تعلیم وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے کسی بھی معاشرے کی اقدار، روایات، رسم و رواج اور تہذیب و تمدن ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کی جاتی ہیں۔ تعلیم صرف تدریسی عمل کا نام نہیں بلکہ اس کے ذریعے معاشرے کی تشکیل و اصلاح بھی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم نا صرف معاشرے کے افراد میں زندگی گزارنے کا احساس و شعور بیدار کرتی ہے بلکہ انہیں سماجی سانچے میں ڈھالنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔ تعلیم کو عمرانیات میں تربیت کے دوسرے بڑے ادارے کی حیثیت حاصل ہے جس سے زندگی میں کچھ حاصل کرنے کی مہارتیں اور آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کسی بھی ملک میں اعلیٰ تعلیم سماجی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے لہذا اس مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے جامعات کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے، اس وقت ملک بھر میں ایچ ای سی سے الحاق شدہ 180 جامعات موجود ہیں جن میں 59 فیصد سرکاری جبکہ 41 فیصد پرائیویٹ ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 81 فیصد طالب علم سرکاری جبکہ 19 فیصد پرائیویٹ جامعات میں داخلہ لیتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں جامعات کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے لیکن اب ان میں تعلیم کا معیار ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا۔ جامعات میں داخلہ لینے کے لیے کچھ مضامین میں 80 سے 90 فیصد نمبر حاصل کرنا لازمی قرار دیا جاتا ہے جس سے اعلیٰ درجے کی مسابقت ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں طالب علموں کی ذہانت کا اندازہ انکے حاصل کردہ نمبروں سے لگایا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایسی کوئی جامعہ موجود نہیں جو بین الاقوامی سطح پر 100 بہترین جامعات کی فہرست میں اپنا نام و مقام بنا سکے۔ آج شاید ہی ایسی کوئی جامعہ موجود ہو جسکا اولین مقصد طالب علموں کے ذہنوں میں روشن خیالی کو اجاگر کرنا ہو۔ جامعات سے فارغ التحصیل نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، بہت کم طالب علم ایسے ہیں جو پیشہ ورانہ تعلیم میں مہارت رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جامعات پیشہ ورانہ تعلیم کے ضمن میں مارکیٹ سے مربوط کیوں نہیں ہو سکیں۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی کیا وجوہات ہیں؟ یہ فارغ التحصیل نوجوان جدت و اختراع سے نابلد ہیں کیونکہ ان میں سے بہت سے ملازمت کی درخواست لکھنے سے بھی قاصر ہیں، اکثر نوجوان جامعات میں زیادہ نمبر تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب ان سے اپنے شعبہ سے وابستہ مضامین کے متعلق کتب کے مطالعہ کا پوچھا جائے تو ان کا جواب نفی میں ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جامعات میں پڑھایا جانے والا طریقہ کار غیر معیاری ہے ۔ چند نوٹس اور سلائیڈ پر مشتمل مواد کو پڑھ کر بہترین سی جی پی حاصل کر لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جامعات کی جانب سے نوجوانوں کو مارکیٹ میں ایسی پراڈکٹ کی شکل میں داخل کیا جاتا ہے جس کا نہ کوئی گاہک ہوتا ہے نا اسکی قدر و قیمت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جامعات انہیں اعلیٰ درجات سے کیوں نواز رہی ہیں؟ اس سوال کا جواب دینا ماہرین تعلیم، حکومت و جامعات کی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان میں طالب علم اپنی زندگی کے 16 سے 18 سال تعلیم حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں لیکن اگر ان سے معیاری تحریر لکھنے کو کہا جائے تو لکھنے سے قاصر ہونگے کیونکہ جامعات میں طلباء طالبات کی ذہنی صلاحیتوں کو قید کر لیا گیا ہے اور ان میں تنقیدی سوچ کی صلاحیتوں کا فقدان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جامعات میں تحقیق کا معیار بھی گر چکا ہے، حکومت کی جانب سے جامعات کو اتنے وسائل نہیں دیے جا رہے جس سے وہ اپنی تحقیق کا معیار بلند کر سکیں۔ جب طالب علموں کو تحقیق کا کام سونپا جاتا ہے تو وہ متن چوری کر کے اسے اپنا نام دے دیتے ہیں جو تحقیق کے قواعد کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتا ہے۔ طالب علم محنت کرنے سے گھبراتا ہے اور ایسے راستے اختیار کرتا ہے جس سے اس کا کام آسان ہو جائے اور محنت بھی نہ کرنی پڑے۔ اس لیے پاکستان میں ایسے لوگوں کا کاروبار پروان چڑھ رہا ہے جو چند پیسوں کے عوض طالب علموں کو تحقیق کا کام کر کے سونپ دیتے ہیں۔ یہ نوجوان جب ملازمت کے لیے کسی ادارے میں جاتے ہیں تو تحقیق کے حوالے سے ناقص معلومات ہونے کی بنا پر انہیں ملازمت ملنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔ یہ نوجوان تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش میں نکلتا ہے تو اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون سی ملازمت کرے؟ پاکستان میں نجی و سرکاری جامعات میں کورس ورک پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، اب تک کسی بھی جامعہ نے اس بات پر توجہ مرکوز نہیں کی کہ نوجوانوں کو ملک و قوم کے لیے ہنر مند کیسے بنایا جائے۔ تعلیمی ادارے پیسے کمانے کا ایک ادارہ بن رہے ہیں جس میں ہنر سکھانے کی اہمیت کھوٹے سکے جتنی رہ گئی ہے۔نوجوان اپنے ہنر سے روشناس ہی نہیں ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں ایسے مضامین اور سرگرمیاں متعارف کرائی جائیں جن سے انہیں آگے چل کر فائدہ پہنچے۔ اسی طرح جامعات کی جانب سے ایسے پروگرام و سرگرمیاں تشکیل دی جانی چاہئیں جن سے نوجوان اپنے ہنر و ذہانت سے آشنا ہو سکیں اور انکی صلاحیتوں میں نکھار آ سکے۔ جامعات کی جانب سے طالب علموں کو بتایا جائے کہ پاکستان میں وہ کون سے مضامین ہیں جنکا دائرہ کار وسیع ہے اور جن کے ذریعے ملازمت میں آسانیاں ہو سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا، حکمرانوں کی جانب سے بہت سے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن زمینی حقائق ان دعووں کی تائید نہیں کرتے۔ ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور حکومت اس نظام پر توجہ مرکوز کریں تاکہ مستقبل میں ان تعلیمی اداروں پر کوئی انگلی نا اٹھا سکے۔