا مشتعل! اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں بھی فتح، کِسی "مقامی" ٹرمپ کو ہو جائے۔ وہاںبھی، میدان میں، ایک ساتھ، کئی ٹرمپ اْترے ہوئے ہیں! مْلک سے اور نام سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ع تیرا سا اْن میں رنگ ہے، تیری سی بْو تو ہے ٭٭٭٭٭ آمد و شد؟ پاکستان کی سابقہ حکومت نے جاتے جاتے، خدا جانے کیا سوچ کر، ایک سفیر کی تعیناتی کی تھی۔ وہ جواں سال سفیر، جو دیکھنے میں، تقریبا سبزہ آغاز ہیں، امریکہ پہنچ کر اپنا عہدہ سنبھال چکے ہیں۔ یہاں آنے والے سفیروں کو، اپنی اسناد، امریکن صدر کو پیش کرنے کے لیے، اکثر، چھے چھے مہینے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن علی جہانگیر صدیقی، ریکارڈ مستعدی سے، صرف دو ڈھائی ہفتوں میں یہ مرحلہ طے کر چکے ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر کا کردار، بڑا اہم ہوتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ دونوں ممالک کے تعلقات میں کچھ زیادہ بہتری لا سکتا ہے۔ بلکہ اس لیے کہ نالائق یا بدعنوان سفیر، نقصان بہت پہنچا سکتا ہے! جمشید مارکر، جن کا چند روز پہلے انتقال ہوا، بڑے معرکے کے سفیر تھے! پاکستان اور پاکستانیت کا عَلَم اٹھائے ہوئے۔ ان کی ضد، حسین حقانی ہیں۔ آدمی بلا شبہ، سْرتے ہیں اور چلتا پْرزہ بھی لیکن ان سے خیر طلبی ع عزم ِسفر ِمشرق و رْو در مغرب کے برابر ہے! آج بھی، یہ آدمی اگر نیک نیتی اور صدق ِدل سے، پاکستان کی خدمت کرنا چاہے، تو آسمان سے تارے بھی توڑ لائے! لیکن، افسوس صد افسوس کہ ع اس خانماں خراب نے، ڈھونڈا ہے گھر کہاں یہ پاکستان کے خلاف کتاب لکھ کر، داد وصول کرنے، ہندوستان جاتے ہیں! نئے سفیر کا تقرر, ہرچند کہ بڑی ناعاقبت اندیشی سے کیا گیا، مگر اب انہیں ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔ حسین حقانی کے برعکس، یہ صرف پاکستانی ہیں۔ نسلا، یہ سندھی ہیں۔ اور اس سے پہلے سندھ کے صرف ایک سفیر یہاں متعین ہوئے تھے۔ اس اعتبار سے بھی، پاکستانیت کا پرچار اور بول بالا ہو گا۔ امریکہ نے، حال ہی میں، پاکستان کو ملا فضل اللہ کی ہلاکت کا "تحفہ" دیا ہے۔ اس کا اظہار، خود امریکن وزیر ِدفاع جنرل میٹس نے کیا ہے۔ مگر جوابا، پاکستان کی طرف سے نہ وہ پہلا سا خیر مقدمی رویہ تھا اور نہ کوئی خاص پذیرائی ہی! امریکن جنگ میں، پاکستانی قربانیوں کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ لیکن تعلقات بحال نہیں ہو رہے۔ ان حالات میں، نئے سفیر پر، دبائو بھی بہت رہے گا۔ یاد رہے کہ پاکستانی سفارتی عملے کو بشمول سفیر کے، پابند کیا گیا ہے کہ وہ، پیشگی اجازت کے بغیر، پچیس مربع میل کے علاقے سے باہر نہیں جا سکتے! ٭٭٭٭٭ شیشہ اور پتھر؟ جوش صاحب نے کہیں لکھا ہے کہ شاعری آبگینے کے مانند ہے، کسی غیر زبان میں اس کا ترجمہ، پتھر سے ٹکرائو کے برابر ہے۔ جوش صاحب کی یہ بات جزوی بلکہ بڑی حد تک درست ہے۔ لیکن قول ِفیصل یہ ہوتا کہ شاعری کا جتنا زیادہ انحصار، لفظوں پر ہو گا، اتنا ہی اس کا ترجمہ کھْکل اور بے مزہ ہو گا۔ اور جتنی زیادہ معنی آفرینی کی گئی ہو گی، اْتنا ہی زیادہ، ترجمہ شدہ شاعری کے مقبول ہونے کا امکان ہے۔ یعنی، بات جتنی ٹھْکی ہوئی اور ٹھوس ہو گی، اتنا ہی اسے ترجمہ کرنا آسان ہو گا!