اَنوکھی روایات کے سبب پاکستان دنیا کا منفرد ملک ہے جہاں کسی پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی کیڈر) کے کسی افسر کو ظلم و زیادتی کا شکار نہیں ہونا پڑتا۔ صرف اِتنا ہی نہیں بلکہ پی ایس پی افسر کے کسی عزیز یا رشتے دار تک کوبھی آج تک در در کی ٹھوکریں نہیں کھانی پڑیں۔کسی نے آج تک کسی سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کو انصاف کی خاطر کسی تھانے کے سامنے ذلیل و خوار ہوتے نہیں دیکھا۔ ایس ایچ او، ڈی ایس پی، ایس پی، ایس ایس پی، ڈی آئی جی، ایڈیشنل آئی، آئی جی سمیت سبھی افراد نے آج تک ذاتی مسائل کی دادرسی کے لئے کسی کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا۔سکون کے ساتھ رہائش پذیر رہے۔ اسی طرح کسی سیکرٹری، اْس کے کسی عزیز حتی کہ کسی سیکشن افسر تک کو تنخواہ اور بعد از ریٹائرمنٹ پنشن کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آج تک کسی نے ریٹائر سیکرٹری کو بغل میں فائلیں دبائے سیکرٹریز کے دفاتر کا چکر لگاتے نہیں دیکھا۔ایسا نہیں کہ اِنہیں مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا یا عام آدمیوں کی طرح اِنہیں مشکلات درپیش نہیں ہوتیں۔ ان سب افراد کو عام عوام کی طرح ہی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ یا تو ایسے افراد کی فائلوں کے نیچے پہیے لگ جاتے ہیں یاپھر یہ اِ س قدر معصوم اور ’مقدس‘ افراد ہوتے ہیں کہ اِن کے سارے کام خود بخود ہوجاتے ہیں۔ اِن سب کو اپنے مسائل کا حل اپنے دروزے پر ہی ملتا ہے۔ یہ مملکت ِ خداداد کی ایسی ’مقدس‘ اشرافیہ ہے جسے بھاری بھرکم تنخواہوں، ناختم ہونے والی مراعات، لامحدود اختیارات اور بعد از ریٹائرمنٹ تادم ِ مرگ کروڑوں اوراربوں روپے کی سہولیات میسر رہتی ہیں کیونکہ دورانِ سروس اس ملک و عوام کے لئے اِن کی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ صرف عوامی و ملکی خدمات ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے اداروں کی ’حرمت‘ کے لئے انہوں نے ایسی قانون سازی کر رکھی ہے کہ بندہ خدا سے تو شکوہ کرسکتا ہے مگر ’عظیم ہستیوں‘ سے اِن کے فرائض ِ منصبی کی انجام دہی پہ سوال، عوام کی نظر میں غلط فیصلوں پہ جواب دہی اور اختیارات کے بے دریخ اور غلط استعمال پہ سزا کا تصور کرنا ہی غداری جیسے سنگین جرائم کی فہرست میں نام لکھوانے جیسا ہے۔ بلاشبہ یہ ایسی ’عظیم‘ ہستیاں ہیں کہ مرنے کے بعد یہ اپنی اولادوں کیلئے خود بخود وسیلہ ِ ملازمت اور طاقتور سفارش کا کام کرتی ہیں۔گزشتہ پچھتر سال کے دوران یہی دیکھا گیا ہے کہ مملکت ِ خدادادِ پاکستان محض اِنہی ’مقدس‘ ہستیوں کے وجود کو قائم و دائم رکھنے کے لئے قرہِ ارضی کے نقشے پر تشریف فرما ہوئی ہے۔ اِن ہستیوں نے ملک کی اَستیوں کو کبھی دریائے سندھ تو کبھی دریائے چناب میں بہانے میں کوئی کسر نہیں اْٹھارکھی۔سچ تو یہ ہے کہ صرف ربِ ذوالجلال کے کرم کے طفیل یہ وطن ِ عزیز چلتا جارہا ہے وگرنہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے بڑے بابوؤں نے ملک توڑنے کی سازش کرنے سے لے کر عوام کی کثیر تعداد سے غلاموں جیسا سلوک کرنے کی پوری منصوبہ بندی کررکھی ہے۔اور بے ایمانی کے جذبوں سے سرشار اْس منصوبہ بندی پہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک وہ پوری ایمانداری سے عمل پیرا ہیں۔ عوام روٹی کے لئے ترس رہی ہے، یہ پچاس پچاس روپے کے نوٹ بانٹ رہے ہیں۔ عوام تاریخ کے بدترین سیلاب میں ڈوب رہی ہے، یہ جہازوں پہ بیٹھے مسکراتے ہوئے ڈوبتی عوام کو ہاتھ ہلا کر آخری سلام پیش کررہے ہیں۔عوام انصاف مانگ رہی ہے، یہ بیس بیس گاڑیوں کے پروٹوکول میں دھڑے بندی اور پریشر گروپ کا’فریضہ‘ سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ مغربی ممالک سے بھیک مانگ کر شادیانے بجارہے ہیں، عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبتی جارہی ہے۔ یہ فن ِ گداگری پر شاداں ہیں اور عوام کو سیاہی کے طور کو نور بنا کر پیش کررہے ہیں۔ کسی بھارتی شاعر نے نظمیہ انداز میں اپنے اور ہمارے حالات کی کیا خوب ترجمانی کی ہے۔ سب کچھ ہے اپنے دیس میں، روٹی نہیں تو کیا؟ وعدہ لپیٹ لوجو لنگوٹی نہیں تو کیا! عالم بڑے بڑے ہیں، تو لیڈر گلی گلی؛ بارش ہے افسروں کی، تو دفتر گلی گلی؛ شاعر، ادیب اور سخنور گلی گلی، سقراط دربدر ہیں، سکندر گلی گلی؛ سب کچھ ہے اپنے دیس میں، روٹی نہیں تو کیا؟ وعدہ لپیٹ لو جو لنگوٹی نہیں تو کیا! حاکم ہیں ایسے دیس کا قانون توڑ دیں، رشوت ملے تو قتل کے مجرم بھی چھوڑ دیں؛ نگراں جو ملزمان کی آنکھیں بھی پھوڑ دیں، سرجن ہیں ایسے پیٹ میں اْوزار چھوڑ دیں! سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا؟ وعدہ لپیٹ لو جو لنگوٹی نہیں تو کیا! ہر قسم کی جدید عمارت ہمارے پاس، ہر ایک پردہ دار تجارت ہمارے پاس؛ اپنوں کو لوٹنے کی جسارت ہمارے پاس، کھیلوں میں ہارنے کی مہارت ہمارے پاس؛ سب کچھ ہے اپنے دیس میں، روٹی نہیں تو کیا؟ وعدہ لپیٹ لوجو لنگوٹی نہیں تو کیا! ہرسَمت راج پاٹ کا جھنڈا لگا ہوا، ہر راستے میں فلمی نگینہ جڑا ہوا؛ ہر موڑ پر جوان سپاہی کھڑا ہوا، ہر شئے کے انتظام پہ پردہ پڑا ہوا؛ سب کچھ ہے اپنے دیس میں، روٹی نہیں تو کیا؟ وعدہ لپیٹ لوجو لنگوٹی نہیں تو کیا! نینوں کے مئے کدے ہیں تو زلفیں دراز بھی؛ بولی میں وہ مِٹھاس کہ بجتے ہیں ساز بھی؛ ہر سر میں ہے غرور تو ہر دل میں ناز بھی؛بنتے ہیں اپنے دیس میں ہوائی جہاز بھی، سب کچھ ہے اپنے دیس میں، روٹی نہیں تو کیا؟ وعدہ لپیٹ لوجو لنگوٹی نہیں تو کیا!ہرکان جل رہا ہے یہاں پر بیان سے، سرکار کے ستون تو ایسے ہیں شان سے؛ قرضہ تو مل رہا ہے ہمیں ہر دکان سے، خیرات آرہی ہے بڑی آن بان سے؛ سب کچھ ہے اپنے دیس میں، روٹی نہیں تو کیا؟ وعدہ لپیٹ لوجو لنگوٹی نہیں تو کیا! یہ نور کا نہیں تْو سیاہی کا طْور ہے، ہر جھول، ہر گناہ کا ہم کو شعور ہے؛ دنیا کے اور دیسوں کو دھن پہ غرور ہے، فن ِ گداگری پہ ہمیں بھی عبور ہے؛ سب کچھ ہے اپنے دیس میں، روٹی نہیں تو کیا؟ وعدہ لپیٹ لوجو لنگوٹی نہیں تو کیا!