فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایک عالمی ادارہ ہے اس ادارے میں امریکہ‘ برطانیہ‘ بھارت‘ چین اور ترکی سمیت 25ممالک جن میںخلیج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں اس ادارے کا قیام1989ء میں عمل میں لایا گیا تھا اور اس ادارے کا بنیادی مقصد بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی‘ کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دیگر خطرات سے محفوظ رکھنا ہے۔ ابھی حال ہی میں (ایف اے ٹی ایف)کے اجلاس میں پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی گرے لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ پیرس میں ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کی انہوں نے اس اجلاس کو بتایا کہ اینٹی منی لانڈرنگ‘ دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے اور کالعدم تنظیموں اور دیگر گروہوں کے خلاف پاکستان نے سخت اقدامات کئے ہیں اس کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر لیا جانا خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ فیصلہ انتہائی تشویشناک ہے اب کسی بھی وقت پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ اب ایران بلیک لسٹ ہونے کی بنا پر عالمی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہو رہا ہے۔ (ایف اے ٹی ایف) امریکہ اور بھارت کے دبائو میں ہے اور یہ دونوں ممالک مل کر ترکی‘ چین اور سعودی عرب پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف اقدامات کریں یہ سب کچھ اب پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ان ممالک کا اگلا اقدام پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں ہو سکتا ہے پاکستان کی معیشت تو پہلے ہی تباہ ہو چکی ہے جو کہ ایک منظم عالمی منصوبہ بندی کے ذریعے تباہ کی گئی ہے جس میں خود سابق حکومت (نواز حکومت) کا بڑا ہاتھ رہا ہے جیسا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عالمی قرضے لے کر پاکستان کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسحاق ڈار نے Economic Hit Manکا کردار ادا کیا ہے دوسری جانب خوفناک حد تک پاکستان آبی ذخائر کے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے اور پانی کا بحران سنگین صورت حال اختیار کر رہا ہے جس سے پاکستان خشک سالی سے دو چار ہو گا پاکستان کو تباہ کرنے کے یہ منصوبے عالمی طاقتوں کی گہری سازش کا نتیجہ ہیں۔ عالمی طاقتیں جب بھی کسی ملک کو تباہ کرتی ہیں وہ اس ملک کی معیشت اور پھر اس کے قدرتی وسائل کو بھی مختلف ذرائع سے تباہ کرواتی ہیں جن میں ملک کے سیاستدانوں اور بڑے بڑے کاروباری لوگوں کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی ہیں حتیٰ کہ انتخابات میں بھی اثر انداز ہونے کی کوششیں کرتی ہیں اور اپنی پسند کی حکومت بھی قائم کروانے میں اپنا خفیہ کردار بھر پور انداز میں ادا کرتی ہیں۔ امریکی مصنف John Perkinsنے 2004ء میں اپنی کتاب Confession of an Economic Hit Manمیں جو کچھ کہا وہ غور کے قابل ہے۔ اس وقت خطے میں بھارت ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے اور دہشت گردوں کی تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کرتا ہے خاص طور پر پاکستان کے خلاف بھارت کے تمام عزائم اب کھل کر سامنے آ چکے ہیں بلوچستان میںدراندازی اور کشمیر میں قتل و غارت گردی کے واقعات اب کھل کر مغربی پریس میں رپورٹ ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف آبی بحران پیدا کرنے کی منصوبہ بندی بھی بھارت ہی کا ایجنڈا ہے اس کے باوجود امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بعض غیر مصدقہ رپورٹس کو بنیاد بنا کر پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے خود پاکستان میں تمام حالات اس قدر گھمبیر بنائے گئے ہیں کہ معیشت تباہ کر دی گئی ہے کسی کو کوئی پروا نہیں پوری قومی غیر ملکی قرضوں میں جکڑ دی گئی مزید قرضے لیے جا رہے ہیں کیونکہ اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ ملک کا کاروبار زندگی ان قرضوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتا قومی خزانے کا سابق محافظ ملک کی معیشت تباہ کر کے چلا گیا اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے جہاز میں ملک سے فرار کروا دیا گیا اور اب لندن میں چھپا بیٹھا ہے اب نیب اسے واپس پاکستان لانے کے لیے انٹرپول سے رابطہ کر رہی ہے پاکستان کی معیشت تباہ کرنے میں بڑی وجہ کرپشن بھی ہے اس کرپشن میں سابقہ حکومتیں جن میںآصف علی زرداری اور میاں نواز شریف دونوں ہی کے ادوار کرپٹ ترین ادوار میں شمار ہوتے ہیں ان ہی کے ادوار میں غیر ملکی قوتوں کو پاکستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی جرات بھی ہوئی اور ملکی ترقیاتی منصوبوں میں ان کا کردار بھی اس بنا پر بڑھا کہ پاکستان کو ان قوتوں کے بھاری قرضے تلے جکڑ دیا گیا اور پھر ان ہی طاقتوں کی مرضی کے مطابق پاکستان کی معاشی پالیسیاں مرتب ہونے لگیں۔ آج پاکستان غیر ملکی قرضوں تلے دب چکا ہے اور ان قرضوں پر سود در سود بھی ادا کر رہا ہے۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جو کہ پاکستان دشمن قوتوں نے اپنا کر پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے اپنا رکھی ہے اور ہمارے سیاستدان بدقسمتی سے ان قوتوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر پاکستان کی قسمت سے کھیل رہے ہیں جو مملکت معاشی طور پر تباہی سے ہمکنار ہوتی ہے وہ دنیا میں اپنی خود مختاری اور وقار بھی کھو دیتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اس وقت لگ بھگ 105بااثر سیاسی گھرانوں کے نرغے میں ہے یہ خاندان ماضی میں 22خاندانوں کے نام سے جانے جاتے تھے اب یہ خاندان بڑھتے ہوئے سو سے بھی زائد ہو چکے ہیں ان خاندانوں کے بااثر لوگ جن میں ان کے باپ‘ بیٹیاں‘ بیٹے ‘ بھائی ‘ دادا‘ پوتا ‘ نواسہ اور پھوپی یہ سب سیاسی میدان میں عملی طور پر سرگرم ہیں جو کہ اب 2018ء کے قومی انتخابات میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑ رہے ہیں قومی دولت پر ان خاندانوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ بڑے بڑے کاروباری پراجیکٹ ان ہی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ملک کی تمام بڑی انڈسٹریز بھی ان ہی خاندانوں کی ہیں شوگر ملز اور دیگر بڑے ترقیاتی منصوبے بھی ان ہی خاندانوں کے لوگوں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ حکومت سے بھاری قرضے لے کر اپنے کاروبار کو فروغ دیا جاتا ہے اور پھر یہ قرضے معاف بھی کروائے جاتے ہیں بیرون ملک ان خاندانوں نے اپنی جائیدادیں اور اثاثے بھی بنا رکھے ہیں صرف دوبئی اور لندن ہی کو مثال بنا کر دیکھا جائے تو ان اہم شہروں میں ان خاندانوں کی جائیدادوں کا کوئی حساب ہی نہیں ملک میں یہ خاندان کس قدر قومی ٹیکس ادا کرتے ہیں اس کی تفصیل ایف بی آر کی رپورٹس میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اصل حقیقت ہی یہ ہے کہ سیاست کاروبار کا دوسرا نام ہے کروڑوں روپیہ خرچ کر کے انتخابات لڑے جاتے ہیں اور پھر اقتدار میں آ کر قومی خزانہ لوٹا جاتا ہے سب مل کر اس کھیل کا حصہ بنتے ہیں لوٹی ہوئی قومی دولت بیرون ملک لے جائی جاتی ہے اس طرح غیر ملکی آقائوں کے زیر سایہ رہ کر پاکستان میں قومی پالیسیاں مرتب ہوتی ہیںجو کہ سراسر پاکستان کی معیشت کو تباہ کر رہی ہیں۔ پاکستان اس وقت خوفناک حد تک معاشی طور پر کھوکھلاہو چکا ہے جس میں خود ہمارے اپنے ہاتھ بھی شامل ہیں جو کہ دولت اکٹھی کر رہے ہیں مگر وہ اس طرح غیر ملکی ایجنڈے کا عملی طور پر حصہ بن رہے ہیں جو کہ پاکستان کو ہر قیمت پر تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو حقیقی معنوں میں جس جمہوری مملکت بنانے کا خواب دیکھا تھا وہ خواب ابھی تک بدقسمتی سے پورا ہی نہیں ہوا ابھی تک اس مملکت کو رہنما کی تلاش ہے جو کہ قائد بن کر اس قوم کی قیادت کر سکے افسوسناک امر ہے کہ ہم جناح سے ضیاء الحق تک پھر ضیاء الحق سے جنرل پرویز مشرف تک کوئی بھی قومی اور بین الاقوامی قدو قامت والا قومی رہنما پیدا ہی نہیں کر سکے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو دونوں ہی نے اپنی قابلیت اور اعلیٰ صلاحیتوں کے بل بوتے پر پاکستان کو درست سمت میں لانے اور عالمی سطح پر اعلیٰ مقام دلوانے کی کوشش تو کی مگر ان دونوں کو قدرت نے موقع ہی نہ دیا کہ وہ ملکی سیاست میں رہتے ۔ملکی اور غیر ملکی ہاتھوں کی سازشوں کا شکار ہو کر یہ دونوں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ 25جولائی 2018ء کو ہم ایک بار پھر قومی انتخابات کی جانب بڑھ رہے ہیں اس موقع کو غنیمت جان کر ہمیں اب قومی رہنما تلاش کرنا چاہیے جو کہ اس قوم کو متحد بھی رکھے اور قومی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرے اور پھر مملکت پاکستان کرپشن فری بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے اور اس سرزمین پر جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے۔