کہانی دو ہزار سال پہلے کے روم کی ہے لیکن مماثلت آج کے پاکستان سے ۔ ذرا تاریخی جزئیات کے ساتھ پڑھ لیجئے۔ ’’نیرو بانسری بجا رہا تھا جب روم جل رہا تھا‘‘ یہ جملہ سب نے سن رکھا ہے۔ کہانی سن 64 عیسوی کی ہے۔ جولائی کا مہینہ تھا۔ روم شہر میں چھ دن تک مسلسل ہولناک آگ بھڑکتی رہی۔ ستر فیصد شہر جل کر تباہ اور آدھی آبادی بے گھر ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم کا شہنشاہ نیرو غیر ذمہ درانہ بیانات اور عیش و عشرت میں گم تھا۔ کہانی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ نیرو اس وقت بانسری کی مدھر تانوں میں کھویا تھا جب اس کے لوگ مصیبت اور صدمے سے دوچار تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا سیاستدان تھا جو بحران کے زمانے میں کچھ نہ کر سکا۔ تاریخی طور پر اس کہانی میں کئی حقائق غلط بتائے گئے۔ سچ یہ ہے کہ قدیم رومن عہد میں بانسری کا وجود نہیں تھا۔ موسیقی کے مورخین کا کہنا ہے کہ بانسری گیارہویں صدی عیسوی میں ایجاد ہوئی۔ نیرو نے اگر کوئی ساز بجایا ہو گا تو وہ چتارا ہو سکتا ہے‘ یہ بھاری لکڑی سے تیار ساز چار سے سات تاروں سے بجایا جاتا ہے۔تاریخ دان نیرو کے عہد میں چتارا کی موجودگی کی تصدیق بھی نہیں کرتے۔ جب بھیانک آگ پھیلی تو نیرو روم سے 35 میل دور واقع قصبے اینٹئم میں اپنے محل میں تھا۔ آگ کی خبر ملتے ہی وہ روم آیا او ریلیف کی سرگرمیاں شروع کرائیں۔ لوگ اس پر بھروسہ نہیں کر رہے تھے۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ آگ نیرو نے خود لگوائی‘ اس شک کی مضبوط وجہ یہ تھی کہ نیرو اپنے سنہری محل کی تعمیر کے لیے جنگل کا بڑا حصہ صاف کروا رہا تھا۔ وہ محل کے اردگرد خوشنما باغات لگانا چاہتا تھا۔ نیرو کا اپنا خیال یہ تھا کہ آگ نئے مذہب عیسائیت کے پیرو کاروں نے لگائی ہے۔ اس نے کئی مسیحی گرفتار کئے اور کچھ کو قتل کرا دیا۔ نیرو غیر ذمہ دار‘ رعایا سے دور اور خود غرض تھا اس لیے تاریخ کے ساتھ ساتھ ایک ایسی کہانی اس کے ساتھ جڑ گئی جو اس جیسے خود غرض حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لیے سبق بن گئی۔ ایک آگ میں پاکستان جل رہا ہے۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم پاکستان پہنچی‘ ان کو سکیورٹی خدشات تھے‘ بلاشبہ یہ خدشات کسی دشمن ملک نے پھیلائے اور پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایسا تاثر دیا کہ نیوزی لینڈ ٹیم کو واپس جانا پڑا۔ نیوزی لینڈ کے بعد انگلینڈ نے ان ہی خدشات کو بنیاد بنا کر دورہ ملتوی کردیا۔ اس ساری صورت حال میں خوش کون ہے‘ ایسے نیرو آسانی سے پہچانے جا سکتے ہیں۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن شرمندہ ہیں‘ انہیں خدشہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے جب بات ہو گی تو وہ ٹرمپ دور میں کشمیر کے معاملے پر امریکی ریاست کے وعدے پورے کرنے کا تقاضا کرسکتے ہیں‘ امریکہ میں یہ تاثر خاصا مضبوط ہے کہ عمران خان کسی وقت کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ امریکہ کے صدر افغان صورت حال کے تناظر میں براہ راست پاکستانی قیادت سے بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ مسائل امریکہ کی طرف ہیں لیکن یہاں اس بات پر ٹھٹھے لگائے جا رہے ہیں کہ امریکی صدر ہمارے وزیراعظم کی کال نہیں سنتا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسنڈا آرڈرن نے فون پر بات کی لیکن دورہ ملتوی کرنے کی استدعا کی تو کہا گیا ایک کال نہیں سنتا دوسری نے کال سن کر بات ماننے سے انکار کردیا۔ ہم کہاں سے چلے اور کہاں آ گئے۔ قائداعظم سے شروع ہونے والا سفر اب بھانڈوں اور چیخیوں کی رہنمائی تک آ پہنچا۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہمارے سیاستدان دشمن سے مل جاتے ہیں‘ ان کی فہم وفراست اور عقل اس حد تک ماری گئی ہے کہ ریاست کا مفاد اور اپنے مفاد میں جو فرق ہوتا ہے اس کی تمیز باقی نہیں رہی۔ سامنے کی باتیں ہیں جنرل پرویز مشرف کے آخری ایام تھے‘ ق لیگ حکومت کے وزرا اور اہم شخصیات کو عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ مرحوم ڈاکٹر شیر افگن نیازی اور پھر وکلا تحریک کے دوران احمد رضا قصوری کے ساتھ جو ہوا سب جانتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے دور میں راجہ ریاض تماشہ بنے رہے‘ ڈاکٹر بابر اعوان جیسے اعلیٰ مقرر اور قانون دان کے ٹی وی تبصرے ناقابل برداشت ہو چکے تھے۔ مسلم لیگ ن نے تو حد ہی کردی تھی۔ دانیال عزیز‘ طلال چودھری‘ مریم اورنگ زیب‘ مصدق ملک‘ رانا ثناٰ اور چند دیگر کی وجہ سے لوگ چینل بدل دیتے۔ یقینا اس محاذ پر جو گندگی 1996ء میں پرویز رشید نے گھولی اس کا تعفن ہر جماعت میں آ گیا ہے۔ تحریک انصاف میں بھی ایسے بدزبانوں کی کمی نہیں لیکن اس سلسلہ دشنامیہ کے پیرو مرشد کس جماعت میں بیٹھے ہیں، اس پر کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ روٹی سے محروم بھوکوں کو کیک کھانے کا مشورہ دینے والی ملکہ کی بات ہو یا اس حکمران کیلے گولا کی جو اپنی غرض پوری نہ ہونے پر شہریوں کی کھال اتروا دیا کرتا۔ سیاستدان بدنام اس وقت ہوتا ہے جب وہ سیاست کا رخ عوام کی بجائے اپنے اکائونٹس‘ محلات‘ کاروبار‘ لوٹ کھسوٹ‘ مافیا بندی اور خود غرضی کی طرف موڑ لیتا ہے۔ اس کے اندر نفرت کی پیداوار بڑھ جاتی ہے‘ وہ زہریلا ہو جاتا ہے‘ اس کے لفظ کاٹنے کو دوڑتے ہیں‘ لوگ اسے دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں لیکن چند خوشامدی اسے بتاتے رہتے ہیں کہ شہر میں جو آگ لگی ہے وہ دراصل چراغاں ہے جو رعایا نے اپنے محبوب سیاستدان کے بیانیے کی پذیرائی میں کر رکھا ہے۔ کہتے ہیں وقت کی شہ سواری کرنے کے دعویداروں کو وقت نے ہمیشہ کچل دیا۔ کتنے ہی ابوالفضل آئے لیکن اپنے آقا کا اقتدار سلامت رکھ سکے نہ ساکھ بچا سکے۔ پاکستان طاقتور ملکوں کے نرغے میں ہے ،ہمارے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں ۔ان حالات میںہمارے نیرو بھلے بانسری بجائیں یا ڈھولک ان کی زبانیں جو تاریخ لکھ رہی ہیں ان کی نسلیں اس پر شرمندہ رہیں گی۔