آپؐ نے بازار کے بارے میں فرمایا، ’’یہ تمہارا بازار ہے یہاں لین دین میں کمی نہ کی جائے گی اور اس پر محصول (ٹیکس) مقرر نہ کیا جائے گا‘‘ (سنن ابنِ ماجہ)۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے تین معاملات میں اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ’’اے اللہ میں برآت کا اعلان کرتا ہوں تین باتوں سے (۱) لوگوں کا گمان ہے کہ میں طاعون سے بھاگا ہوں، (۲) میں نے طلاء کو حلال کیا حالانکہ وہ شراب ہے اور( ۳) میں نے مسلمانوں سے ٹیکس کو حلال کیا حالانکہ وہ نجس ہے‘‘ (شرح معافی الاثار)۔ جس اسلامی ریاست میں نہ ٹیکس ہو اور نہ سودی قرضے، لوگ یقینا سوال کریں گے کہ ایسی ریاست دنیا میں قائم کیسے رہی اور اپنے اخراجات کہاں سے پوری کرتی تھی۔ مگر تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اسلامی مالیات کے اصولوں پر مبنی مسلمانوں کی حکومت 1918ء تک تیرہ سو سال دنیا کے نقشے پر ایک عظیم طاقت کے طور پر قائم رہی۔ اس اسلامی ریاست کو ورثے میں روم اور ایران کے درباروں کا سرکاری کروفر، ملازمین اور اہلکاروں کی فوج اور پر تعیش ماحول ملا تھا لیکن تاریخ اس بات پر آج تک حیران ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ سے لے کر سیدنا علی المرتضیٰؓ تک کئی لاکھ مربع میل پر قائم یہ خلافت چند مرلے کے مکان اور بغیر کسی سیکرٹریٹ کے ایک ایسا نظامِ حکومت چلاتی رہی جسے دنیا آج ابتدائی فلاحی مملکت کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ جدید دور کے وہ لوگ جنہوں نے عوام کا خون چوس کر موٹی تازی ہونے والی ریاست کا روپ دیکھا ہے، انہیں یقین ہی نہیں آسکتا کہ رسولِ اکرم ﷺ کے دور سے لے کر 1918ء میں ختم ہونے والی خلافتِ عثمانیہ تک، ایک اسلامی ریاست اسقدر تھوڑے وسائل سے مستحکم، خوشحال اور پرامن کیسے تھی۔ ریاست کے وسائل کو پورا کرنے کیلئے جدید ٹیکسیشن کااہم ذریعہ کاروبار پر ٹیکس ہے جبکہ سید الانبیاء ﷺ نے بازار پر ٹیکس لگانے سے منع فرمایا، ’’نبی اکرم ﷺ بازار میں آئے اور چکر لگایا، پھر فرمایا، یہ ہے تمہارا بازار، یہاں خریدوفروخت کرو اور پھر حکم دیتے ہوئے فرمایا، یہاں لین دین میں کمی نہ کی جائے اور یہاں کسی قسم کا محصول (ٹیکس) مقرر نہ کیا جائے گا‘‘ (سنن ابن ماجہ، الأحاد و المثانی لابن ابی عاصم)۔ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے کہ’’ اے اللہ لوگ تین خصلتیں اختیار کئے ہوئے ہیں اور میں تیری طرف ان سے برآت کا اظہار کرتا ہوں۔ لوگوں نے گمان کیا کہ میں طاعون سے بھاگا ہوں اور میں برآت کرتا ہوںتیرے سامنے اس بات سے اور اس بات سے بھی کہ میں نے طلاء کو حلال کیا، حالانکہ وہ شراب ہے اور میں تیرے سامنے اس بات سے بھی برآت کرتا ہوں کہ میں نے مسلمانوں سے ٹیکس لینے کو حلال کیا، حالانکہ وہ نجس ہے‘‘ (شرح معافی الاثار)۔ اسلامی ریاست کا بیت المال ایسے کسی ٹیکس سے کمائے ہوئے مال سے پاک ہوتا ہے جس کا حکم شریعت میں موجود نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ریاست کا شہری سوچنے لگتا ہے کہ پھر حکومت کیسے چلتی تھی۔ اسلام نے جس ریاست کا تصور اس دنیا کو دیا ہے وہ انتہاکی سادہ، پرامن اور پرسکون ہے۔ ایسی ہی ریاست دنیا کے تمام ماہرینِ سیاسیات کے نزدیک ایک آئیڈیل ریاست ہوتی ہے۔ سقراط سے لے کر کارل مارکس اور ہربرٹ سپنر تک سب کے سب ایسے معاشرے کو بہترین قرار دیتے ہیں جہاں ریاست کا وجود بظاہر نظر نہ آئے (State Becomes Invisible)۔ایسی حالت ریاست کا وہ بامِ عروج ہے جو کیمونزم اور سرمایہ داری دونوں کا آئیڈیل ہے۔ کارل مارکس کا کیمونزم اس بات کا درس دیتا ہے کہ جب ہم نجی ملکیت ہی ختم کر دیں گے تو آپس کی لڑائی بھی ختم ہو جائے گی اور پھر ریاست کے ادارے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ لیکن 1917ء میں جب روس میں کیمونسٹ انقلاب آیا تو لوگوں کو راہِ راست پر لانے اور قابو کرنے کے لئیے ایک پرولتاریہ کی آمریت (Proletarian Dictatorship) قائم کی گئی جس کے تحت ریاست پہلے سے بھی زیادہ جابر، ظالم اور آمر بن کر سامنے آئی اور پچھتر سال بعد، اپنے خاتمے تک یہ آمریت قائم رہی۔ دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کا مقصد و منشاء بھی یہی تھا کہ مارکیٹ کی طاقتیں (Market Forces) اسقدر آزادی کے ساتھ معاشرے میں کارفرما ہوں گی کہ ریاست ایک بے معنی سی چیز ہو کر رہ جائے گی۔ طلب (Demand) اور رسد (Supply)ہی خودبخود قیمتوں کا تعین کرے گی۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ریاستوں کی حدود سے ماوراء اپنی عالمی سلطنتیں قائم کریں گی، کارپوریٹ اتحاد دینا کی سیاست کو کنٹرول کرے گا۔ ایسے میں ریاست کا وجود بس علامتی اور دست نگر سا ہوگا۔ ایسا کرنے کی پوری کوشش بھی کی گئی، آسٹریلیا سے لے کر ہوائی تک ایک جیسا لباس اور فیشن، ایک طرح کا برگر پیزا، ایک طرح کا رہن سہن، ایک طرح کا نظامِ تعلیم، یہاں تک کہ ایک جیسے ہیروز،ولن اور ایک ہی جمہوری طرزِ حکومت۔ یہ سب کچھ کر لیا لیکن پھر بھی ریاست دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ ان دونوں نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں رسول اکرم ﷺ کی قائم کردہ ریاست تیرہ سو سال تک ایک غیر محسوس مرکزیت (Invisible Centrality) کے طور پر قائم رہی۔ دنیا کا آئیڈیل اختیارات کی تقسیم(Devolution Of Power) کا نظام اسلام نے دیا۔ ہر علاقے کا حاکم یا گورنر مرکزی امیر کو جوابدہ بعد میں ہوتا تھا، اپنے اللہ کو جوابدہ پہلے تھا اور اس حاکم یا گورنر کو احکاماتِ شریعت پر پابند رکھنے کے لئے ایک قاضی مقرر کیا گیا تھا جو اسے شریعت سے روگردانی نہیںکرنے دیتا تھا۔ اسلام سے پہلے ریاست کا وجود تقریباً پانچ ہزار سال پرانا ہے اور اس کی صرف دو ہی ذمہ داریاں تھیں، ایک انصاف کی فراہمی اور دوسری امنِ عامہ۔ باقی تمام کام معاشرہ خود کرتا تھا۔ تعلیم کے لئیے مدرسے اور صحت کے لئیے حکیم تھے۔ لوگ اپنے یتیم، معذور اور بیوائوں کی خود دیکھ بھال کرتے تھے، کنویں خود کھودتے، رستے خود بناتے تھے، کئی سو کلو میٹر لمبی اور کئی سو فٹ گہری کاریزات کسی ریاستی مدد کے بغیر بنائی گئیں۔ آج کی جدید ریاست ایسے انسانی تعاون کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ لیکن انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ اسلام نے ریاست کی ذمہ داریوں میں رفاحِ عامہ (Welfare) کو بھی شامل کیا۔ یہ وہ اہم ترین ذمہ داری تھی جس کے لئیے بیت المال قائم ہوا اور اس کے محاصل کا تعین کیا گیا۔ اس بیت المال کا ایک حصہ زکوٰۃ کے لئیے مخصوص کیا گیا جو خالصتاً زکوٰۃ کے لئے تھا۔ اسلام کے نزدیک باقی کاروبار سلطنت کے لئے عشر، خراج، سرکاری زمینوں اور املاک سے آمدن ہوتی تھی، جبکہ پانی، زمین سے نکلنے والی معدنیات اور چراگاہیں تمام ریاستی ملکیت یعنی اجتماعی تھیں۔ اسی طرح زمین بھی دراصل اللہ کی ملکیت ہے جو امانتاً لوگوں کے پاس ہے۔ اسے کرائے پر دینا یا مزارعت حرام ہے۔ جو شخص اپنے پاس موجود زمین پر تین سال تک کاشت نہیں کرتا، وہ اس کی ملکیت نہیں رہتی، ریاست کو واپس چلی جاتی ہے۔ یہ تمام ذرائع آمدن اسقدر وسیع اور زیادہ ہیں کہ اگر کوئی ریاست سود، قرضہ جات، بڑی ریاستی مشینری کے بوجھ اور کرپشن میں الجھی نہ ہو تو ان وسائل سے کاروبارِ سلطنت انتہائی شاندار طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔ برطانوی ہندوستان کی مثال اس سے مشابہ ہے کہ جہا ں ذرائع آمدن بالکل اسلامی ریاست جتنے ہی تھے۔ تمام ٹیکس زمینوں سے وصول کیا جاتا یا پھر معدنیات سے آمدن ہوتی تھی۔ زمینوں سے زیادہ سے زیادہ 12 سے 16فیصد ٹیکس لیاجاتا۔ اس موصولہ ٹیکس سے بھی کئی کروڑ پاونڈ برطانیہ بھیجے جاتے۔ اس سب کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام، ریلوے، ڈاکخانہ جات، سکول، کالج، یونیورسٹیاں، انسانوں بلکہ جانوروں کے ہسپتال اور ان کی تعلیم کے ادارے یہ سب اسی 12فیصد زرعی زمینوں کی آمدن سے بنائے گئے اور ملک پر کوئی قرض بھی نہ تھا۔ یہی کیفیت 1918ء تک قائم خلافتِ عثمانیہ کی بھی تھی۔ یعنی کم سے کم ٹیکس لیکن زیادہ سے زیادہ دینے والے۔ اسلام کا یہ اصول آج مالیاتی دنیا کا زریں اصول سمجھا جاتا ہے کہ ٹیکس کا (Broad Base) ہوا اور کم سے کم (Minimum) ٹیکس لیا جائے تو ریاست خوشحال ہوتی ہے۔ میں بیت المال کے مصارف ڈھونڈتا رہا کہ کیا اس سے مسجد کی تعمیر پر سرمایہ خرچ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ لیکن مجھے کہیں کوئی فتویٰ ایسا نہیں ملا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر مسجد پر خرچ نہیں ہو سکتا تو پھر مندر پر کیسے ہو سکتا ہے؟ دنیا کی تمام سیکولر ریاستوں ، یورپ اور امریکہ میں بھی نہ اقلیت کی عبادت گاہ حکومت بناتی ہے اور نہ ہی اکثریت کی۔ یورپ اور امریکہ میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں لیکن کسی ایک ملک میں بھی مسلمانوں کی مسجد کسی بھی ریاست نے نہیں بنائی اور نہ ہی ہندوؤں کا مندر بنایا۔ یہ اور بات ہے کہ مسلمان فراڈ کرکے کیمونٹی سنٹر کے نام حکومت سے گرانٹ ضرور لیتے ہیں۔ اسلامی حکومت ہو یا سیکولر ریاست، اکثریت ہو یا اقلیت، مذہبی عبادت گاہ کی تعمیر ہمیشہ عوام کی اعانت سے ہوتی رہی ہے۔ اس لئیے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا معاملہ شریعت کا نہیں دینی غیرت و حمیت کا معاملہ بھی ہے۔ ہم یہ مندر تعمیر کرکے، ان 25 کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری کریں گے جن پر آج صرف اور صرف ہندو بالادستی کا ظلم اور جارحیت جاری ہے۔ یہ ان شہدا کے خون سے بھی غداری ہے جنہوں نے پاکستان کی تخلیق میں خون دیا۔(ختم شد)