یہ پہلا موقعہ تھا جب اس کے دل میں امیر ہونے کی خواہش پنپنے لگی ‘وہ اس وقت ابھی 9سال کا بچہ تھا ‘ اس نے اپنے ایک دوست مائیک کے ساتھ امیر ہونے کی مختلف تدابیر سوچنی شروع کردیں ‘مائیک ایک امیر باپ کا بیٹا تھا جس کے کئی کاروبار تھے ‘مائیک کے باپ نے اسے اور مائیک کو کاروبار کے بارے میں سمجھاناشروع کردیا ‘اس نے مائیک کے ساتھ پہلے اس کے والد کے مارٹ کے ویئر ہائوس میں معمولی معاوضے پر کام شروع کیا ۔ پھر مائیک کے والد نے ان سے مفت کام لینا شروع کردیا۔ اس نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور عملی زندگی میں بھی کام کرنے کا ہنر مائیک کے والد سے سیکھتا رہا ۔مائیک کا والد انہیں بتاتا رہا کہ کس طرح وہ ساری زندگی پیسوں کیلئے کام کرنے کی بجائے پیسے کو اپنے لئے کام پر لگا سکتے ہیں ۔اس نے انہیں یہ بھی بتایا کہ جو لوگ یہ کہتے ‘سوچتے اور سمجھتے ہیں کہ پیسے سے پیسہ کمایا جاتا ہے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اس نے انہیں بہت ساری باتیں عملی زندگی کے بارے میں سمجھائیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ بچہ جس کا نام رابرٹ ٹی کیوسکی ہے ۔ جسے آج پوری دنیا میں کروڑوں لوگ اس کی مشہور و معروف کتاب ’’رچ ڈیڈ پوور ڈیڈ ‘‘کی وجہ سے جانتے ہیں ‘یہ دنیا کی چند مشہور اور بیسٹ سیلر کتابوں میں سے ایک ہے‘ رابرٹ کیوسکی مائیک کے والد سے جو معلومات سمیٹتا رہا ‘وہ فنانشل لیٹریسی تھی ‘اس نے یہ حقیقت جان لی تھی کہ حکومت ‘حالات ‘پیسہ اور مواقع کچھ بھی آپ کو امیر نہیں بنا سکتے ‘وہ ایک بات یہ بھی جان چکا تھا کہ دولت اور دولت مندوں سے نفرت کرنے اور ان سے پیچھے بھاگنے والے کبھی ترقی نہیں کر سکتے ۔ یہی وہ چند راز تھے جنہوں نے رابرٹ کیوسکی کے ذہن میں خواہش پیدا کی کہ وہ چالیس سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہو کر اپنی زندگی آرام ‘سکون اور دنیا کی سیر کرنے میں گزارے گا ۔وہ چالیس سال کی عمر میں ریٹائرڈ تو نہ ہوسکا لیکن 47سا ل کی عمر میں اس نے اپنی ایک ایسی ایمپائرکھڑی کرلی تھی کہ وہ ریٹائرڈ ہوگیا۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ترقی پذیر ممالک میں غربت ‘افلاس ‘تنگدستی اور مہنگائی ہمیشہ ہی ایک بڑا جان لیوا مسئلہ ہوا کرتی ہے۔ان دنوں بھی وطن عزیز پاکستان میں تاریخ کی بدترین مہنگائی نے ہر آدمی کو مشکلات اور بحرانوں میں مبتلا کررکھا ہے ۔غریب اور متوسط طبقہ اس کے بد ترین شکنجے میں ہے۔ حکومتوں کی پالیسیاں ‘کرپشن ‘مہنگائی وغیرہ عوام کی زندگیوںکو بڑی حد تک محدود کرنے والے عوامل ہیں لیکن اس سے بھی ایک بڑی وجہ جو ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں غریب کو امیر بننے نہیں دیتی وہ ہمارا تعلیمی نظام ہے‘ پاکستان میں اب تک کئی فوجی آمر اور جمہوری حکمران اقتدار میں آئے لیکن غربت مہنگائی افلاس اور بیروزگاری کے مسائل آج بھی نا صرف جو ں کے توں ہیں بلکہ ان میں تواتر سے اضافہ جاری ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ کیا ہم میں سے کبھی کوئی اس بارے میں سوچنے کی زحمت گوارہ کریگا۔ غربت اور غربت کی لکیر تلے زندگی بسر کرنے والوں کے اعدا د وشمار کا جائزہ لیکر کوئی بھی با آسانی بتا سکتا ہے کہ یقیناً نوے فیصد سے زائد ہماری آبادی ایسا نہیں کرتی اور اسکی بنیادی وجہ ہمارے تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز میں فنانشل لیٹریسی کا نہ ہونا ہے۔ مثال کے طور پر تصور کرلیجئے کہ عمران خان کی حکومت جا چکی ہے اور ایک ایسی حکومت آچکی ہے جس کے دور میں ہمارے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ‘مگر ان میں سے ہمارا حصہ کیا ہوگا ؟ ہاتھ پر ہاتھ رکھے رہنے سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ آج مسلم امہ کی ناکامی کی سب سے بڑی ناکامیابیوں کی وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ یہی ہے کیا ہمیں اپنی حالت بہتر بنانے کیلئے کاروباری زاویوں پر توجہ تعلیمی اداروں اورکاروباری مراکز میں فنانشل لیٹریسی کے شعبہ کو وسعت نہیں دینی چاہیے ؟ ترقی کیلئے اس میدان میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ غیر مسلم ممالک تحقیق کے شعبوں میں ترقی کرتے ہوئے کہاں سے کہا ں پہنچ رہے ہیں ‘ان کے کاروباری آئیڈیاز افراط زر کو کم کر رہے ہیں۔افراد کی کاوشوں سے ان کی ذاتی زندگیاں خوشحالی کی طرف گامزن ہیں۔ لیکن ہم آج بھی کشکول لئے پھر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں غیر مسلم ممالک کے لوگ اس حقیقت کو پاچکے ہیںجسے ہم مسلمان ہونے کے باوجود افسوس نہیں اپنا رہے جس کی طرف اشارہ رابرٹ کیوسکی بھی کرتا ہے کہ آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں ‘وہ آپ کو بانٹنا بھی پڑیگا ‘اگر آپ پیسہ چاہتے ہیں تو پیسہ مستحق میں بانٹیں‘خوش رہنا چاہتے ہیں تو خوشی بانٹیں ۔ جو بھی چاہتے ہیں اسے بانٹیں ‘اگر پھر بھی وہ آپ کو بدلے میں نہیں مل رہا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ چیزیں حاصل کرنے کیلئے بانٹ رہے ہیں۔ اس کیلئے پھر آپ اس کو اس طرح بانٹیں کہ آپ کی روح کو تسکین اور تسلی ملے۔ پھر آپ کو کئی گنا واپسی کا عمل شروع ہوجائیگا ۔ یہ بات رابرٹ کیوسکی کہہ رہا ہے جو ایک غیر مسلم ہے جب کہ ہمارے دین میں آج سے 14سو سال قبل بتادیا گیا ہے کہ اللہ کے راستے میں جو دو گے وہ دنیا میں 10گنا اور آخرت میں اللہ رب عزت 70گنا لٹا دیگا۔ ہمیں سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ‘پاکستان میں کئی ایسے کاروباری ماڈل ہیں جو اللہ کے راستے میں دیکر تسکین حاصل کرتے ہوئے ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ۔ بہرحال وزیر اعظم عمران خان کی حکومت میں عوام ان سے انتہائی ناخوش ہے ۔ وزیر اعظم ملک میں یکساں نظام تعلیم کا بھی عندیہ دیتے رہتے ہیں ‘وہ کم از کم ملک میں یکساں نہ سہی ‘فنانشل لیٹریسی کے مضمون کو شامل کروادیں تو ان کا ملک و قوم پر یہی بہت بڑا احسان ہوگا ۔ ٭٭٭٭٭