’’تنقید بہت ہو چکی اب بتائیے کرنا کیا چاہیے؟‘‘ مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی ولولہ انگیز اور پرجوش تقریر سننے کے بعد جناب وزیر اعظم عمران خان نے ان سے یہ اہم ترین سوال پوچھ لیا۔ یہ نہایت اہم سوال ہے جس کے بارے میں پاکستان کا ہر ذی شعور اور صاحب احساس فرد بھی غور و فکر کر رہا ہے اور پاکستان کا ہر ادارہ بھی اس پر سوچ بچار کر رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیر اعظم نے حسب موقع اچھا خطاب کیا۔ ان کا خطاب ولولہ انگیز بھی تھا اور فکر انگیز بھی۔ عمران خان نے کہا کہ ہم خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاک بھارت روایتی جنگ کا خطرہ ہے مگر جب دو ایٹمی قوتوں کی جنگ چھڑی تو وہ کہاں تک جائے گی۔ اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ وزیر اعظم نے بڑی قوتوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے انڈیا کو نہ روکا تو حالات کے ذمہ دار ہم نہیں ہوں گی۔ عمران خان نے ہندوستان کی تاریخ سے بڑے اہم حوالے دیئے۔انہوں نے کہا کہ جنگ چھڑی تو ہم بہادر شاہ ظفر کا نہیں ٹیپو سلطان کا راستہ اپنائیں گے۔ بہادر شاہ ظفر عظیم الشان مغلیہ سلطنت کے آخری فرمانروا تھے۔ وہ برائے نام بادشاہ تھے۔ ان کی سلطانی و حکمرانی لال قلعہ دہلی تک محدود تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ ظفر 82برس کے تھے جب ان کے سبھی بیٹوں کے سر قلم کر کے میجر ہڈسن نے انہیں تھال میں سجا کر تحفے کی شکل میں بوڑھے ’’بادشاہ‘‘ کو پیش کیے۔ علامہ اقبال نے تقدیر امم بیان کرتے ہوئے بالکل درست کہا تھا کہ شمشیر و سناں اوّل طائوس و ارباب آخر جب حکمران قوت و شوکت سے ناتا توڑ کر شعر و شاعری اور نغمہ و رباب کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں تو پھر ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کو جذبۂ آزادی کی اتنی بھیانک سزا دینے کے بعد انہیں ملک بدر کر کے موجودہ میانمار کے شہر رنگون بھیج دیا تھا۔ جہاں 7نومبر 1862ء کو مغلیہ خاندان کی آخری نشانی بھی رنگون میں دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ بہادر شاہ ظفر شاعر تھے۔ اپنا اور مغلیہ سلطنت کا درد ناک انجام دیکھ کر انہوں نے اشعار کہے تھے ؎ کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں جناب عمران خان نے ہندوستان کی تاریخ کے ایک سنہری باب کا ذکر کیا اور بھارت کو خبردار کیا کہ ہم شیر میسور کا راستہ اختیار کریں گے۔ ٹیپو سلطان 1750ء میں پیدا ہوئے۔ ٹیپو بہترین سپہ سالار اور مصلح تھے۔ میسور کی چوتھی جنگ سرنگاپٹم میں لڑی گئی۔ ٹیپو سلطان نے یہ جنگ قلعہ بند ہو کر لڑی اس موقع پر دو غداروں میر صادق اور پورنیا نے اندرونِ خانہ انگریزوں سے ساز باز کر کے سلطان کو دھوکہ دیا۔ شیر میسور نے انگریزوں کے سامنے جھکنے کی بجائے بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش کیا۔ علامہ اقبالؒ ٹیپو سلطان کے بہت بڑے مداح تھے۔ انہوں نے 1929ء میں ٹیپو سلطان کے مزار پر حاضری دی۔ آپ تین گھنٹے تک مزار کے اندر رہے جب باہر آئے تو آپ کی آنکھیں سرخ تھیں۔ بعد ازاں علامہ نے ٹیپو کے بارے میں کئی اشعار کہے۔ ضرب کلیم میں ان کی نظم ’’سلطان ٹیپو کی وصیت‘‘ کے اس شعر میں ٹیپو کا فلسفۂ حیات بیان کر دیا ہے۔ صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی بھارت کو للکارا ہے اور اسے باور کروایا ہے کہ ہم کشمیریوں کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ بھارت اچھی طرح جانتا ہے کہ ہزار داخلی اختلافات کے باوجود بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستانی قوم یک آواز ہوتی ہے۔ مودی کو معلوم ہونا چاہیے کہ بھارتی آئین کی دفعہ 370اور 35اے سے چھڑ چھاڑ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ کھلواڑ کر کے مودی نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، یو این او اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی نفی کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے دستور کی غیر قانونی طور پر دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اس اقدام کے خلاف عملاً اب ہندوستان اور پاکستان کے مابین شملہ معاہدے جیسی دوطرفہ دستاویزات عملاً غیر مؤثر ہو گئی ہیں۔ اسی لیے تو مودی کے اقدام پر بھارتی اپوزیشن بھی سراپا احتجاج ہے۔ پاکستان کے دوستوں میں سے اس وقت تک بھارت کو سب سے بہترین جواب چین نے دیا ہے۔ ’’ہم لدّاخ کو بھارت میں ضم کرنے کا اقدام مسترد کرتے ہیں۔ بھارتی قانون سازی کے باوجود مقبوضہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے۔ پاکستان اور بھارت مذاکرات سے مسائل حل کریں‘‘۔ اب اہم ترین سوال کی طرف آتے ہیں کہ پاکستان کیا کرے؟ پاکستان سب سے پہلے اس ثالث سے رجوع کرے جس نے صرف چند روز پہلے دوبار کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کرانے کو تیار ہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی اقدام سے آگاہ تھے اور وہ جس ثالثی کی بات کر رہے تھے وہ مودی کے اس دستور کُش اقدام کے بعد کی ثالثی کا عندیہ ظاہر کر رہے تھے۔ ایک تھیوری یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ مودی کی ثالثی ہندوستان اور پاکستان کی رضا مندی سے ہی ہو گی کہ ’’ادھر ہم ادھر تم‘‘ یعنی مقبوضہ کشمیر بھارت کا اور آزاد کشمیر پاکستان کا اور موجودہ کنٹرول لائن کچھ ردوبدل کے ساتھ مستقبل بنا دیا جائے گا۔ سوا کروڑ کشمیریوں کی موجودگی میں ایسا ہونا نا ممکن ہے۔ پاکستان سب سے پہلے تو یہ کرے کہ وہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلائے اور خطے کی انتہائی حساس نوعیت سے کونسل کو با خبر کرے اور بھارت کی قانون شکنی اور دستور کشی کے بارے میں ممبران کو آگاہ کرے اور مقبوضہ کشمیر میں کئی روز سے جاری کرفیو کو ختم کرائے اور بھارت پر زور دے کہ وہ فی الفور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرے، قتل و غارت گری کا سلسلہ روکے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پابندی کی یقین دہانی کرائے اور اپنی دستوری ترمیم واپس لے اور کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرے۔ پاکستان دوسرا اقدام یہ کرے کہ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلائے اور عرب ممالک کی طرف سے بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کروانے کی قرارداد منظور کرائے۔ امریکہ سے بعض پاکستانی اور عرب دوستوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت کشمیر کو اپنا صوبہ ڈیکلیئر کر کے اب وہاں اسرائیلی ماڈل کے مطابق اہلِ کشمیر کی زمینیں خرید بھی لے گا اور ہتھیا بھی لے گا اور جیسے اسرائیل نے فلسطینیوں کو عرب ملکوں کی طرف ہانک دیا تھا اسی طرح بھارت کشمیریوں کو آزاد کشمیر کے سرحدی علاقوں کی طرف مہاجر قافلوں کی صورت میں دھکیل دے گا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ بیچارے فلسطینیوں کا پرسان حال کوئی نہیں اور عربوں نے بھی درپردہ اسرائیل سے صلح کر لی ہے۔ یہاں ایٹمی پاکستان نہ صرف کشمیریوں کی پشت پر کھڑا ہے بلکہ تنازع کشمیر میں پاکستان خود ایک اہم فریق ہے۔ ایک خبر یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ افغانستان اور کشمیر آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور یہ سارے اقدامات خطے میں قیام امن کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو بھارت نے یکطرفہ طور پر اقدام کر کے کشمیر میں جلتی پر تیل کیوں چھڑکا ہے؟ حکومت پاکستان سارے تجویز کردہ اقدامات اٹھائے مگر سب سے پہلے حل کے حوالے سے مختلف شکوک و شبہات کا ازالہ کرے۔ انگریزی اور عربی بولنے والے پاکستانی دانشوروں کے وفود باہر بھیجے اور مسئلہ کشمیر کی حقیقت دنیا کے ہر فورم پر اجاگر کرے۔ پاکستان کے کرنے کے یہی کام ہیں جنہیں وہ بلا تاخیر کرے مگر سب سے پہلے بوڑھے سید گیلانی کی پکار کا جواب دے کہ ہم کسی حال میں آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔