ایک بار بیگم صاحبہ لبرٹی مارکیٹ لاہور میں کپڑے کی دکانوں کی سٹاک چیکنگ کر رہی تھیں میں ان کے ساتھ خادم اعلیٰ کی حیثیت سے ڈیوٹی کر رہا تھا۔ جب وہ کسی دکان میں داخل ہوتیں میں انہیں followکرتا اور کائونٹر کے پاس کسی مناسب جگہ پر خود ہی اپنی تعیناتی کر لیتا۔ ایک دفعہ یوں ہواکہ بیگم صاحبہ ایک دکان کے سیلز مین کی جھاڑ پونچھ کر کے باہر نکلیں میں حسب معمول انہیں follow کرنے لگا ذرا آگے جا کر انہیں ایک کپڑے کی دکان نظر آئی وہ اس دکان کے اندر داخل ہو گئیں میں بھی پیچھے پیچھے چلا۔ اچانک ایک لمبے قد کی خوبصورت لڑکی میرے سامنے آ گئی اور میری کہنی اس کی کہنی سے ٹکرا گئی۔ کہنی کی حد تک تو بات اتنی خطرناک نہیں تھی پھر بھی میں نے فوراً ہی اس محترم لڑکی سے معذرت کر لی۔ میرا خیال تھا کہ سوری کے جواب میں کوئی بات نہیں یا اٹ از آل رائٹ کے الفاظ میرے کان میں پڑیں گے لیکن اس کے بجائے میں نے یہ دیکھا کہ دکاندار اور اس کے دونوں سیلز مین میری طرف دیکھ کر مسکرا رہے ہیں اور تو اور خود بیگم صاحبہ مسکرا رہی ہیں۔ مجھے دیکھ کر بیگم صاحبہ کا مسکرانا میرے لئے ایک انوکھا تجربہ تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ حیران کن بات یہ تھی اس لڑکی نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ وہ اس جگہ کھڑی رہی جہاں اس کی کہنی میری کہنی سے ٹکرائی تھی۔ مجھے یوں لگا وہ مجھے غصے میں دیکھ گھور رہی ہے جب کہ میں دکان کے مالک اور سیلز مینوں کو غصے میں دیکھ رہا تھا لیکن بیگم صاحبہ جنہیں اصولاً شدید غصے میں ہونا چاہیے تھا میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھیں میں سمجھ گیا انہیں یقین تھا کہ کہنیوں کا یہ ٹکرائو محض ایک اتفاق ہے ورنہ خادم اعلیٰ کی کیا مجال کہ وہ افسر اعلیٰ کے سامنے ایسی ادنیٰ حرکت کرے۔ اس وقت دکان میں جتنے بھی کردار تھے ان میں سب سے زیادہ پراسرار کردار وہ لڑکی تھی میں نے سوچھا میں آگے بڑھ کر اس لڑکی سے دوبارہ معذرت کر لیتا ہوں۔اس خیال کے آتے ہی میں اس کی طرف مڑا۔ چہرے پر نظر پڑی تو میں خود بھی مسکرانے لگا۔ وہ لڑکی پلاسٹک کی تھی۔بیگم صاحبہ سیلز مین کے ساتھ مصروف ہو گئیں۔ تھان پر تھان کھلنے لگے۔ دکاندار فون میں مصروف ہو گیا میں موقع غنیمت جان کر ایک ایسی جگہ کھڑا ہو گیا جہاں سے مجھے تو کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن میں اس لڑکی کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ وہ بہت ہی سمارٹ‘ دراز قد اور گوری چٹی ٹین ایجر لڑکی تھی اس نے نہایت اعلیٰ درجے کا قیمتی سوٹ پہنا ہوا تھا۔دلکشی میں اپنا جواب آپ تھی۔ لیکن افسوس وہ بے جان تھی اس میں روح نہیں تھی وہ حرکت نہیں کر سکتی تھی وہ گونگی بہری اور اندھی تھی ۔ وہ سراسر دھوکا اور فریب تھی۔ وہ تاجروں کے ہاتھ میں ایک کھلوناتھی جس کی مدد سے وہ گاہکوں کو پھنسا کر ان کی دولت سے اپنی تجوریاں بھرتے تھے یہ سوچ کر مجھے اس لڑکی سے گھن آنے لگی۔ وہ مجھے بدصورت لگنے لگی۔ میرا جی چاہا کہ آگے بڑھ کر اس لڑکی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں لیکن اگر میں ایسا کرتا تو لبرٹی مارکیٹ کے تمام تاجر مل کر میری تکا بوٹی کر ڈالتے۔ وہ لڑکی تاجروں کی محبوبہ تھی۔گھر پہنچ کر میں برآمدے میں پڑی کرسی پر بیٹھ گیا میرے ذہن میں ابھی تک وہ پلاسٹک کی لڑکی گھوم رہی تھی مجھ سے میرے طلباء اکثر پوچھتے تھے کہ پاکستان میں کون سا نظام حکومت نافذ ہے چونکہ یہ نظام خود میری سمجھ سے بالاتر تھا مجھے اس سوال کا جواب دینے میں دقت محسوس ہوتی تھی۔ بھلا ہو اس پلاسٹک کی لڑکی کا جس نے اس سوال کا شافی جواب مہیا کر دیا۔ یہ لڑکی دیکھنے میں ایک نوجوان خوبصورت اور دلکش لڑکی لگتی ہے لیکن اس میں روح نہیں ہے دیکھنے کی حد تک یہ لڑکی ہے اور آگے صرف پلاسٹک۔ یہی حال اس جمہوریت کا ہے جو ہمارے ہاں نافذ ہے۔ دیکھنے میں جمہوریت اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ لیکن دراصل دھوکا اور فریب ملک میں جو قانون نافذ ہے وہ تو وہی سعادت حسن منٹو والا پرانا قانون ہے ۔جسے نیا قانون کہہ کر عوام کو الو بنایا جاتا ہے۔یہاں پہلے تو پلاسٹک کی جمہوریت بنائی گئی پھر اسے لنڈے کا لباس پہنایا گیا یعنی وہ کپڑے جو انگلینڈ کے گوروں کی اترن تھے ۔ میری مراد برطانوی پارلیمانی نظام سے ہے اس جمہوریت کے حوالے سے ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دے کر اندر خانے اس نظام پر عمل ہونے لگا جو اسلام اور جمہوریت کی مکمل نفی پر مبنی ہے۔کہنے کو یہ نظام جمہوری ہے آمریت اور شہنشاہیت کو جمہوری قبا پہنانا ان شیطانی قوتوں کی مجبوری تھی بظاہر پاکستان کا اپنا وضع کردہ آئین ہے اس آئین کے تحت مقررہ مدت کے بعد انتخابات ہوتے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیاں بنتی ہیں۔ اسمبلیاں قانون سازی کرتی ہیں انتظامیہ ملک چلاتی ہے، غریبوں کے لئے زکوٰۃ کا محکمہ ہے ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے، غرض وہ سب کچھ ہے جو ایک جمہوری ملک میں ہو سکتا ہے۔ اکثر جمہوری ممالک میں ریاست مذہب سے دور رہتی ہے ہمارے ہاں تو ماشاء اللہ ریاست یہ ایڈیشنل ڈیوٹی بھی سرانجام دیتی ہے اور مذہبی مسائل کو مجتہدان و مفتیان کرام سے کہیں بہتر طور پر حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسے کہتے ہیں اسلامی جمہوریہ۔ یہ ہے قائد اعظم کا پاکستان آج اگر قائد اعظم زندہ ہوتے تو یہ سب دیکھ کر خوشی سے دوبارہ فوت ہو جاتے۔مزے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کی عمارت میں داخل ہونے والے تقریباً تمام لوگ اس فراڈ لڑکی کی حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں لیکن منہ نہیں کھولتے کیونکہ یہی لڑکی ان لوگوں کے پاور لانڈرنگ کر کے روبہ انہیں پاور کورویڈور میں پہنچا کر لوٹ مار کا موقع دیتی ہے۔ بعض اوقات کچھ لوگ اس لڑکی سے ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔لیکن اسے طلاق نہیں دیتے اس لئے کہ طلاق منکوحہ بیویوں کو دی جاتی ہے داشتائوں کو نہیں۔ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ یہ لڑکی کسی طاقتور شخص سے یارانہ نہ گانٹھ لے۔ ان کی مثال ان میاں بیوی کی ہے جو ساری عمر لڑتے ہیں۔بچے بھی پیدا کر لیتے ہیں لیکن علیحدگی اختیار نہیں کرتے۔یہاں ایک اور دقت بھی ہے یہ لڑکی اگر ناراض ہو جائے تو دس سال سے پہلے راضی نہیں ہوتی۔ جب کبھی یہ لڑکی ان سے ناراض ہوتی ہے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دسوں انگلیاں دکھا کر یاد دلاتی ہے کہ بندے بن جائو ورنہ پھر دس سال دس انگلیاں دیکھ کر یہ موت کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیںاور اس قسم کے بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم سسٹم بہرحال قائم رکھیں گے تاکہ وہ خود اس سسٹم کے ثمرات سے فیض یاب ہوتے رہیں اور عوام اس سسٹم کے دونوں پاٹوں میں پستے رہیں۔