مشکل کو سروں سے ٹالنے والا تو ہے مجھ کو مرے گھر میں پالنے والا تو ہے ہوں سیپ سمندروں میں اور ہوں خالی ہاتھ موتی مری سمت اچھالنے والا تو ہے اللہ بہت بے نیاز ہے مگر شاہ رگ سے قریب تر بھی۔وہ جو چاہتا ہے تو ہوائیں سمندر سے بادلوں کے مشکیزے بھر کر پیاسی اور مردہ زمینوں کی طرف چل پڑتی ہیں اور حیات آفریں برکھا سوتی ہوئی زمینوں کو جگاتی ہے۔ہر طرف زندگی لہلہانے لگتی ہے پرندے چہچہانے لگتے ہیں۔ کسان کا رواں رواں تشکر بجا لاتا ہے۔میں نے قصداً حمدیہ تمہید باندھی کہ اللہ نے کھیل ہی میں سہی مہنگائی کی ماری ہوئی اور حالات کی ستائی پاکستانی قوم کو ایک گوناخوشی نصیب کی۔ایسے ہی فطرت کی مطابقت سے شعر ذہن میں آ گیا۔ جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے۔ آمدم برسر مطلب کہ اللہ کی مہربانی سے پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارت کو تاریخی اور عبرتناک شکست دی۔ ویسے تو میں پہلے بھی لکھتا آیا ہوں کہ ہماری طرح نہ کوئی ہار سکتا ہے اور نہ ہی کوئی جیت سکتا ہے۔ہم ہر حوالے سے دنیا کو حیران کر جاتے ہیں۔ رات کے ٹی ٹونٹی میچ کو میں اس روایت سے مختلف کر کے دیکھتا ہوں کہ اس میں ٹیم ورک کے علاوہ ایک منصوبہ بندی نظر آئی ایک اعتماد حوصلہ اور بردباری باقاعدہ اننگز کو بنا کر کھیلا گیا۔ فخر زماں کی جگہ خود بابر اعظم آئے وہ بہت سنجیدہ اور پراعتماد ہیں وہ بال کو میرٹ پر کھیلتے ہیں اور اس کے ساتھ محمد رضوان بہت خوبصورت سٹروک پلیئر ، مگر اس سے پیشتر فتح کی جو بنیاد شاہین آفریدی نے رکھی اس کا جواب نہیں۔3کھلاڑی جو ٹاپ کے تھے انہوں نے آئوٹ کئے اور بعدازاں وہ مین آف دی میچ ٹھہرے۔مجھے تو ایسا لگتا تھا جیسے کسی طاقت نے بھارتی بلے بازوں کے ہاتھ روک دیے ہوں جہاں بھی وہ خطرناک ہوئے باہر بھیج دیے گئے۔ میں اپنی اور اپنی قوم کی خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔اتوار کی رات بہت ہی سہانی تھی۔ سب اجتماعی طور پر میچ سے لطف اندوز ہو رہے تھے سب کے سب میچ ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کھیلنے والوں کی طاقت بن رہے ہوں۔ میراگمان ہے کہ گھر گھر یہی کچھ ہو رہا تھا۔میچ ختم ہوتے ہی اردگرد سے فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں۔یقینًا مٹھائی کی دکانوں پر بھی رش بڑھ گیا،بے حساب خوشی سیل رواں کی طرح دل میں آئی: اس نے پوچھا جناب کیسے ہو اس خوشی کا حساب کیسے ہو بس اسی طرح کی صورتحال سب کی تھی۔ سب کا خیال تھا کہ انڈیا بہت فارم میں ہے اور یقینا وہ کھلاڑی بھی اچھے ہیں دوسری طرف پاکستان کو منظر سے نکالنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔آپ کے سامنے ہی ہے کہ پہلے نیوزی لینڈ نے دورہ ختم کیا اور واپس چلے گئے۔پھر آسٹریلیا نے بھی متوقع دورہ کرنے سے انکار کر دیا۔ایسے میں ایک نفسیاتی دبائو ہم پر تھا۔مگر اللہ کے فضل سے ہماری ٹیم نے صرف بھارت ہی کو تارے نہیں دکھائے بلکہ کرکٹ کی دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کرکٹ کا کھیل پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بغیر یکسر نامکمل ہے۔ کھیل کو کھیل ہی لینا چاہیے اور اچھا کیا کہ کوہلی نے محمد رضوان کو گلے لگا کر مبارکباد دی۔مگر اس میں جو مسلم یکجہتی کا پہلوہے وہ بہت خوبصورت ہے آپ دیکھتے نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ہماری جیت کا جشن زبردست انداز میں منایا گیا۔ بھارت کے مسلمانوں پر ہندوئوں نے ضرور بلوے کئے ہونگے کہ یہ تھڑ دلے ہندو ہارنے کے بعد سٹیڈیم کی کرسیاں تک جلا دیتے ہیں آپ کو ایک تاریخی میچ جو بھارت میں ہوا تھا یاد ہو گا اس میں کسی نے مشتاق احمد کے ہاتھ پر بلیڈ پھیر دیا تھا: یہ دکھ نہیں کہ وہ سمجھا نہیں مرے فن کو مخالفت کا سلیقہ نہیں تھا دشمن کو ایک اور بات جس کی طرف اردو تحریک کی فاطمہ قمر نے توجہ دلائی وہ یہ تھی کہ شاہین آفریدی اور بابر اعظم نے اردو میں گفتگو کی اور یہ بھی ہمارے لئے فخر کی بات ہونی چاہیے کہ ہم سب اپنا مافی الضمیر اپنی قومی زبان میں بیان کریں۔ انگریزی سچ مچ اجنبی زبان ہے۔ مزے کی بات یہ کہ اس میچ کے حوالے سے بھی سیاست در آئی ۔شیخ رشید صاحب نے فرمایا کہ پہلا میچ ہے جو وہ ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں کسی نے گرہ لگائی کہ آپ آئندہ بھی احتیاط ہی کریں۔ بہرحال اپوزیشن کے لئے اتنی پرمسرت نہ ہو کہ عمران کا دور ہے مگر شہباز شریف مریم اور بلاول نے تو باقاعدہ قومی ٹیم کو مبارکباد دی ہے اس میچ میں اوپن پارٹنر شپ کا نیا ریکارڈ بنا۔ویسے دوسری خوشی بلوچستان کے ناراض ارکان کو ملی کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان مستعفی ہو گئے اس پر بھی دلچسپ تبصرے آ رہے ہیں کہ حکومت کا جام الٹ گیا۔اس کے ساتھ ہی عمران خاں اور ان کی اہلیہ کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا رواں ہے۔دونوں نے عمرہ کیا اور یقینًا انہیں تحفے بھی ملیں گے اور اس پر بات بھی لوگ کریں گے۔ چلیے چھوڑیے ہم کرکٹ تک ہی رہتے ہیں دلچسپ تبصرے چلتے رہے کسی نے کہا جو باقی تیرہ گیندیں رہ گئی تھیں ان کا کیا کرنا ہے ان کھلاڑیوں پر کیا بیتی جن کی باری ہی نہیں آئی۔ سب تجزیہ کار کوہلی اور بابر اعظم کا موازنہ کرتے رہے اور سب نے دیکھ لیا کہ بابر اعظم میں ہر حوالے سے گریس نظر آتی ہے کسی نے لکھا کہ جیتنے کا مزہ ہی تب ہے کہ جب ساری دنیا آپ کے ہارنے کی توقع رکھتی ہو۔ چلیے جاتے جاتے آپ کو ہمارے دوست ڈاکٹر اصغر یزدانی کی طرف سے بھیجی ہوئی ایک پوسٹ پڑھاتے ہیں: ایک افیسر ماتحتوں سے زبردستی مرغن کھانا منگواتے‘کھانے کے بعد آخری ایک دو نوالے ریزہ ریزہ کر کے چڑیوں کو ڈالتے کہ اس سے رزق میں برکت پڑتی ہے۔ایسے ہی چڑیوں کے حوالے سے ایک شعر یاد آ گیا: ڈھیر غلے کا اگر ہے تو نہیں ان کے لئے چونچ میں آتے ہی چڑیا کے فقط دانے دو