6نومبر1947ء کی تاریخ کشمیرکاایک خونی باب ہے ۔اس دن جموں کے غدر کاجگر چیر دینے والاایسا وحشت انگیزسانحہ پیش آیاکہ جس کا تذکرہ لکھتے ہوئے قلم بھی آنسو بہانے پر مجبور ہے۔ ہلاکو اور چنگیز جیسے قاتلان انسانیت کے پیروکار وں نے جموں میںبڑے پیمانے پر مسلمانانِ جموں کا قتل عام کیا۔یہ گناہ رہتی دنیا تک سول لباس میںملبوس بھارتی قابض فوج ،ہندودہشت گرد تنظیم آرایس ایس اور اس کی تمام شکلوں کے ماتھے پر نظر آتا رہے گا۔27 اکتوبر1947ء کو جب اسلامیان جموںو کشمیر ، جو پہلے ہی ڈوگرہ ظلم و ستم کے شکار تھے پر قیامت صغری برپا ہوئی اگرچہ جموں وکشمیر کے چاک گریبان مسلمانوں کی داستان الم یکساں ہے تا ہم یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 6نومبر کاجموں غدر میں جموں کے مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل ریاست جموںو کشمیر کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ اور بڑی قربانی پیش کرنے میں سر فہرست ہے۔ 14اگست1947 ء کو قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ریاست جموں وکشمیرکے خطہ جموں میں سنگ دل ہوائیں چل پڑیں، یوں کہہ لیجئے کہ پورے گلشن ایک انہونی خوف طاری ہونے لگاجس سے فصیل انسانیت زمین بوس ہونے کایقین پختہ ہونے لگا۔ طفلاں گلی کوچہ کی ہاو و ہو معنی سے خالی ہونے لگی۔ جموں کے مسلمانوں کاایک ہجوم جموں کے مرکزی چوک میں جمع ہے لیکن ہکاوبکا،کچھ سجھائی نہیں دے رہاکہ آخر ہم کریں کیا۔دوسری طرف گرگ گرسنہ کے نتھنوں میں لہو کی باس ہے۔ بلندیوں میں پرواز کرتے پرندوں کی آنکھیں مگر جانتی دیکھ رہی تھیں کہ مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑاغدرہونے والاہے ۔ ہندوئوں نے اودھم مچائی رکھی تھی خوف ، سراسیمگی ، غیر یقینی اور اضطراب پھیلا کر آتشیں بھڑکائے جارہے تھے۔ ہر سوار ترشول بکف اور ہر پیادہ قہر مجسم اورکوئی ہتھیار بند؟ ہر چوراہے میں ٹکٹکی پر باندھ کر جموں کومسلمانوں کے لہو سے لالہ زاربناتے چلے جارہے تھے۔ مظلوم جموں کے مسلمانوں کی عظیم قربانیوں اور ان کی اولوالعزمی کو دیکھ کر زبان سے بے ساختہ نکلتا ہے کہ جموں کے مسلمانوں کی عظمت کو سلام۔ 6نومبر کے غدر میں اس صوبے کے پانچ مسلم علاقوں جموں ، کٹھوعہ ، اودھم پور اور ریاستی میں مسلم آبادی کو ختم کر دیا گیا ان کے گھر بار جلا دئیے گئے ،جو اس غدر میں زندہ بچے وہ آگ اور خون کے طوفان سے گزر کر پاکستان پہنچے۔جموں میں عین اس وقت مسلمانوں پر غدر ہوا کہ جس وقت مشرقی پنجاب میں پٹیالہ ، نابھہ اور جنید میں مسلم آبادی بری طرح لٹ رہی تھی۔ اس وقت سردار ولبھ بھائی پٹیل بھارت کے وزیر داخلہ اور بلدیو سنگھ وزیر دفاع تھے۔ اس لئے دونوںسردار پٹیل اور بلدیو سنگھ اس جرم عظیم کے براہ راست ذمہ دار تھے ۔دونوں کا ارادہ تھا کہ جموں کی طرح وادی کشمیر میں بھی مسلمانوں کا صفایا کر دیا جائے لیکن خدا نے اپنی مہربانی وادی کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کا تشخص باقی رکھا۔ 24 نومبر1947ء کوبھارتی وزیر داخلہ ہند سردارو لبھ بھائی پٹیل ، وزیر دفاع سردار بلد یو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ وارد جموں ہوئے اوریوں ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ مسلمانوں کے قتل عام کا ناپاک منصوبہ تشکیل پایا۔ اس شرمناک منصوبے کے تحت ڈوگرہ حکومت نے اعلان کیا کہ پاکستان جانے کی خواہش مند مسلمان 5 نومبر1947ء کو پولیس لائنز جموںمیں پہنچ جائیں۔چنانچہ پاکستان کی محبت میں جموں کے مسلمانوں کاایک ہجوم اپنے آباد اور پر رونق گھروں کو چھوڑ کر پولیس لائنز جموں آپہنچا، وہاں پر ٹرکوں اور لاریوں کا ایک قافلہ ترتیب دیدیا گیااور ان نہتے اور بھوکے ننگے ستم رسیدہ مسلمانوں کو36 ٹرکوں میں سوار کیا گیا۔ اس قافلے کو سیالکوٹ(براستہ آر ایس پورہ)لے جانے کے بجائے سانبہ لے جایا گیااور اسے لیپرہسپتال (Leper Hospital ) کے قریب پہنچایا گیاجہاں بندوقوں ، تلواروں ، کلہاڑیوں،بھالوں اور برچھیوں سے لیس سول وردی میں ملبوس بھارتی فوجی اہلکاروں اور تربیت یافتہ ہندو دہشت گردآرایس ایس کے غنڈوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کے رکھ دیا جسے زمین و آسمان چیخ اٹھے۔خوش پوش مسلمانوں کے کپڑے اتارے گئے اور کہا گیا کہ یہ کپڑے مہاراجہ ہری سنگھ کی( Property)ہے ۔6نومبر1947ء کو اس قافلے کی تمام خواتین اسلام جن میں زیادہ ترنوجوان بچیاں تھیں کواغواکیا گیااوربے بس اورنہتے مسلمان مردوں کاقتل عا م کیاگیااوربچوں کو نیزوں پر اچھالا گیا ۔ اس قتل عام کے لئے سانبہ کے دور دراز علاقے کو محض اس لئے چن لیا کہ جموں میں باقی موجودرہنے والے مسلمانوں کو اس کی خبر نہ پہنچ پائے ۔ چار ہزار کے قریب اس قافلے میں شامل لوگوں میں سے صرف نو سو افراد پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس قافلے میں ریاست کی مایہ ناز ہستیوںکو شہید کیا گیا۔ پروفیسر ملک فضل حق ، پروفیسر محمد عمر ، بابو فضل الدین ، پروفیسر شیخ عبد الرشید ، قاضی قمر الدین ، مستری فیروز الدین، پروفیسر قمر الدین ، سردار سلیم خان ، سردار اکرم خان، راجہ محبت خان جیسے جموں کے اکابرین اس قافلے میں تھے ۔ہندوڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی پشت پناہی سول لباس میں ملبوس بھارتی فوج راشٹریہ سیوک سنگھ(RSS )کررہی تھی۔ ان دنوں جموں میں انتظامیہ کا عملی کنٹرول انہی کے ہاتھوں تھا۔ راشٹریہ سیوک سنگھ(RSS ) کے کمانڈر پونا’’ ممبئی‘‘ سے آکر جموں اودھم پور ، ریاسی اور دوسرے اہم شہروں میں اپنی نگرانی میں قتل عام کروا رہے تھے ، جموں شہر مسلمانوں کی آبادی کا بڑا شہر تھا ۔ یہ مہاراجہ ہری سنگھ کی جنم بھومی بھی تھا۔ یہاں کے مسلمان ریاست میں سیاسی جدوجہد کا ہر اول دستہ تھے۔ انہیں زیادہ بے رحمانہ اور سنگدلانہ ظلم و ستم کا اس طرح نشانہ بنایا گیا کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔بسیں واپس پولیس لائنز مزید مسلمانوں کے قافلے لینے کیلئے گئیں ،ان کی نشستیں اور فرش خون سے لت پت تھے ۔ایک دومسلم نوجوان بچ کر واپس پہنچے ۔انہوں نے پیچھے منتظرعسیر الحال مسلمانوں کو اطلاع دی کہ قافلے پر کیا قیامت بپا کی گئی۔واضح رہے کہ مسلمانانِ جموں کا قتل عام اس وقت ہوا جب رسوائے زمانہ ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعہ مشرقی پنجاب کے مسلم اکثریت والے ضلع گورداسپور بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کیلئے ایک راستہ نکال کر گرداسپور کو بھارت میں شامل کیا گیا ۔ بھارت کے پہلے برطانوی گورنر جنرل لارڈ موومنٹ بیٹن اور ہانڈری کمیشن کے چیئرمین ریڈ کلف بھارتی حکمرانوں کے شانہ بشانہ اس سازش کو تیار کرنے میں کھڑے تھے ۔