جو خوش ہیں ان کی بات بعد میں کریں گے لیکن افغانستان میں طالبان کے لوٹ آنے پر جو ناخوش ہیں انہیں تادیر رنجیدہ رہنا ہے‘امریکہ اس خطے سے رخصت ہو گیا‘کم از کم رواں صدی میں وہ پلٹ آنے کا نہیں‘طالبان نے سات سروں والی آدم خور بلا (عفریت) کے زیادہ تر سرکاٹ اور پنجے توڑ دیے ہیں‘کٹے ہوئے سروں کی بحالی اور پنجوں کے اُگ آنے میں ایک صدی درکار ہوتی ہے اور عرصہ اسے اندھیری غار میں چھپ کر گزارنا ہے‘بعد میں کئی عشرے بھی اسے بچ بچا کر رہنا ہو گا کیونکہ اس کے شکاری ہوشیار اور ہردم تیاری کی حالت میں ہیں‘روسی ریچھ اس سے پہلے اسی شکار گاہ میں آیا‘وہ پنجے تڑوا بیٹھا اور سرسلامت لے گیا تھا‘اسے بھی باہر آ کر آزادی سے گھومنے میں تین عشرے انتظار کرنا پڑا‘وہ یوں کہ اس کا ایک شکاری خود شکار ہو گیا‘دوسرے سے صلح ہو گئی بدخواہوں کیلئے دوسری بری خبر یہ ہے کہ طالبان اپنی قوت بازو سے دشمنوں کے سرکاٹ کر فاتحانہ کابل کے تخت پر قابض ہوئے‘انہوں نے سازش کا سہارا لیا نہ دوسری غیر ملکی طاقتوں کو پکارا‘وہ اپنے بل بوتے پر آئے اور نرمی سے انصاف قائم کیا اور امن سے رہنے کے لئے فضا بنا دی۔ افغانستان کی گزشتہ دو سو سالہ تاریخ شاہد کہ اس کی کوئی حکومت بادشاہت ہو یا شخصی حکومت وہ کبھی اندرونی دبائو یا رائے عامہ کے بگڑ جانے سے رخصت نہیں ہوئی‘عالمی طاقتوں کی مداخلت اور سازشیں ان کے بننے بگڑنے کا بڑا سبب بنیں‘اس ملک میں جمہوریت کبھی تھی نہیں نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے‘ اس ملک کی بھاری اکثریت پکی مسلمان ہے اور اسلامی شریعت کا نفاذ اور طریق زندگی ہمیشہ سے ان کا مطالبہ ہے‘عورتیں پردے میں رہنا اور باپردہ باہر نکلنے کو پسند کرتی ہیں‘یورپ کے طرز معاشرت اور بے پردگی ان کے لئے عار ہے‘کمیونسٹوں اور اس پہلے یورپ نواز حکمرانوں کو بدیسی تہذیب و تمدن کے نفاذ کی کوشش ہمیشہ مہنگی پڑی ہے۔ افغانستان کے مقابلے میں ایران کہیں زیادہ یورپ نواز ہوا کرتا تھا‘ملائوں نے رضا شاہ کی آمرانہ بادشاہت کو اکھاڑ پھینکا‘پورے یورپ‘کمیونسٹ‘امریکہ اور ہمسایہ عرب ریاستوں کی کوششوں اور سازشوں کے باوجود ایرانی 42برس سے سب کے سینوں پر مونگ دل رہے ہیں۔ہر طرح کی سازشوں‘پابندیوں اور معاشی ناکہ بندیوں کے باوجود ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے،افغانستان کے طالبان اور ان کے اساتذہ جو دنیا بھر کے لشکروں کو برسر میدان شکست دے کر فتح یاب آئے ہیں‘ان کا کوئی جلی یا خفی دشمن کچھ نہیں بگاڑ سکے گا‘بیس برس تک گوریلا جنگ لڑ کر کامیاب ہونا عام آدمی کی مدد‘حمایت اور مخبری کے بغیر ممکن نہیں‘ان کی فتح اور امن قائم ہو جانا، اس بات کی علامت ہے کہ انہیں عوام کی تائید حاصل تھی اور ہے۔ایک طرف ان کے دور نزدیک کے سب دشمن شکست کھا کے فرار ہوئے ،دوسری طرف ان کی جنگ میں مہارت‘عوام میں مقبولیت‘بے لاگ انصاف کے بعد ان کی حکومت ایران کے مقابلے میں بھی کہیں زیادہ مستحکم اور دیرپا ہو سکتی ہے۔ افغانستان کبھی پاکستان کے لئے پھولوں کی سیج نہیں تھا، مگر وہ کانٹوں کا بستر بھی نہ تھا کہ کسی پل چین نہ آیا ہو‘ہمارے مغربی سرحد ایران ہو یا افغانستان ایسی غیر محفوظ کبھی نہ تھی کہ ہمیں وہاں باقاعدہ فوج تعینات کرنا پڑی ہو۔اس کے باوجود افغانستان ہمیشہ پاکستان کے خلاف ہمارے ازلی دشمن بھارت کی ہمارے خلاف خفیہ جنگ میں سہولت کار تھا‘آخری بیس برس امریکہ کی مدد سے انڈیا نے وہ کھل کھیلا کہ اس پراکسی(خفیہ) جنگ میں پاکستان نے 90ہزار انسانی جانوں اور 150ارب ڈالر کا نقصان برداشت کیا‘پاکستان کی 73سالہ تاریخ میں 1996ء سے 2001ء تک طالبان کا 5سالہ دورِ حکومت ہی وہ زمانہ ہے جب پاکستان کو افغانستان کی طرف سے پورا تعاون اور امن نصیب ہوا۔ کیا یہ ہم پاکستانیوں کے لئے اطمینان بخش اورخوشی کی بات نہیں پاکستان کا ازلی دشمن اور اس کا پشت پناہ امریکہ اور یورپ کی ساری عیسائی ریاستیں آخری صلیبی جنگ میں فتح یاب ہونے اور اگلی کئی صدیاں اپنے نام الاٹ کروانے کو آئی تھیں‘ان کا نشانہ صرف افغانستان نہیں بلکہ ایران‘پاکستان‘ترکی سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستیں کو قابو کرنے کے بعد چین اور روس کو زنجیریں ڈالنا بھی تھا‘اس منصوبے کی زندہ شہادت یہ بھی ہے کہ افغانستان میں ابتدائی کامیابیوں سے شہ پا کر امریکہ اور ’’نیٹو‘‘افواج نے فوراً مسلمانوں کے نسبتاً کمزور محاذ یعنی عربوں کی طرف توجہ کی عراق‘لیبیا کو کچل ڈالا‘ان کے تیل کی دولت کو تصرف میں لائے‘شام کو نشانے پر رکھ لیا‘وہ تو بھلا ہو افغانی جانبازوں اور ایرانی دلاوروں کاجو بروقت بروئے کار آئے اور بیس برس کی خون آشام جنگ و جدل اور ثابت قدمی کے ساتھ صلیبی جنگ جوئوں اور ان کے ہندو مدد گاروں کو رسوا ہو کر خطے سے نکلنا پڑ۔دشمن کی صفیں الٹ گئیں‘خیموں کی طنابیں ٹوٹ گئیں‘دشمن پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے‘اسلحہ اور قیمتی مال غنیمت کے انبار اپنے پیچھے چھوڑ گئے‘ہمارے بھائیوں کی جو اتفاق سے ہمارے ہمسائے بھی ہیں، کی تاریخی فتح جس کے سبب ہماری مغربی سرحد محفوظ ہو گئی‘ہمارے سارے دشمن ذلت آمیز مستقبل سے دوچار ہوئے کیا یہ ہمارے لئے خوشی کا موقع اور مسرت کا مقام نہیں‘جنگِ بدر میں قریش مکہ کی ذلت آمیز شکست پر مدینہ کے بعض مسلمان بھی دل گرفتہ تھے‘مگر وہ مسلمان نہیں منافق تھے‘جنہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی نیت سے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا۔آج کے زمانے میں ان کا نام لبرل ڈیمو کریٹ ہوتا ہے۔ روس ہو یا امریکہ اور ان سے پہلے برطانیہ‘فرانس‘ ہالینڈ‘ سپین اور اٹلی ان سب کی چراگاہ مسلم ریاستیں ہی کیوں ہیں ۔یہ سب پلٹ کے انہی پر بار بار حملہ آور کیوں ہوتے رہے ہیں‘صدیوں کی خون آشامی اور لوٹ مار پر ان کا پیٹ نہیں بھرا اور اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی دوبارہ پلٹ آئے‘اب کے بار انہوں نے اپنی مہم کا آغاز ہی افغانستان سے کیا،جو گزشتہ ادوار میں اپنی دلیری اور جوانمردی کے سبب ان کی غلامی سے بچ رہا تھا اور ان کے خیال میں اسے فتح کرنے کا یہ بہترین موقع انہیں میسر آیا تھا،جسے وہ گنوانا نہیں چاہتے تھے‘ان کا اگلا ہدف متعین تھا اور وہ ہدف ہمارے سوا کوئی دوسرا نہیں تھا اور اس کے بعد چل سو چل‘عرب شروع سے مفتوح و مرعوب ہیں‘پاکستان‘ایران‘ترکی ابھرتی ہوئی مسلم ریاستیں‘ان کے اپنے ہمسایے میں ترکی اور روس کے ساتھ باہمی امن و احترام کے تعلقات انہیں گوارا نہیں۔ وہ اپنے تئیں بہترین وقت پر حملہ آور ہوئے‘پاکستان کا ایٹمی پروگرام‘ترکی میں دفاعی ٹیکنالوجی کا ہنر‘ایران میں ملا کی حکومت اور افغانستان کا شرعی قوانین کا نفاذ‘سب کا کانٹا نکال دینے کے لئے کیل کانٹے سے لیس ہو کر پوری تیاری سے آئے۔انڈیا ان کے ہر اول تھا ،امریکہ اور اتحادی افغان جنگجوئوں کو مٹانے لگے اور انڈیا کو مغربی سرحدوں پر پاکستان کے خلاف سرگرم کر دیا گیا۔افغانستان میں لاکھوں مقتول ہوئے تو پاکستان میں بھی کچھ کم تباہی نہیں آئی‘یہ بیس برس ہم نے جس کرب کے ساتھ اذیت میں گزارے ہیں کیا ہم کبھی اسے بھول پائیں گے؟اگست 2021ء میں آخر وہ دن طلوع ہوا کہ ہمارے بھائیوں کے قاتل اور ہمارے دشمن میدان جنگ سے فرار ہوتے نظر آئے ’’صدیوں پہلے جنگ خندق کی طرح‘‘ وہ بے نیل و مرام لوٹ رہے تھے‘پھر کبھی واپس نہ آنے کے لئے دور دیس کے حملہ آوروں پر جو گزری سو گزری ،مگر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے گھر میں جو کہرام برپا ہے ان کی چیخیں اور ہاہا کار دور آسمانوں تک سنائی دے رہی ہے۔ کیا یہ سب کچھ ہم پاکستانیوںاور ہمارے دوست احباب کے لئے خوشی کا مقام نہیں ہے‘ایسی لازوال فتح پر جشن مسرت نہیں تو کیا سوگ منایا جاتا ہے؟البتہ چھپے دشمن اور منافقین کا مسئلہ الگ ہے‘جو انگریزوں کے دور حکومت سے ’’ہندو کانگرس‘‘ کے کھونٹے سے بندھے انہی کے راتب پر گزر اوقات کیا کرتے تھے اور پاکستان کی آزادی کے بعد بھی ان کی ’’پراکسی‘‘ ہیں اور رہیں گے: عرفی تومیند یش زغوغائے رقیباں آواز سگاں کم نہ کند رزقِ گدارا