پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آواز مظالم سے خاموش کر رہا ہے۔ تاہم ٹام لینٹس انسانی حقوق کمیشن کے اراکین و پینلسٹ نے بھارت کے سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی کہانی کا پول کھول دیاہے۔دوسری جانب سابق بھارتی میجر جنرل سنہا نے بھی ایک ٹی وی پروگرام میں اعتراف کیا ہے کہ بھارتی فوج بطور ہتھیار کشمیری خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتی ہے۔ 5اگست 2019ء کے بعد کشمیری عوام ایک نئے جذبے اور ولولے سے گھروں سے باہر نکلے اور آئین کے آرٹیکل 370کی منسوخی کو مسترد کر دیا۔ جس کے بعد مودی سرکار نے بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر کرفیو کا اعلان کر دیا۔ آج 107دن گزرنے کے باوجود مودی کے اوچھے ہتھکنڈے کشمیریوں کے حوصلے پست کر سکے نہ ہی 10لاکھ کے قریب قابض بھارتی فوج مقبوضہ وادی میں معمولات زندگی پرامن طور پر چلا سکی ہے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد کشمیر کی تحریک آزادی نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے، تحریک آزادی میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔24ہزار کے قریب خواتین بیوہ جبکہ ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ آزادی کی اس جنگ میں شہید اور بیوگان کو شمار کر لیا جائے گا لیکن کتنی کشمیری خواتین کی عزتیں پامال ہوئیں۔ قابض فوج کے ہاتھوں کتنوں کے جسم نوچے گئے ان مظالم کا شمار ممکن نہیں ہو گا۔ جب کوئی معاشرہ حالت جنگ میں ہو تو قانون کے ساتھ ساتھ جنگل کا قانون بھی چلتا ہے لیکن اگر کسی ریاست میں سرے سے قانون ہی جنگل کا ہو تو پھر ایسا ظلم ہوتا ہے کہ جانور بھی اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ رواں سال جنوری میں 8سالہ ننھی آصفہ کو نشہ آور ادویات کھلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ جس پر نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کے اندر بھی غم و غصہ پایا گیا۔ ہندو قوم نے بھی اس واقعہ پر برملا مودی حکومت کو لعن طعن کیا اور درندہ صفت وحشی فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنے کی مہم بھی چلی تھی لیکن چند دنوں کے احتجاج کے بعد وہ مہم بھی دم توڑ گئی۔ دراصل بھارت کا میڈیا پروپیگنڈا کر کے کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں لگا رہتا ہے۔ آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ خیالات بھارتی صحافیوں پر بھی غالب ہیں جس پر وہ مسلمانوں اور خصوصاً کشمیریوں کی آواز کو دنیا کے سامنے پیش ہی نہیں کرتے۔5اگست کے بعد کشمیریوں کی جس منظم انداز سے نسل کشی کی گئی اس پر بھی عالمی برادری کا کردار قابل افسوس ہے۔ ٹام لینٹس انسانی حقوق کمیشن نے بڑی باریک بینی کے ساتھ مقبوضہ وادی کی صورت کا جائزہ لیا ہے۔ جس میں انہوں نے دیانتداری سے بھارتی حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے پس منظر میں موجود آمرانہ اور قومی انتہا پسندانہ نظریات و خواہشات کو بے نقاب کیا ہے۔ کمیشن نے بھارت کی جانب سے اقلیتوں پر روا ظلم و ستم پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس غیر جانبدار کمیشن کی رپورٹ کے بعد بھی عالمی برادری کا خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ امریکہ انسانی حقوق کا چمپئن بنا ہوا ہے، دنیا کے جس خطے میں شورش برپا ہو اسے تشویش لاحق ہوتی ہے لیکن دوسری طرف 70برس سے کشمیری عوام انصاف کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں لیکن وہ اس ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا رہا، صرف اسی لئے کہ کشمیر میں ظلم و ستم کا شکار ہونے والے مسلمان ہیں۔ امریکہ نے اگر مسلم امہ کے ساتھ ایسا ہی رویہ اپنائے رکھا ،مظلوم کی حمایت کرنے کی بجائے اس کا تماشہ دیکھنے کی پالیسی اپنائے رکھی تو پھر دنیا میں امن ایک ڈرائونا خواب بن جائے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ کئی بار کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں لیکن مودی سرکار ہر بار راہ فرار اختیار کر جاتی ہے۔ اس بار امریکی انسانی حقوق کی نامور تنظیم ٹام لینٹس نے بھارتی مکاریوں سے امریکی حکام کو بھی آگاہ کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے امریکی حکام کا وہی نیم دلی سے مذمت والا رویہ سامنے آیا ہے۔ اب تو سابق بھارتی میجر جنرل نے پوری دنیا کے سامنے ٹی وی پروگرام میں اس بات کا اعتراف بھی کر لیا ہے کہ بھارتی فوج کشمیری خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ اس اعتراف کے باوجود سلامتی کونسل سمیت عالمی برادری کا بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھنا ظلم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ کشمیر کا مسئلہ 70برس سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر موجود ہے جبکہ کشمیر کے بعد اس سے ملتے جلتے مسائل جب اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر آئے تو اسے فوراً حل کر دیا گیا۔ سوڈان کا مسئلہ بھی کشمیر کے مسئلے کی طرح تھا لیکن اس میں صرف ایک بنیادی فرق تھا کہ وہاں پر آزادی مانگنے والے لوگ عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اس پر عالمی برادری فوراً بیدار ہوئی اور سوڈان کی تقسیم کا اعلان کر دیا گیا۔ کشمیر میں تو معاملات بہت خراب ہیں۔ بچوں اور خواتین کی بے حرمتی کے واقعات تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ کئی مائوں کے لخت جگر بہنوں کے بھائی اور لاتعداد خواتین کے سہاگ چھن چکے ہیں لیکن اقوام متحدہ نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پیلٹ گنوں کے آزادانہ استعمال سے ہزاروں کشمیری بینائی سے محروم ہو چکے ہیں لیکن عالمی برادری بھارت کی مذمت کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔107روزہ محاصرے کے بعد اب تو وادی سے اشیاء ضروریہ کا ذخیرہ بھی ختم ہو چکا ہے جبکہ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی برفباری کے باعث کشمیریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ اس بارے اپنا کردار ادا کرے۔ تاکہ کشمیریوں کی نسل کشی روک کر انہیں جینے کا حق فراہم کیا جا سکے۔