آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ میں کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پائیدار امن و استحکام کی طرف گامزن ہے۔ ملک ماضی میں کئی چیلنجز کے سامنے ڈٹا رہا ہے۔ امن و استحکام کا سفر مشکل ہے لیکن یہ مثبت سمت میں جاری ہے۔ ہمیں ثابت قدمی کے ساتھ قومی مقاصد کے حصول کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف نے خطاب کے دوران مشرقی سرحد پر حالیہ کشیدگی اور دہشت گردی کے خلاف آپریشنز میں نوجوان افسروں کی کارکردگی کو خصوصی طور پر سراہا۔ پاکستان سوویت یونین کے خلاف جہاد اور پھر امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس کردار کی وجہ سے پاکستان کئی تنازعات میں الجھ گیا اور معاشی بہتری کے عمل کو نظرانداز کر بیٹھا۔ جنوبی ایشیا دنیا کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ ہے۔ اس آبادی کو غربت، افلاس اور پسماندگی نے جکڑ رکھا ہے۔ یہاں کے لوگ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ خطے کی ریاستیں بڑی طاقتوں کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ اپنا دفاعی بجٹ بڑھائیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ امن و استحکام کے رستے میں کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ امن کا مطلب ہے کہ غیر ضروری تنازعات سے بچا جائے، درپیش تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے، ایسے مواقع اور ماحول پیدا کیا جائے جس میں امن نشو و نما پا سکے۔ وہ معیشتیں جنہیں پرامن ماحول میسر آیا انہوں نے سرمائے اور افرادی قوت کا استعمال زیادہ اچھے طریقے سے کیا۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ اس کا ایک بڑا ہمسایہ ہمیشہ اس کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرتا رہا ہے جبکہ مغربی ہمسائے کی خانہ جنگی اور عدم استحکام کے باعث پاکستانی معاشرے اور ریاست کو مسلسل اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ دونوں جانب مسئلہ یہ ہے کہ اپنی نا اہلی اور کوتاہی کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جاتا ہے۔ افغانستان سے دہشت گرد اور عسکریت پسند پاکستانی علاقوں میں گھس کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ بائیس سو کلو میٹر سے طویل سرحد پر ایسے کئی مقامات ہیں جہاں سے دہشت گرد سرحد پار کرتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے یہ بات خصوصی طور پر سامنے آئی ہے کہ بلوچستان میں یکایک دہشت گردانہ حملوں میں تیزی آ گئی ہے۔ یہ بات بھی اب راز نہیں رہی کہ بھارت مشرقی سرحدوں پر کشیدگی برقرار رکھنے کے لیے گولہ باری کرتا رہتا ہے۔ بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی ایک سنگین معاملہ ہے۔ دو ماہ پہلے بھارتی طیاروں نے پہلے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور پھر بین الاقوامی سرحد عبور کر کے پاکستانی علاقے میں اپنا پے لوڈ گرایا۔ اس موقع پر پاکستان کے لیے جواب دینا ناگزیر ہو گیا اور اگلے ہی روز بھارت کے دو طیارے گرا کر پاکستان نے بتا دیا کہ وہ کمزور نہیں۔ بھارتی حکومت کو اپنے گرفتار ہوا باز ابھی نندن کی رہائی بھی پاکستان دشمنی سے باز نہ رکھ سکی۔ عمران خان نے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھانے کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ تمام اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حامی ہیں۔ انہوں نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی۔ جس کے جواب میں بھارتی حکومت نے چپ سادھ لی۔ پاکستان نے بھارتی سکھ یاتریوں کے لیے بابا گورونانک کی آخری آرام گاہ تک کرتار پور میں راہداری کھولنے کا اعلان کیا۔ اس راہداری کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔ کرتار پور راہداری کی تقریب سنگ بنیاد میں وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر بھارتی حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارت سے تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کی اس پیش کش کو صرف وزیر اعظم کا فیصلہ نہ سمجھا جائے بلکہ اس فیصلے میں تمام ادارے بھی شریک ہیں۔ یہ بات فراموش نہیں کی جا سکتی کہ فوج کا بنیادی کام لڑنا ہے۔ اس کی اسی صلاحیت کے لحاظ سے کارکردگی کا تعین کیا جاتا ہے۔ بھارت کے اکثر لوگوں کے لیے عمران خان کی بطور وزیر اعظم تقریب حلف برداری میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور نوجوت سنگھ سدھو کا گلے ملنا ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھا۔ اس مختصر ملاقات میں جنرل باجوہ نے کرتار پور راہداری کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ دراصل پاکستان کی عسکری قیادت اس امر سے واقف ہے کہ تنازعات کو جب بھی فوج کشی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی نئے تنازعات ابھر آتے ہیں۔ خطے میں دو طرح کی قوتیں صف آراء ہو رہی ہیں۔ ایک طرف امریکہ ہے، جس نے بھارت کو جنوبی ایشیا میں اپنا نیا اتحادی چنا ہے۔ دوسری طرف چین ہے جو دنیا کے ایک سو کے لگ بھگ ممالک کے مابین ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت تجارتی تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ بھارت بدقسمتی سے امریکی جال میں پھنس چکا ہے۔ امریکہ دنیا کو 18سال سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے جھوٹے اور جعلی اعدادوشمار بتا کر یہ باور کرا رہا ہے کہ اس کی افواج ناقابل شکست ہیں حالانکہ افغانستان میں بیرکوں میں دبکے ہوئے امریکی فوجی ناکامی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ بھارت اور امریکہ ایک نئے گٹھ جوڑ کے ساتھ چین اور پاکستان کی پرامن کوششوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بھارت کی انتہا پسند جماعت بی جے پی ایک بار پھر جیت چکی ہے۔ نریندر مودی کی پرتشدد پالیسیوں پر بھارتی عوام کی اکثریت نے اعتماد کیا ہے۔ نئے مینڈیٹ کے بعد بھارتی حکومت مذاکرات کی راہ اختیار کرتی ہے یا پھر سابقہ روش برقرار رکھتی ہے اس کا اندازہ چند روز میں ہوا چاہتا ہے تا ہم جنرل قمر جاوید باجوہ کا سٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب اس امر کی دلیل ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت ابھی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی بابت مایوس نہیں۔ پاکستان کا مؤقف اس وقت دنیا میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ یقیناً بہت سی مشکلات ہیں جو اس وقت راہ میں کھڑی ہیں مگر امن دنیا کی ضرورت ہے۔ جہاں امن ہو گا دنیا کو آخر کار اس ریاست کا احترام کرنا پڑے گا۔