ہائوس آف شریف ایک طویل عرصہ تک پاکستان میں حکمرانی کرتا رہا ہے۔ اس پورے عرصے میں اس خاندان نے اپنے اقتدار او ذاتی کاروبار کو مضبوط بنانے میں جس طرح غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ اپنے روابط قائم کئے یہ پاکستانی تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ خاندان ماضی میں سعودی عرب کے شاہی خاندان کی مدد سے جس طرح پاکستان سے سعودی عرب گیا، اس وقت کیا شرائط طے ہوئیں؟ ۔ تمام مقدمات وقتی طور پر ختم کر کے کرپشن کے تمام مقدمات بھی داخل دفتر کر دیئے گئے، یہ سب کچھ پاکستان کے اندرونی معاملات میں برادر اسلامی ملکی کی کھلی مداخلت تھی یہ وہ عوامل ہیں کہ باربار اس خاندان کو اقتدار میں آنے کا موقع ملتا رہا۔ پورا خاندان ایک ساتھ اقتدار میں بھی رہا اور برابر اپنے ذاتی کاروبار کو بھی فروغ دیتا رہا۔ بھارت کے علاوہ دوبئی اور برطانیہ میں اس خاندان کی اولادوں نے اپنے کاروبار خوب چمکائے، پاکستان سے قومی خزانہ لوٹ کر دولت کے انبار یورپی بنکوں میں لگائے اس ضمن میں حکومتی مشینری کا بھرپور استعمال کیا گیا حتیٰ کہ سفارتی ذرائع تک اس نجی کاروبار کی غرض سے خوب استعمال ہوئے، نومبر2014ء میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ایک کانفرنس کے موقع پر میاں نواز شریف نے کھٹمنڈو کے ہوٹل میں سجن جنڈال کے پرائیویٹ کمرے میں بھارتی وزیر اعظم مودی کے ساتھ ایک گھنٹے تک ملاقات کی۔ اس ملاقات میں پاکستان کی وزارت خارجہ اور عسکری اداروں کے کسی بھی اعلیٰ افسر نے شرکت نہیں کی۔ اسی طرح نریندر مودی کی بطور بھارتی وزیر اعظم حلف برداری کی تقریب میں شریک میاں نواز شریف نے اپنے صاحبزادے حسین نواز کے ساتھ نجی ملاقاتوں کو اہمیت دی اس طرح دھلی کے ہوٹل تاج مان سنگھ میں اپنے صاحبزادے حسین نواز کے ہمراہ سجن جنڈال سے اپنے ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کی غرض سے ملاقاتوں کے کئی دور کئے، ان تمام موقعوں پر سفارتی آداب کی دھجیاں اڑائی گئیں بطور پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے حریت کانفرنس کے کشمیری رہنمائوں سے بھی ملاقات کرنا مناسب نہ سمجھا صرف اور صرف اپنے صاحبزادے کے ذاتی کاروبار کے سلسلے میں سجن جنڈال کے علاوہ بھارت کے دیگر کاروباری لوگوں سے رابطہ قائم کیے رکھا، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو میاں نواز شریف نے جاتی امرا میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر میاں شہباز شریف اور میاں صاحب کے سمدھی اسحاق ڈار اس قدر خوش تھے کہ انہوں نے نرینذدر مودی کی جاتی امرا آمد کو تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہائوس آف شریف نے تاریخ رقم کر دی ہے حالانکہ یہ شریف خاندان کی نجی تقریب تھی۔ اس موقع پر نریندر مودی کو تحائف دیئے گئے، نریندر مودی کے ہمراہ جاتی امرا میں بھارتی ’’را‘‘ کا سربراہ بھی برابر موجود تھا جبکہ اس موقع پر پاکستانی وزارت خارجہ اور پاکستان کے کسی بھی عسکری ادارے کے اعلیٰ افسر کی غیر موجودگی سوالیہ نشان تھی یہ سب کچھ پاکستان کی سرزمین اور پاکستان کے وزیر اعظم کے گھر پر ہوا، جولائی 1999ء میں میاں نواز شریف نے اپنے بھائی میاں شہباز شریف کو امریکہ کے سرکاری دورے پر بھیجا، شہباز شریف نے اس موقع پر واشنگٹن کے Willardہوٹل میں قیام کیا اس سرکاری دورے کا مقصد بڑا دلچسپ تھا، شہباز شریف امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر Bruce Riedelسے مل کر یہ درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان میں چونکہ فوجی بغاوت کا خطرہ ہے۔ لہٰذا میرے بھائی میاں نواز شریف کے اقتدار کو بچانے کی غرض سے امریکہ ہماری مدد کرے، اس ضمن میں سی آئی اے پاکستان میں اپنا کردار ادا کرے، ذرا اندازہ کریں کہ پاکستان میں جمہوریت اور عوامی حاکمیت کا دعویٰ کرنے والے خود امریکہ جا کر اپنے اقتدار کو بچانے کی غرض سے غیر ملکی طاقتوں سے مدد مانگتے ہیں، صرف یہ ہی نہیں ماضی میں میاں نواز شریف نے امریکی صدر بل کلنٹن سے امریکی فوجی گارڈ بھی مانگے تھے، بظاہر تو یہ خفیہ گارڈز پاکستان میں فوجی جوانوں کو تربیت دینے کی غرض سے مانگے گئے تھے جو کہ سرحد پار جا کر افغانستان میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کرنا چاہتے تھے لیکن بعد میں جنرل ضیاء الدین بٹ نے امریکی سی آئی اے سے کہا کہ یہ امریکی خفیہ گارڈ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی کمان میں کام کریں گے اور وزیر اعظم ہائوس میں یہ گارڈ وزیر اعظم کی حفاظت پر مامور ہونگے کیونکہ پاکستان میں اگر فوجی بغاوت ہوتی ہے تو پھر یہ امریکی گارڈ وزیر اعظم کی حفاظت کرتے ہوئے فوجی بغاوت کو ناکام بنائیں گے یہ تمام تذکرہ Steve Collکی کتاب Ghost Warsکے صفحہ نمبر 445 پر موجود ہے۔ پاکستان میں اقتدار کا نشہ کس قدر بڑھ گیا ہے کہ خود ہمارے حکمران غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان میں خفیہ سرگرمیوں کی اجازت دیتے ہیں بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی سالمیت کو خطرے سے دوچار کرنے میں خود ہمارے حکمران پیش پیش رہتے ہیں صرف اس بنا پر کہ انکا اقتدار بچا رہے، خطے کے حالات اور سرحدوں کی صورت حال کافی عرصے سے پیچیدہ چلی آ رہی ہے اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر غیر ملکی طاقتوں نے نظریں جما رکھی ہیں، امریکی سی آئی اے، انڈین ’’را‘‘ اسرائیل موساد اور برطانوی انٹیلی جنس ایم آئی 6 برابر پاکستان کے داخلی حالات پر کڑی نظر رکھتی ہیں اور سیاسی سطح پر پاکستان کے اندر خفیہ ہاتھ ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں جو کہ پاکستان کو معاشی، سیاسی اور فوجی سطح پر غیر مستحکم کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اس ضمن میں مذہبی شدت پسند گروپس کی مالی معاونت بھی کی جاتی رہی ہے اور اب بھی مسلسل یہ عمل جاری ہے۔TLPکی تحریک بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ذرا اس امر کا اندازہ لگائیں کہ ماضی میں اسلام آباد امریکی سی آئی اے کا گڑھ رہا ہے۔ امریکی سفارت کار، دفاعی اتاشی اور سی آئی اے کے اہلکار جو کہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے میں کام کرتے رہے ہیں۔ وہ مسلسل امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو یہ تک رپورٹ کرتے رہے ہیں کہ افواج پاکستان میں داڑھی والے کتنے جنرل ہیں اور پاکستان کی بیورو کریسی میں کس قدر مذہبی رجحان رکھنے والے اعلیٰ افسران ہیں اسی طرح مذہبی گروپس کے بارے میں بھی رپورٹس ارسال کی جاتی رہی ہیں۔