ملک عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے ، گویا ہم نے ایک اور سنگ ِ میل عبور کرلیا۔تمام تر مشکلات کے باوجود پارلیمنٹ نے اپنی آئینی مدت مکمل کرلی ، اور پچیس جولائی کے بعد انتقال ِ اقتدار کا مرحلہ طے پانے جارہا ہے ۔ یقینا یہ خوشی کا موقع ہے ، خاص طور پر جب گزشتہ سال سے افواہ ساز فیکٹریاں انتخابات کے التوا اور جمہوری طریقے سے انتقال ِ اقتدار میں رکاوٹ کی خبریں پھیلا رہی تھیں۔ موجودہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تمام خدشات بے بنیا دتھے۔ اب اگر جولائی کے آخری ہفتے سے پہلے کوئی سیاسی بھونچال نہ آیا تو ملک اگلی حکومت کے انتخاب کی طرف بڑھ رہا ہوگا۔ لیکن سیاسی نظام میں داخلی طور پر موجود عدم توازن اس جمہوری عمل کو متاثر کررہا ہے ۔ اگرچہ پی ایم ایل (ن) کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرچکی لیکن اسے شدید دبائو کا سامنا ہے ۔ سابق وزیر اعظم ِ نواز شریف زندگی بھر کے لیے نااہل ہوچکے ہیں۔ اُن کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کوبھی کئی ایک تحقیقات کا سامنا ہے ۔ وہ بھی میڈیا کے ہدف پر ہیں۔ نوازشریف کی صاحبزادی مریم صفدر احتساب عدالت کے سامنے اپنا دفاع کرنے کی کوشش میں ہیں۔ پی ایم ایل (ن) کی شاخوں سے کچھ پرندے پرواز کرچکے ہیں، گرچہ بالائی اور مرکزی پنجاب میں پارٹی کے الیکٹ ایبل دھڑے کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا‘ نواز شریف کی مقبولیت اپنی جگہ موجود ہے، جس کی تصدیق گیلپ پاکستان کے ایک حالیہ سروے سے ہوتی ہے ۔ نوازشریف نے بہت کامیاب جلسے کیے ہیں اور ان میں عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ رمضان میں بھی عوام اُن کی آواز پر گھروں سے نکلے ۔ دکھائی دیتا ہے کہ نوازشریف کو ایک چومکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے، اُن کے جلسوں میں عوام کی شرکت کوآورد سے زیادہ آمد قرار دیا جاسکتا ہے ۔ وہ بے دھڑک ہوکر عوام سے مخاطب ہیں کہ کچھ نادیدہ طاقتیں، جن کے لیے موجودہ دور میں ’’خلائی مخلوق ‘‘کی اصطلاح ایجاد ہوئی ہے، 2014 ء سے اُن کے درپے ہیں۔ ان طاقتوںکی شہ پر دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اُن کی حکومت گرانے کی کوشش کی گئی ۔ پنجاب کے مرکز سے اس قسم کا انقلابی نعرہ یقینا پہلی مرتبہ سنائی دیا ہے اور یہ ایک اہم معاملہ ہے۔ پنجاب میں ابھرنے والا سیاسی نقشہ اسلام آباد میں حکومت کا تعین کرتاہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نوازشریف کی مقبولیت انتخابی کامیابی میں تبدیل ہوتی ہے یا نہیں؟ شاید اتنی کامیابی نہ مل پائے جتنی نوازشریف کے کیمپ کے کچھ رجائیت پسند امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ نوازمخالف طاقتوں نے کامیابی سے الیکٹرانک میڈیا کو قائل کرلیا ہے ۔ ملک میں معلومات کا بنیادی ذریعہ الیکٹرانک میڈیا ہی ہے ۔ سوشل میڈیا بھی فعال ہے لیکن ملک کے 70 فیصد افراد آن لائن نہیں ہیں۔ چنانچہ سیاسی ترجیحات کی سمت طے کرنے میں ٹی وی فیصلہ کن کردارادا کررہا ہے ۔ اس وقت نواز شریف مخالف کیمپ کا راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ الیکشن سے قبل نواز شریف اور اُن کی بیٹی کو سزا ہوسکتی ہے ۔ ایسی صورت میں پی ایم ایل (ن) کی انتخابی مہم شدید متاثر ہوگی ۔ یہ بات درست ہے کہ قید کی صورت میں اُنہیں ہمدردی کا ووٹ مل سکتا ہے لیکن انتخابات میں قیادت کا سامنے ہونا ضروری ہے ۔ جنوبی ایشیا کی سیاست، جو ابھی تک شخصیت پرستی کے سحر سے باہر نہیں نکلی، میں قیادت کی جھلک جماعت اور ووٹروں کے درمیان تعلق پیدا کرتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگرچہ پی ایم ایل (ن) کا وفادار ووٹر اپنی جگہ پر موجود ہے لیکن مقامی سطح پر فیصلہ کن عوامل، جیسا کہ انتخابی حلقوں میں خبریں مع افواہیں پھیلانے والے دھڑوں، ٹائوٹ، برادری کے بڑوں کا جھکائو پی ٹی آئی کی طرف ہوسکتا ہے ۔ یہ فعال دھڑے سیاسی ہوا کا رخ قبل ازوقت بھانپ لیتے ہیں ۔ چوتھی بات یہ کہ پی ایم ایل (ن) کے تمام حامی شاید نوازشریف اور اُن کی بیٹی کی ٹکرائو کی سیاست کا ساتھ نہ دے پائیں۔ پانچویں بات یہ کہ ریاست میں موجود ہر طاقت پی ایم ایل (ن) کے خلاف ہے۔ اس پر گزشتہ دنوں کچھ حساس معاملات میں سنگین الزامات بھی عائد کیے گئے ۔ اس صورت میں کوئی معجزہ ہی اسے کامیابی دلا سکتا ہے ۔ ایک تھنک ٹینک، پلڈاٹ (PILDAT) کے مطابق انتخابات سے پہلے کا عمل ’’غیر منصفانہ ‘‘تاثر دے رہا ہے ۔ اس نے میڈیا اور اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے تشویش ناک جھکائو معلوم کیا ہے ۔ اس کی غیر جانبداری کا تناسب انتہائی کم ، یعنی 33.4 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ میڈیا کی آزادی مشکلات سے دوچار ہے۔ ریاستی اداروں کے اثر کی وجہ سے اسے صرف 37.8فیصد آزادی حاصل ہے ۔ اس طرح کی صورت ِحال پی ایم ایل (ن) کے حق میں کسی طور پر بہتر نہیں۔ جمہوریت اور میڈیا کی آزادی لازم وملزوم ہیں۔ درحقیقت میڈیا کی اپنی صفوں میں طویل عرصے سے جاری محاذآرائی اور دھڑے بندی نے اسی آزادی اور جمہوری عمل کی شفافیت پر تشویش ناک سائے گہرے کر دیے ہیں۔ دبائو کے وقت یہ اپنا مفاد دبائو کے سامنے جھک جانے میں دیکھتا ہے۔ کچھ آزاد مبصرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کے دن تک ہونے والی فیصلہ کن پیش رفت ہمیشہ نظروںسے اوجھل رہتی ہے اور رائے دہندگان کو اتنا زیادہ متاثر نہیں کیا جاسکتا لیکن ووٹنگ بلاکس کی فکری رہنمائی کرنے والے حقیقت پسند ہوا کار خ دیکھتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ اگر ایک جماعت اُن کی توقع پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی تو اُن کا جھکائو دوسری طرف ہوجاتا ہے ۔ جنوبی پنجاب اُس جگہ نہیں کھڑا جہاں 2013ء میں تھا۔ چنانچہ جولائی میں اٹک سے لے کر اوکاڑہ تک کی ایک سوسے زائد نشستیں عمران خان یا شہبازشریف کی قسمت کا فیصلہ کردیں گی۔ یہ تمام عوامل بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی فتح کی لکیر کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن کیا وہ یہ صرف تحمل سے طے کرپائے گی ؟پنجاب کی گلیوں میں گزشتہ ایک برس کے دوران جس طرح کی جذباتی تحریک دیکھنے میں آئی ہے، اُس نے زیادہ تر سیاسی پنڈتوں ، بشمول شریف برادران کو حیران کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کی نیم پختہ سچائیاں اور اُن کی اہمیت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ یہ مرکزی دھارے کی سوچ پر ضرور اثر انداز ہوتی ہیں۔ الیکشن کے نتائج جو بھی ہوں، ایک بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ اگلی حکومت کمزور ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ سویلین کے ہاتھ سے اتھارٹی مزید نکل جائے گا۔ یہ وقت ہے جب پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہے کہ کیا اُنہیں اس سلسلے کو کہیں روکنا چاہیے یا نہیں؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کو داخلی اور خارجی طور پر اتنے پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے کہ یہ سیاسی عدم استحکام کسی طور پر متحمل نہیں ہوسکتا۔