ایرانی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل محمد باقری نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں دونوں ملکوں کے مابین فوجی تعاون بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ایرانی چیف آف جنرل سٹاف گزشتہ چالیس برس میں پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے اعلیٰ ترین فوجی عہدیدار ہیں۔ تاریخی طورپر خوشگوار سیاسی تعلقات کے زمانے میں بھی پاکستان اور ایران کے درمیان فوجی سطح کے رابطے قابل ذکر نہیں رہے‘ اسی لیے میجر جنرل محمد باقری کے تین روزہ دورے کو خطے کی سلامتی و استحکام کے تناظر میں کسی نئے علاقاتی تعاون کے حوالے سے دیکھا جارہا ہے۔ خطے کی نئی سکیورٹی ضروریات کے متعلق پاکستان کی حکمت عملی سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ ایران کے ساتھ فوجی تعلقات کی بنیاد رکھنے والے آرمی چیف ہیں۔ گزشتہ برس انہوں نے ایران کا دورہ کیا اور علاقائی سکیورٹی کے متعلق ایرانی حکام سے تبادلہ خیال کیا۔ بعدازاں چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر نے ایران کا دورہ کر کے آرمی چیف کی شروع کی گئی کوششوں کو تقویت دی۔ پاک ایران سرحد ایک مدت سے دہشت گردی سے منسلک گروہوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ان گروہوں کی وجہ سے دونوں برادر مسلم پڑوسیوں کے باہمی تعلقات میں بداعتمادی اور تلخی پیدا ہوتی رہی ہے۔ ایران کا خیال ہے کہ پاکستان میں بعض فرقہ پرست گروہ ایرانی علاقوں میں گھس کر بدامنی پھیلاتے ہیں اور واردات کے بعد سرحد کے قریب پاکستانی علاقوں میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ ایران کی شکایات پر متعدد مرتبہ پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں نے ایسے گروہوں اور افراد کے خلاف کامیاب کارروائیاں کی ہیں مگر یہ بداعتمادی کسی نہ کسی سطح پر برقرار رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو گلہ ہے کہ اس کا مشرقی ہمسایہ بھارت ایران کی بین الاقوامی مشکلات کا فائدہ اٹھا کراسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں مالی تعاون کی فراہمی اور ایران سے تیل کی بڑی مقدار میں خریداری کا لالچ دے کر بلوچستان میں گڑ بڑ پیدا کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت تجارتی تعلقات کی آڑ میں ایسے منصوبوں پر عمل پیرا ہے جو پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا سکیں۔ ایرانی چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل محمد باقری سے پاک ایران سرحد پر باڑ نصب کرنے کے منصوبے پر بات کی گئی ہے۔ ایران کے فوجی حکام بھی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے خواہشمند ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے پاکستان کے لیے خطے میں بہت کچھ بدلا ہے۔ امریکہ سے دوستی اور اتحاد والا تعلق اب صرف سکیورٹی ضروریات کے تحت کچھ نچلی سطح کے رابطوں تک محدود ہو گیا ہے۔ بھارت کو امریکہ کی کھلم کھلا حمایت دستیاب ہو چکی ہے۔ دونوں کی دوستی عمومی تجارت اور دفاعی رابطوں سے بڑھ کرتزویراتی حدود کو چھو رہی ہے۔ نئی دفاعی ٹیکنالوجی‘ ایٹمی ٹیکنالوجی کے جدید اور سویلین استعمال‘ بین الاقوامی سیاست میں ایک دوسرے کے موقف کا ساتھ دینا اور خطے میں ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت کا عہد بھارت امریکہ تعلقات میں جھلک رہا ہے۔ دونوں کی تجارتی اور دفاعی طاقت نے خطے میں طاقت کا توازن خراب کردیا۔ پاکستان میں ایسی حکومت برسراقتدار رہی ہے جو بین الاقوامی امور میں پاکستان کو غیر فعال اور لاتعلق رکھ کرطاقت کا یہ توازن مزید بگاڑنے کا باعث بنی۔ سابق حکومت کی اہم شخصیات کبھی پوشیدہ اورکبھی کھلے لفظوں میں پاکستان کی عالمی تنہائی کو فوج کی مداخلت کا نتیجہ قرار دیتی رہیں۔ سیاسی قیادت نے ہمسایہ ممالک سے خراب ہوتے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوئی ایک سنجیدہ کوشش نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مقابل بھارت‘ افغانستان اور امریکہ کا نکتہ نظر دنیا میں قبولیت پاتا نظر آیا۔ پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگایا جاتا رہا اور مسلم لیگ ن کے رہنما حافظ سعید‘ ممبئی دھماکوں اور کشمیر کے متعلق اس انداز سے اظہار رائے کی آزادی استعمال کرتے رہے جس سے دشمن ممالک کا موقف درست قرار پاتا تھا۔ دو ماہ قبل آرمی چیف کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد نے افغانستان کا دورہ کیا۔ وفد نے افغان حکومت اور امریکی حکام کو دو ٹوک انداز میں بتایا کہ پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو پھر خطے کے امن کی دشمن طاقتیں بے لگام ہو جائیں گی۔ داعش نے افغانستان میں مسلسل دہشت گردانہ وارداتیں برپا کر کے امریکی اور افغان سکیورٹی فورسز کی بے بسی بے نقاب کردی۔ افغان حکومت نے عید سے چند روز قبل جنگ بندی کی تجویز دی۔ افغان طالبان نے اس تجویز کو قبول کیا۔ اس جنگ بندی کو افغانستان کے عوامی حلقوں کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ عیدالفطر کے بعد اسی جنگ بندی کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ نے افغان طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کرنے کی اپیل کی۔ افغان طالبان نے اس اپیل کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ مذاکرات صرف امریکہ سے ہوں گے اور اس مذاکراتی ایجنڈے میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کا معاملہ سرفہرست ہوگا۔ بارہ جولائی کو پاکستان نے روس‘ چین اور ایران کے انٹیلی جنس چیف حضرات کو مدعو کیا۔ اس اجلاس کا مقصد داعش کے ہاتھوں افغانستان کی سکیورٹی کو لاحق خطرات اور ان خطرات کا افغانستان کے ہمسایہ ممالک تک ممکنہ پھیلائو کا جائزہ لینا تھا۔ اس اجلاس میں اس امر پر بھی غور کیا گیا کہ عراق اور شام سے افغانستان منتقل ہونے والے داعش جنگجوئوں کو کس طرح غیر موثر بنایا جا سکتا ہے۔ خطے کے ان ممالک کا مشترکہ فکرمندی کے تحت ایک دوسرے سے تعاون کا فیصلہ بین الاقوامی برادری میں اپنی کھوئی ہوئی حیثیت بحال کرنے کے آرزومند پاکستان کے لیے ایک قیمتی موقع کے مترادف ہے۔ ممکن ہے افغانستان کے ان ہمسایہ ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کو امریکہ سمیت کچھ قوتیں خطے میں ایک متبادل بلاک کے طور پر دیکھ رہی ہوں تاہم ان ممالک نے افغان جنگ کے پرامن اختتام کی جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس کے لیے ابھی طویل مشاورت اور مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ داعش نے افغانستان کے کئی علاقوں میں اپنے مرکز بنا لئے ہیں جہاں سے وہ سرحد پار دہشت گردانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں پاکستان میں دہشت گردی کی مسلسل وارداتیں بھی خطے میں طاقت پکڑتی داعش کی کارروائیاں ظاہر ہورہی ہیں۔ پاکستان کی فوجی قیادت نے داخلی بحران کے ساتھ خارجی محاذ پر اپنی فعال کارکردگی سے بھارت اور امریکہ کے پروپیگنڈا کو غیر موثر بنا دیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ پاک ایران دفاعی تعاون دوطرفہ تعاون کے نئے امکانات کی دریافت کا ذریعہ ثابت ہوگا۔