پاکستان نے سرکاری طور پر ریاست کا نیا سیاسی نقشہ جاری کیا ہے۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد جاری ہونے والے نقشے کی خاص بات یہ ہے کہ لداخ‘سیاچن اور مقبوضہ کشمیر پاکستان کا جغرافیائی حصہ دکھائے گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کشمیر اور پاکستان کی تمام قیادت نے نئے نقشے کی تائید کی۔وزیر اعظم نے کہا کہ یہ نقشہ ایک ایسا خواب ہے جو منزل پر پہنچنے سے قبل دیکھا جاتا ہے‘یہ پہلا قدم ہے جس کے بعد منزل تک ضرور پہنچیں گے اس لیئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ نقشہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں بھی پیش کیا جائے گا۔ نئے سیاسی نقشے کے اجرا کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب کشمیر کی بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت ختم کرنے اور مقبوضہ وادی میں لاک ڈائون کا ایک سال پورا ہو رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے سیاسی نقشے کے اجرا کو ایسا دعویٰ قرار دیا گیاہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ بھارت کا یہ کہنا دراصل بذات خود ایک مضحکہ خیز بیان ہے۔ کسے یاد نہیں کہ بھارت نے 5اگست 2019ء کو جب اپنے آئین سے شق 370اور 35اے کو ختم کیا تو پارلیمنٹ میں موجود کشمیر کے کسی ایک نمائندے نے بھی اس عمل کی حمایت نہ کی تھی۔ ریاستی اسمبلی اگرچہ بھارت کی کٹھ پتلی رہی ہے لیکن اس معاملے میں بی جے پی حکومت نے ریاستی حکومت اور اسمبلی کو بھی مکمل طور پر نظرانداز کر دیا۔ تاریخی طور پر بھارت کا سارا مقدمہ ہی جھوٹ اور فریب پر مشتمل ہے۔ بھارت نے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے ساتھ الحاق کے معاملات کرنے اور مہاراجہ کو پاکستان سے دور کرنے کے لئے جھوٹی اطلاعات پہنچائیں۔ ہری سنگھ کو یقین دلایاگیا کہ پاکستان الحاق کے بعد کشمیر میں اس کی حیثیت کو نظر انداز کر دے گا۔ کانگرس نے اسے خصوصی مراعات اور ریاست کشمیر کی بھارتی یونین میں خصوصی حیثیت کا خواب دکھایا۔ اس معاہدے کو بھارتی آئین کی ان دو شقوں کی صورت میں ترتیب دیا گیا جو 5اگست 2019ء کو مودی حکومت نے ختم کر دیں۔ ان شقوں میں کشمیر کی الگ حیثیت کا احترام کرنے کی ضمانت دی گئی‘ کشمیریوں کے معاشی و سماجی مفادات کو تحفظ دینے کے لئے بھارت کے شہریوں پر کشمیر کا ڈومیسائل بنوانے کی ممانعت کی گئی اور شرط رکھی گئی کہ کشمیر میں کوئی غیر ریاستی شخص جائیداد نہیں خرید سکے گا۔ بی جے پی حکومت نے ان شقوں کا خاتمہ کر کے مہاراجہ کشمیر اور شیخ عبداللہ کے ذریعے بھارت نواز کشمیریوں سے کئے گئے وعدے کو پامال کر دیا۔ پاکستان‘ بھارت اور مہاراجہ کے درمیان الحاقی معاہدے کو ہمیشہ مسترد کرتا رہاہے اور اس کا یہ موقف رہا ہے کہ یہ الحاق کشمیری عوام کی مرضی کے بنا محض فوجی قوت کی بنیاد پر عمل میں آیا۔ صاف لفظوں میں اسے ناجائز قبضہ کہا جا سکتا ہے۔ کشمیری عوام نے اس قبضے کے خلاف مزاحمت کی۔ کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے لہٰذا پاکستان اس تنازع میں فریق بن کر سامنے آیا۔ بھارت سے ایک بڑا علاقہ آزاد کرا لیا گیا جسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے۔ مجاہدین اور پاکستانی افواج کے لئے یہ عین ممکن تھا کہ وہ پورے کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرا لیتے کہ بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کر لیا۔ پنڈت نہرو نے وعدہ کیا کہ پاکستان اور کشمیر اگر جنگ بند کر دیں تو بھارت کشمیر میں استصواب رائے کرانے کو تیار ہے۔ یہ وعدہ آج تک پورا ہو سکا نہ اقوام متحدہ‘سکیورٹی کونسل اور دوسرے عالمی ادارے مسلسل فریب دینے والے بھارت کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے۔مقبوضہ کشمیر ایک سال سے بھارتی افواج کے محاصرے میں ہے۔ ریاست میں لاک ڈائون نے زندگی مشکل بنا دی ہے۔ پاکستان نے کئی عالمی فورمز پر کشمیر کا مسئلہ اٹھایا اور بھارتی جبر کو بے نقاب کیا لیکن ترکیہ اور ملائشیا کے سوا کسی مسلم ریاست نے ساتھ نہ دیا۔ اگر دنیا میں پاکستان کے موقف کو کہیں تھوڑی بہت پذیرائی ملی تو اس کے لئے دیرینہ دوست چین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تاہم موقع آ گیا ہے کہ پاکستان اپنی کشمیر پالیسی کا ازسر نو جائزہ لے۔ اس بات کا تجزیہ کیا جائے کہ کوششوں کے باوجود بھارت کو مذاکرات کی میز پر کیوں نہیں لا یا جا سکا۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں دو بار تنازع کشمیر ایجنڈے پر آیا لیکن بھارت کے خلاف قرار داد مذمت منظور نہ کرائی جا سکی۔ پاکستان تنازع کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی بات کرتا رہا اور بھارت آہستہ آہستہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے مکمل قبضے تک پہنچ گیا۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے تو اسے دشمن سے چھڑانے کے لئے ابھی تک کوششیں موثر کیوں نہ ہو سکیں۔ صدر مملکت عارف علوی نے تنازع کشمیر پر اقوام متحدہ کے کردار کو مایوس کن قرار دیا ہے۔ معاملے کی سنگینی کے پیش نظر آرمی چیف نے سینئر حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران سے خطے کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ایک اچھا فیصلہ حکومت نے ایپکس اور سیاسی کمیٹیاں بنانے کیا ہے۔ کشمیر ایپکس کمیٹی میں تمام جماعتوں کے نمائندے ہوں گے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس کے سربراہ ہوں گے جبکہ ایپکس کمیٹی میں جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ اس سے امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان بہتر انداز میں تنازع کشمیر پر اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کر سکے گا۔ رہی بات سیاسی نقشے کی تو یہ ایک واضح مقصد کی علامت ہے۔پاکستان نے بتا دیا ہے کہ کشمیر پورے کا پورا پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت کی حیثیت ایک غیر قانونی قابض کے سوا کچھ نہیں۔