کوئٹہ میں پولنگ سٹیشن میں داخل ہونے کی کوشش میں ناکامی کے بعد خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا۔ جس سے 25افراد شہید جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے۔ دہشت گردانہ کارروائی کے علاوہ لاہور‘ فیصل آباد ‘ پشاور‘ دریا خان‘ کراچی اور دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں فائرنگ اور سیاسی کارکنوں کے مابین تصادم کی اطلاحات ملتی رہیں۔ ان انتخابی جھگڑوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ ہمارے معاشرے میں سیاسی نکتہ نظر اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی روائت تاحال مضبوط نہیں ہو سکی۔ کوئٹہ دھماکے میں انسانی جانوں کے نقصان پر پولنگ کا عمل مزید محتاط انداز میں جاری رہا۔ اس بار ملک دشمن عناصر نے اپنے اہداف تبدیل کئے ہیں۔ شروع میں دہشت گرد لڑکیوں کے سکولوں کو نشانہ بناتے رہے۔ پھر انہوں نے پولیس‘ رینجرز‘ ایف سی اور پاک فوج کے اہلکاروں کو ہدف بنائے رکھا۔ ملک بھر میں بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے اور پولیو کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والے ویکسین دینے کی مہم پر کئی بار حملہ ہوا۔ گزشتہ برس طویل مدت بعد ملک میں مردم اور خانہ شماری کرائی گئی۔ مردم شماری کرنے والی ٹیموں پر دہشت گردوں نے حملے شروع کر دیے۔آخر قوم کی بھلائی کی نیت سے شروع کی گئی ہر اجتماعی کوشش سے یہ دہشت گرد خود کو کیوں غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں اور ایسی سرگرمیوں کی افادیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے دہشت گردوں نے ہر ایسے منصوبے کو خوف اور دہشت کے ذریعے روکنے کی کوشش کی جس سے پاکستان ترقی بہتری اور امن کی طرف بڑھ سکتا تھا۔ حالیہ انتخابی مہم سے قبل ملک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں خاطر خواہ کمی دیکھی جا رہی تھی۔ انتخابی شیڈول کے آتے ہی پشاور‘ بنوں‘ مستونگ اور دیگر علاقوں میں امن دشمنوں نے انتخابی سرگرمیوں اور امیدواروں پر حملے شروع کر دیے۔ پشاور میں اے این پی کے امیدوار ہارون بلور دیگر 21افراد سمیت شہید ہوئے۔ بنوں میں اکرم درانی کے قافلے پر حملہ ہوا جس میں 6لوگ شہید ہو گئے۔ اگلے ہی دن مستونگ میں 130سے زائد افراد اور امیدوار سراج رئیسانی شہید کر دیے گئے۔ اکرم درانی پر بعدازاں ایک اور واقعہ میں فائرنگ کی گئی۔ دیگر شہروں میں بھی فائرنگ اور کریکروں کی اطلاعات ملتی رہیں تاہم ایسی اکثر کارروائیوں کا مرکز کے پی کے اور بلوچستان رہے۔انتخابات سے ایک رات قبل پاک ایران سرحد کے قریب انتخابی ڈیوٹی پر تعینات فوج کے 3سپاہی شہید کر دیئے گئے۔ پاکستان نے سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں سے بچائو کی خاطر افغانستان سے ملحق سرحد کئی مقامات پر انتخابات تک بند کر دی۔ اسی طرح ایرانی حکام سے خصوصی تعاون کی درخواست کی گئی کہ وہ پاک ایران سرحد پر نگرانی کا عمل بڑھا دیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس سلسلے میں دونوں ہمسایہ ممالک کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا۔ انٹیلی جنس اداروں کے پاس کافی عرصے سے ایسی اطلاعات آ رہی تھیں کہ کچھ دشمن طاقتیں پاکستان میں انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ ان اطلاعات میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کے جمہوری نظام کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی ایک مہم شروع کی جائے گی۔ گزشتہ دنوں امریکہ اور برطانیہ کے چار اہم اخبارات نے پاکستانی انتخابات پر یکساں انداز میں اعتراضات اٹھائے۔ اس کے بعد بھارت نے بھی پاکستان میں انتخابات پر تنقید شروع کر دی۔ راولپنڈی میں جب ایک امیدوار کو ایفی ڈرین معاملے پر سات سال کی عدالتی سماعت کے بعد عمر قید کی سزا سنائی گئی تو اس کے حامیوں نے نہائت ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کی حفاظت کا فریضہ انجام دینے والے اداروں کے خلاف نعرے لگائے۔ بھارتی میڈیا نے ان نعروں کو بار بار دکھایا۔ غرض ہمارے اپنے لوگوں نے بھی دشمن کو موقع دیا کہ وہ ہماری ریاست‘ ہمارے معاشرے‘ ہمارے نظام اور ہمیں گالم گلوچ کا ہدف بنائیں۔ دہشت گردی کے افسوسناک واقعات اور شدید گرمی کے باوجود عوام کی بڑی تعداد نے انتخابی عمل میں حصہ لے کر اپنی جمہوری ترجیحات کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ ووٹرز نے صبح سویرے پولنگ سٹیشنوں کا رخ کیا۔ تاہم انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے کئی مقامات پر ووٹنگ کا عمل دیر سے شروع ہوا۔ حسب توقع پولنگ عمل کے دوران سیاسی کارکن پرجوش انداز میں اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ ایسے کچھ واقعات تشدد کا رخ اختیار کر گئے۔ صوابی میں اے این پی کے امیدوار کی فائرنگ سے پی ٹی آئی کا ایک کارکن ہلاک جبکہ دو زخمی ہو گئے‘فیصل آبادمیں پی ٹی آئی کارکن کا بازو توڑ دیا گیا۔ ایک جگہ پی ٹی آئی کارکنوں اور پی پی پی کارکنوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔اس بار امن و امان برقرار رکھنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے۔ نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک نے آرمی چیف سے ڈھائی لاکھ فوجیوں کی تعیناتی کا کہا تھا۔ پاک فوج کے جوان پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر کسی طرح کی بدنظمی اور بدامنی سے نمٹنے کے لیے موجود رہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہے۔ دہشت گرد ہمیں جمہوری عمل سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے حامی جمہوری عمل کی مخالفت کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتا سکے کہ انتقال اقتدار کے لیے تاریخ نے اب تک جتنے طریقے آزمائے ہیں کیا کوئی ایک طریقہ ایسا ہے جو ووٹ کے علاوہ ہو اور اس میں مخلوق خدا کا خون نہ بہا ہو۔ انتخابات کے دوران کچھ چیزیں بہت مثبت انداز میں سامنے آئیںکراچی میں ووٹرز نے ایک بدلے ہوئے پرامن ماحول میں ووٹ کا حق استعمال کیا۔کے پی کے کے وہ علاقے جہاں قبل ازیں خواتین ووٹ نہیں ڈالا کرتی تھیں اس بار خواتین کی بڑی تعداد ووٹنگ کے لیے گھر سے نکلی۔ کچہ کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خوف سے خواتین ووٹ کا حق استعمال نہیں کر پاتی تھیں۔ ان علاقوں میں پولیس اور پاک فوج کے مشترکہ آپریشن کے باعث لوگوں نے پہلی بار خود کو محفوظ تصور کیا۔ چکوال کے قریب بعض دیہات میں خواتین کو ووٹنگ سے روکنے کی اطلاعات ملتی رہیں تاہم کچھ خواتین نے ان معاشرتی رکاوٹوں کو ہٹا کر ووٹ ڈالا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پورے میں 80لاکھ خواتین کے شناختی کارڈ نہ بن سکے۔ یوں خواتین کی قابل ذکر تعداد نادرا اور دوسرے انتظامی اداروں کی غفلت کے باعث ووٹ نہ ڈال سکی۔ انتخابی عمل کے دوران الیکشن کمشن کی کارکردگی میں کئی نقائص سامنے آئے۔پانچ برس قبل جسٹس (ر) ناصر الملک کی سربراہی میں ایک کمشن نے دھاندلی کا جائزہ لیتے وقت ایسے نقائص کی نشاندہی کی تھی جنہیں ذرا سی توجہ سے دور کیا جا سکتا تھا۔ کئی پولنگ سٹیشنوں پر ووٹرز کا نام فہرستوں میں درست جگہ نہ تھا۔ خاص طور پر خواتین کی فہرستوں میں ووٹرز کو اپنا نام تلاش کرنے کے لیے خاص تگ و دو کرنا پڑی۔پھر انتخابی عملے کی وجہ سے ووٹنگ کا عمل سست روی کا شکار رہا۔ موجودہ حالات میں انتخابات کا بروقت انعقاد ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی قوم داخلی و خارجی چیلنجز کے باوجود جمہوری نظام پر یقین رکھتی ہے۔