محفل سے اٹھ نہ جائیں کہیں خامشی کے ساتھ ہم سے نہ کوئی بات کرے بے رخی کے ساتھ اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ کبھی کبھی لینے کے دینے پڑ ہی جاتے ہیں۔ نیلما نے کہا تھا’’کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں۔ ہم جیتے جی مر جاتے ہیں’’جی بالکل ہوتی ہیں اور وہ ہوتی بھی ہوشربا قسم کی ہیں مثلاً صوبائی وزیر توانائی اختر ملک نے کیا خوب بیان دیا کہ ہم روتے روتے ہنس پڑے۔ ستم ظریف نے فرمایا کہ ورلڈ کپ جیتنے پر کرکٹرز کو تاحیات مفت بجلی دیں گے۔ پھر فرمایا کہ وہ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ہے نیا پاکستان۔ سبحان اللہ۔ پہلی بات تو یہ کہ نہ نومن تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی۔ اگر تو یہ وزیر مکرم کی بزلہ سنجی ہے تو درست‘ مگر توقع نہیں۔ دوسری بات یہ کہ حضور کس برتے پر قوم کے وسائل ایسے لٹا سکتے ہیں یہ بیان پوری دنیا کے لئے یقینا ایک مذاق اور لطیفے سے کم نہیں۔ اگر یہ ترغیب ہے تو بہت مضحکہ خیز ہے۔ وزیر توانائی کو معلوم ہونا چاہیے ٹیم کو کھیلنے کے لئے اپنی توانائی کی ضرورت ہے۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ حکومت کے وزیر مشیر کیا کیا تماشے کرتے رہتے ہیں۔ قوم کی حالت دیکھیں کہ رمضان شریف کے مبارک مہینے میںایک تو شدید گرمی اور پھر مہنگائی اس کے بعد مرے کو مارے شاہ مدار۔ قوم پر ایک اور پٹرول پمپ گرا دیااور پھر عین عید کے قریب عید کی ساری خوشیاں غارت کر دیں۔ لوگ سراسیمگی میں پوچھتے ہیں کہ آخر یہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے جواب آتا ہے اپوزیشن کی کرپشن۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر کدھر ہیں؟ جواب ملتا ہے اپوزیشن کی کرپشن نہیں چھپنے دیںگے۔ اب تو یہ کرپشن کرپشن عوام کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح لگنے لگی جو سزا عوام کو مل رہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ یہ ساری کرپشن عوام نے کی تھی۔ وہ ہرے برے خواب جو خان صاحب نے انہیں دکھائے تھے زرد پڑ چکے ہیں یہ بڑی خوفناک بات ہے کہ لوگ بے دل سے ہو گئے ہیں۔ کوئی اٹھتا ہے تو کہہ دیتا ہے چاہے پیٹرول 200روپے لیٹر ہو جائے عوم برداشت کریں گے لوگوں کو اس سے کیا سروکار کہ آپ افغانستان کے صدر سے ملاقات کریں یا مودی سے ملنے کے لئے بیک ڈور ڈپلومیسی میں تیزیاں لائیں۔ تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں۔ ہمارا مقدر دیکھو کہ ہر میدان میں ہم ڈھیر ہو رہے ہیں کہیں امان دکھائی نہیں دیتی۔ اب کرکٹ کا ہی دیکھیں جیسے یہ آنا فانا ہارے ہیں شیر بدر یاد آ گئے: نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی بڑی آرزو تھی ملاقات کی ’’جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا‘‘ پہلا مصرع تو آپ کو آتا ہو گا کہ بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔ ہماری ٹیم نے تو حد ہی کر دی کہ افطاری سے پہلے پہلے کام سمیٹ لیا۔ پت جھڑ صرف محاورہ نہیں۔ یہ ہماری بیٹنگ سے معلوم ہوا۔ دوسری بات اچھی یہ ہوئی کہ ان لوگوں کی غلط فہمی اچھی طرح دور ہو گئی۔ جو کہتے تھے کہ افغانستان سے وارم اپ میچ میں ہم بائی چانس ہار گئے گویا کہ یہ ہمارے ساتھ اپ سیٹ ہو گیا۔ کچھ لوگ اس وقت بھی سٹپٹا گئے تھے کہ نہیں ہماری ٹیم اسی سطح کی ہے۔ آصف محمود نے پوسٹ درست لگائی کہ ہم انفرادی گیم نہیں کرتے بلکہ ٹیم ورک پر یقین رکھتے ہیں پوری ٹیم نے مل کر سنچری بنائی یعنی 105سکور۔105سکور تو اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات تھی۔ یہ تو اکیلا گیل ہی بنا لیتا وہ بڑے موڈ میں تھا اس نے اچھا دھونا شروع کیا تین چھکے اور 10چوکوں کی مدد سے ففٹی کی۔ وہ ہے ہی ایسا کھلاڑی کہ اس نے کوئی وضعداری کا ثبوت نہیں دیا کہ کچھ لحاظ ہی کر لیتا۔ میں تو شکر کرتا ہوں کہ ہمارا وقت اس لئے بچ گیا کہ ویسٹ انڈیز نے بائولنگ کا فیصلہ کر لیا وگرنہ تو کچھ نہ پوچھیے ہمارے ساتھ ہونا کیا تھا۔ اس سے بھی زیادہ جو نیوزی لینڈ کے ساتھ ہوا کہ شاید سکوروں کا ایورسٹ کھڑا ہو جاتا۔ ہنسی اس بات پہ آئی کہ کچھ لوگ پوسٹ لگا رہے تھے کہ سرفراز کی جگہ ٹیم میں نہیں بنتی۔ خدا کے بندے سرفراز کیا پوری ٹیم کی جگہ اب کرکٹ میں نہیں بنتی۔ بدن بولی ہی سے ہمارے کھلاڑی بوند لائے ہوئے تھے۔ ان کے بائولر بھی جو اتفاق سے ساڑھے چھ چھ فٹ کے ہیں اور یہ بدبخت گیند یں اچھالے چلے جا رہے تھے وہ چاہتے ہی نہیں تھے کہ ہمارے سپر سٹار شارٹس کھیل سکیں ۔ بائونسر پر بائونسر ہمارے کھلاڑی تو ان کے ہر اچھال کو خود بھی بائونسر بنا رہے تھے ان کے انداز کرکٹ کے ہم عادی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ ہمارے بیٹسمین کے اردگرد سیاہ سایوں کی طرح گھیرا بنائے فیلڈنگ کر رہے تھے۔ گیل کو وہ سلپ میں کھڑا کر دیتے ہیں جو دیو قد اور بڑے بڑے ہاتھ‘ بال جائے تو جائے کہاں؟ہمارے کھلاڑیوں پر غیر معمولی پریشر بڑھایا گیا۔ سوائے فخر زماں کے سب کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے ہمارا پیارا سا شاعر کاشف رفیق تو کرکٹ کا جنون رکھتا ہے اس نے تو پاکستان کو آئوٹ ہی کر دیا۔ بہرحال کچھ رجائیت پسند ’’تماشبین ‘‘ ضرور حوصلہ بڑھاتے رہے کہ کوئی بات نہیں 92میں ہم نے اس سے بھی کم سکور کیا تھا اور پھر ورلڈ کپ اٹھایا تھا۔ گویا کہ موجودہ کارکردگی ان کے نزدیک بہت بہتر تھی۔ سچی بات یہ کہ میں تو بہت نرم دل ہوں مجھ سے تو دیکھا نہ گیا میں نے ٹی وی بند ہی کر دیا۔ مگر ٹی وی بند کرنے سے کیا ہونا تھا۔ بلی کبوتر تو لے گئی۔ اور چلو: درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی اپنی اپنی رائے ہے اور اس کا سب کو حق ہے یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ ایک بات تو ہے کہ اکثر کا ورلڈ کپ بخار اتر گیا وہی جو کسی نے کہا تھا’’کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے‘‘ ہم بھی ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے ویسے تو ہم یہ پہلے ہی جانتے ہیں کہ ہمارا کوئی اعتبار نہیں۔ ویسٹ انڈیز والے بڑے بے لحاظ ہیں کہ وہ ایسے خوشی منا رہے تھے جیسے ہمیں چڑا رہے ہوں ایک سوال سب کر رہے تھے کہ رضوان کو کیوں ڈراپ کیا گیا۔ میرے خیال میں اگر شعیب ملک کو ڈال لیا جاتا تو شکست ذرا دور ہو جاتی میرا مطلب ہے شعیب ذرا لیچڑ کھلاڑی ہے اٹکا رہتا ہے فی الحال تو ساری انتظامیہ ہی دم بخود ہو گی چلیے ہم ایمانداری سے دیکھیں تو یہ سب کچھ غیر متوقع نہیں کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم نے بہت بیک اپ کیا ہے اور شاید اب کوئی بھی اس کالی آندھی کو نہ روک سکے اور اب ایسا لگتا ہے کہ ورلڈ کپ کا فائنل انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہو گا۔ ہماری بدقسمتی کہ سب سے پہلے ہم ویسٹ انڈیز کے ہاتھ چڑھ گئے ان کے بائولر بھی ہم سے اچھے ہیں کہ وہ تو بیٹس مین کو کمر بھی سیدھی نہیں کرنے دیتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام پاکستانیوں کی جو کرکٹ ٹیم پر تنقید ہے درپردہ یہ محبت کی علامت ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ٹیم کو ہارتے نہیں دیکھ سکتا۔ یہ غصہ بھی تو ہے کہ سلیکشن میرٹ پر نہیں ہوئی۔ خیر جو بھی ہے حکومت اپنا کھیل ٹھیک کھیل رہی ہے لوگ بھی ان کے کھیل کو سمجھتے ہیں وہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکلوا رہی ہے۔ دس روپے بڑھانے کا تاثر دے کر 5روپے بڑھا دیتی ہے تاکہ عوام اسے بھی حکومت کی طرف سے رعایت سمجھیں۔ حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ پریشر ککر پھٹ بھی سکتا ہے۔ آخر میں آصف شفیع کا نہایت خوبصورت شعر: وہ پھول ہے اور ہم نے اس کو کتنا خودسر بنا دیا ہے