عالمی مالیاتی درجہ بندی کرنے والے ادارے موڈیز نے پاکستانی معیشت کو منفی سے نکال کر مستحکم درجہ میں شامل کر دیا ہے۔ پاکستان کی معیشت پر عالمی اداروں کا اعتبار بڑھنے کے بعد سٹاک مارکیٹ میں 9ماہ کے بعد انڈیکس 40124پوائنٹس تک پہنچ گیا ہے۔ درجہ بندی کے ادارے موڈیز نے اپنے سروے میں بتایا ہے کہ پاکستان نے ادائیگیوں کی صورت حال بہتر کی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے تاہم روپے کی قدر کم ہونے سے قرضوں کا بوجھ بڑھا ہے۔ پاکستان کے حالات میں بہتری کے لئے عشروں سے قرضوں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ ابتدا میں قرضوں سے ڈیم‘ اہم شاہراہیں‘ پل اور سرکاری عمارات تعمیر کی گئیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت اپنی شناخت کاروباری بتاتی ہے۔ مسلم لیگ ن نے بیرونی اداروں سے قرض حاصل کر کے اس سے معیشت کا ترقیاتی ڈھانچہ کھڑا کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا۔ موٹر وے‘ میٹرو بس اور بعض انرجی منصوبے اسی ذیل میں آتے ہیں۔ ان منصوبوں کو پہلے آئی ایم ایف اور عالمی بنک سے حاصل کئے گئے قرضوں سے شروع کیا جاتا تھا۔2013ء میں غیر ملکی قرض کا حجم 35ارب ڈالر تھا جو 2018ء میں 92ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ ملکی معیشت کا پیداواری عمل اگر منافع بخش طریقے سے متحرک ہو تو پاکستان کے برابر آبادی رکھنے والے ملک کے لئے قرض کا یہ حجم تشویشناک نہیں تھا۔ افسوس مگر اس بات کا ہے کہ اس قدر بھاری قرض لینے والوں نے اس کی واپسی کا کوئی قابل عمل منصوبہ تشکیل ہی نہ دیا ۔ قرض سے آنے والی خوشحالی اس وقت تک مقروض کو آسودہ رکھتی ہے جب تک اس سے قرض واپسی کا تقاضا نہ کیا جائے ۔تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو اس کے حامیوں کے سامنے وہ خواب ایستادہ تھے جن کے سنہری نقوش نے حقائق کو نظروں سے اوجھل کر دیا تھا۔50لاکھ گھروں کی تعمیر‘ نوجوانوں کے لئے ایک کروڑ نوکریاں‘ چھوٹے کاروبار کے لئے آسان قرضے اور تعلیمی اخراجات کے لئے سرکاری معاونت جیسے خواب ابھی تک حقیقت میں ڈھلنے کے منتظر ہیں۔ عمران خان نے شروع میں ہی جان لیا کہ سابق حکومتوں نے جس طرح کا معاشی بگاڑ انہیں ورثے میں چھوڑا ہے اسے دور کرنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ گورنر سٹیٹ بنک رضا باقر اور چیئرمین ایف بی آر کے طور پر کہنہ مشق ماہر شبر زیدی کی تعیناتی اسی احتیاطی سلسلے کی کڑی ہیں۔ اس سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کو ممکن بنانے کے لئے سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور چین سے مدد لی گئی۔ معاشی و مالیاتی بیورو کریسی نے تحریک انصاف کی انتظامی ٹیم کی کارکردگی کو خراب کیا تاہم ڈاکٹر حفیظ شیخ نے نظام کے شناور ہوتے ہوئے خرابیوں کو ان کی جڑ سے قابو کرنے میں دیر نہ لگائی۔ کسی ملک میں معاشی سرگرمیاں اس وقت تک فروغ نہیں پا سکتیں جب تک کہ وہاں امن اور سیاسی استحکام نہ ہو۔ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی بے شمار قربانیوں کے طفیل ملک بھر میں دہشت گرد پسپا کر دیے گئے ہیں۔ خوف کی جو فضا موجود تھیں مدت ہوئی وہ دم توڑ چکی۔ محفوظ ماحول اور حکومت کی جانب سے پرکشش مراعات نے قومی و بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو حوصلہ دیا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سرمایہ کاری کریں۔ وزیر اعظم عمران خان خود ہر بین الاقوامی دورے کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کاروبار کی ترغیب دیتے ہیں۔ بلوچستان میں سعودی عرب کے تعاون سے آئل ریفائنری کا منصوبہ زیر غور ہے۔ چین کو بے گھروں کے لئے 50لاکھ مکانات تعمیر کرنے کے منصوبے میں شریک کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ حکومتوں کے شروع کردہ ادھورے منصوبوں کو مکمل کیا جا رہا ہے۔ ترک رینٹل پاور کمپنی کارکے سے ہرجانہ چھوڑنے کا وعدہ لیا جا چکا ہے۔ بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے کا معاہدہ دوسری پارٹی کو دینے پر پاکستان پر 6ارب ڈالر کا ہرجانہ عاید ہوا اس ہرجانے کو ختم کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ جاپان نے مدت سے پاکستان سے افرادی قوت منگوانے کا سلسلہ ترک کر رکھا ہے‘ پاکستانیوں کے لئے ایک بار پھر جاپان میں روزگار کے مواقع تلاش کئے جا رہے ہیں۔ یہ سب اس لئے ممکن ہو رہا ہے کہ ملک کو سیاسی لحاظ سے عدم استحکام سے دوچار کرنے کی پے درپے کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ قومی و بین الاقوامی سرمایہ کار جان چکے ہیں کہ امن اور سیاسی استحکام کی جانب تیزی سے سفر کرنے والا پاکستان ان کی سرمایہ کاری کو جلد اچھے منافع میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کی سابق حکمران جماعتیں اس حقیقت سے پہلے ہی واقف ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت بھی جان چکی ہے کہ بعض معاملات پر اپوزیشن کو اس کے آئینی حقوق دے کر ملک کو درپیش بڑا داخلی بحران کس طرح ٹالا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کا ماڈل قرضوں پر انحصار کرتا ہے۔ اس ماڈل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ پیداوار اور تجارت کو فروغ دیا جانا ضروری ہے۔ جب تک ریاست کے پاس اپنے ذرائع منافع نہ ہوںاس کی معاشی محتاجی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت اس سلسلے میں تساہل سے کام نہ لے۔ چودہ ماہ گزر چکے ہیں۔ باقی کی مدت بھی اسی طرح گزر جائے گی۔ معاشی استحکام کو تادیر برقرار رکھنے میں جو دو اہم امور مدد فراہم کرتے ہیں ان میں فوڈ اور انرجی سکیورٹی شامل ہیں۔ پاکستان ان دونوں شعبوں کی ترقی کے لئے جلد نتائج دینے والی حکمت عملی وضع کر سکے تو خطے کے دیگر ممالک کی نسبت اس کی معیشت زیادہ برق رفتاری سے ترقی کر سکتی ہے۔