افسوس ہم اپنی بنیاد سے بے خبر ہو چکے۔ ہیہات! ہیہات!ہم اپنی تاریخ بھول گئے۔ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی قوم اپنی وجہ تخلیق فراموش کر بیٹھے؟ نرم ترین لفظ بھی اس عمل کے لیے خودکشی ہے، بنیاد گئی تو دیواریں گریں، دیواریں گریں تو چھت نیچے آ رہی، انجام موت، درد ناک۔ اے غفلت کیش گروہ، اے حال مست بے فکروں کے انبوہ، سوچو کہ وہ دھان پان پتلا دبلا انسان جس نے تپ دق کی پرواہ نہ کی، پاکستان کے لیے دن رات محنت کرتا رہا۔ وہ ایک اکیلا کانگرس سے اور بیک وقت انگریزی استعمار سے لڑتا رہا۔ اس کی کئی عشروں کی بے لوث کمائی پاکستان تھا۔ صرف اور صرف پاکستان۔ آخر اس پاکستان کا مقصد کیا تھا؟ غور کرو کہ تقسیم ہوئی تو پنجاب اور یوپی خون مسلم سے سرخ ہو گئے۔ لاشوں سے بھری ٹرینیں آئیں۔ رینگتی بیل گاڑیوں پر خاندان کے خاندان سوار ہوئے اور کبھی نہ اترے۔ محتاط ترین اندازے کے مطابق ستر ہزار مسلمان خواتین نشے میں دھت سکھوں کے ہتھے چڑھ گئیں۔ عصمتیں لٹیں، دین ایمان برباد ہوئے، کیوں؟ تم کیوں نہیں غور کرتے کہ یہ عظیم الشان، یہ بے مثال قربانی کیوں دی گئی؟ پھر ساٹھ کی دہائی طلوع ہوئی۔ رات کے اندھیرے میں دشمن عفریت کی طرح بڑھا۔ چونڈہ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی جنگ لڑی گئی۔ پاکستانی جوان جسموں سے بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے۔ ان کی ہڈیاں پس گئیں، پرخچے اڑ گئے، مگر بھارتی سیلاب کے آگے بند باندھ گئے۔ آخر کیوں؟ مقصد کیا تھا؟ پھر نوے ہزار پاکستانی دشمن کی قید میں رہ گئے۔ یہ بھی قربانی تھی، اس قربانی کی غایت کیا تھی؟ مائوں کے جگر گوشے وزیرستان سے لے کر کارگل تک کٹ گئے۔ سینکڑوں پاکستانی، کیا فوجی کیا پولیس، کیا عام شہری، دہشت گردی کی نذر ہو گئے۔ کیوں؟ آخر کیوں؟ اے احمقوں کی جماعت، یہ ساری قربانیاں، یہ خون کے نذرانے، یہ شہادتیں، یہ رستے زخم یہ سب کیوں؟ یہ سب اس لیے کہ یہ ملک شریف خاندان کے لیے ایک محفوظ قلعہ بن سکے۔ یہ ان کی چراگاہ ہو، یہاں کوئی ان کا بال بیکا نہ کر سکے۔ اے طائفہ بے خبراں، غور کرو، کیا شریف خاندان کے علاوہ بھی اس ملک نے کسی فرد، کسی خانوادے کو ہر قسم کے قانون سے مکمل استثنا دیا؟ تم کہو گے آخر بھٹو خاندان نے بھی تو دولت کے پہاڑ کھڑے کئے، آخر آصف زرداری نے بھی تو زروسیم کے انبار اکٹھے کئے۔ مگر خدا کے بندو، آصف زرداری سالہا سال قید و بند میں رہا۔ جتنی سہولیات بھی میسر تھیں، تھیں تو زنداں ہی میں نا، پھر ایک بھٹو پھانسی چڑھا، دوسری بھٹو سر پر گولیاں کھا کر زمین کا رزق ہوئی۔ دو بھائی غیر طبعی موت مرے، اس کالم نگار کا پیپلزپارٹی سے دور کا تعلق بھی نہیں مگر کیا شریف خاندان نے اس ابتلا کا پچاسواں حصہ تو کیا، ہزارواں حصہ بھی برداشت کیا؟ جو جانتا ہے وہ جانتا ہے، جو نہیں جانتا جان لے کہ یہ ملک شریف خاندان کی چراگاہ ہے، یہ ان کی ذاتی جاگیر ہے۔ یہاں کا قانون ان کے بوٹوں کے نیچے بچھے ہوئے قالین سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہاں کا نیب، الٹا بھی لٹک جائے تو ان کے جسم کا ایک رئواں بھی نہیں اکھاڑ سکتا۔ یہاں کی بیوروکریسی اب بھی ان کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہے اور اس پروردگار کی قسم! جو جسموں کو ننگا کرتا ہے، بیوروکریسی ان کی چوکھٹ پر اس طرح سجدہ ریز ہے کہ پیچھے سے کپڑا اٹھ گیا ہے اور اس ’’باعزت‘‘ اور ’’باضمیر‘‘ بیوروکریسی کی سرین برہنہ ہو کر سب کو دکھائی دے رہی ہے۔ اس سرزمین کی پولیس آج بھی ان کی کنیز ہے۔ نوکر شاہی کے جن گماشتوں کو اس خاندان نے ذاتی ملازمتوں کی طرح اداروں پر مسلط کیا تھا، آج بھی وہ ان اداروں کی گردنوں پر سوار ہیں۔ اس ملک کے اینکر، کالم نگار، اخبار نویس اس خاندان کے دستر خوان کے آج بھی وفادار ہیں۔ ان میں سے کسی نے کبھی کرپشن یا ملک یا عوام کی بات نہیں کی۔ ان ٹوڈی لکھاریوں اور ان بکے ہوئے اینکروں کے سارے تجزیے مریم نواز سے شروع ہو کر حمزہ شہباز تک ختم ہوتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان رائے ونڈ سے شروع شروع ہو کر ماڈل ٹائون پر ختم ہو جاتا ہے۔ بھٹو خاندان اور زرداریوں نے بہت کمایا ہوگا، بہت لوٹا ہوگا مگر سارے بلاول ہائوس جمع کئے جائیں تو جاتی امرا کا عشر عشیر بھی نہ بنے۔ ایک بھائی دس سال تک سب سے بڑے صوبے کو ذاتی بٹوا بنا کر رکھتا ہے۔ چھپن متوازی حکومتیں چلا دیتا ہے۔ فرزند اس کا کسی سرکاری حیثیت کے بغیر ہر جگہ موجود ہو کر فیصلے کرتا اور کراتا ہے۔ پھر یہ بھائی جیل جاتا ہے مگر قانون منہ کی کھا کر منہ چھپا لیتا ہے۔ ملزم پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بن کر جیل سے سیدھا منسٹرز انکلیو میں آتا ہے۔ ریاست کے کروڑوں اس کے پروٹوکول پر لگ جاتے ہیں۔ دوسرا بھائی جیل جاتا ہے۔ ملزم نہیں، مجرم ہے۔ چار دن جیل میں رہنا شایان شان نہیں۔ ہزاروں قیدی جیلوں میں بیماریوں سے سسک رہے ہیں مگر پاکستان کا نظام انصاف صرف ایک قیدی کو علاج کے لیے باہر نکالتا ہے۔ کیا نظام ہے اور کیا انصاف ؎ لگا ہے دربار شمع بردار سنگ کے ہیں ہوا کے منصف ہیں موم کے ہیں گواہ سارے بیٹے ملک سے باہر ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس ملک کا قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پہلے اور دوسرے عہد حکومت میں ایف بی آر کے قوانین ہفتہ وار تبدیل ہوتے رہے۔ سب کو معلوم ہے کس کے لیے؟ رائیونڈ میں پورا شہر بھارت کے قصبے کے نام پر بس گیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہزاروں پولیس کے جوان برسوں ذاتی محلات پر پہرے دیتے رہے۔ اخراجات ریاست پورے کرتی رہی۔ بیٹا صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ عدالت پوچھتی ہے کہ سرکاری اجلاسوں میں کس حیثیت سے شریک ہوتا رہا۔ باپ عدالت کو جواب دیتا ہے کہ مسلم لیگ کے ورکر کی حیثیت سے۔ عدالت خاموش ہو جاتی ہے، یہ نہیں پوچھتی کہ سینکڑوں ہزاروں ورکروں میں سے اس ایک کو کس بنیاد پر چنا گیا؟ منی لانڈرنگ سے پاکستانی بینک کی بیرون ملک واقع برانچ ٹھپ ہو جاتی ہے۔ سب کو وجہ معلوم ہے، کسی میں ہمت نہیں کہ مجرم کو سزا دے۔ سب شریف خاندان کے خدمت گار ہیں مگر یاد رہے یہ لوگ کل ایک اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ وہاں بتانا ہوگا کہ ہزاروں بیمار، سسکتے، بلکتے، رینگتے، ریڑیاں رگڑتے قیدیوں میں سے صرف ایک کو علاج کے لیے رہا کیا گیا؟ کیوں؟ کس قانون کے تحت؟ یہ ملک شریف خاندان کا ہے۔ انہی کے لیے بنا تھا۔ انہی کے لیے رہے گا، بائیس کروڑ آدم زاد اس خاندان کے سامنے بے وقعت حشرات الارض ہیں، گمنام کپڑے ہیں، تھوک ہیں، جھاگ ہیں، نالی کا گندا پانی ہیں، اس ملک میں انسان صرف وہ ہیں جو شریف خاندان کے رکن ہیں۔ باقی سب گاڑیوں کے پہیوں تلے آتے کنکر ہیں جو سڑک پر ادھر ادھر لڑھکتے پھر رہے ہیں۔ اعتزاز احسن نے سچ کہا ہے… ’’1993ء سے ریاست پاکستان شریف خاندان کے بارے میں بے بس ہے۔ ایک مستقل ڈیل ہے جو اس خاندان کو ملی ہوئی ہے۔‘‘