ڈاکٹر نذیر احمد قریشی صاحب لاہور کی ایک منفرد اور نادر روزگار روحانی شخصیت تھے۔انہوں نے پاکستان کے روحانی منظر کو جیسا دیکھا‘ ویسا بیان کیا۔محمد رضا شاہ پہلوی نے خمینی انقلاب کے دبائو کے تحت مذکورہ بالا تاریخ 16جنوری 1979ء کو ایران چھوڑ دیا۔شاہ ایران کی جہاز پر بیٹھنے کی تصویر دنیا بھر کے میڈیا نے دکھائی ۔ڈاکٹر نذیر قریشی نے خبر پر روحانی تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’بادشاہت ایران میں دوبارہ آئے گی‘‘ پروفیسر محمد منور مرزا نے کہا :کہ ڈاکٹر صاحب! دعا کریں کہ ایران میں اصحابؓ رسولؐ کا لایا ہوا اسلام دوبارہ آ جائے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا یہ بھی ہو گا‘ مگر تھوڑا وقت لگے گا‘‘ اب بقول ڈاکٹر صاحب ایران میں تبدیلی کا وقت دور نہیں۔جن دنوں عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر قبضہ کیا تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ’’صدام کویت خالی کر دے گا۔مگر زندہ رہے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید فرمایا :کہ صدر صدام حسین کے ذمے کچھ کام ہیں، جو وہ کر کے دنیا سے رخصت ہوں گے‘‘ 27دسمبر 1979ء کی شب روس نے کابل میں سرخ افواج اتاری۔غالباً یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی یورپ کے ملک پولینڈ میں روسی تسلط اور استعمار کے خلاف نعرے بازی اور تحریک چل رہی تھی۔ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: کہ روس افغانستان سے شکست کھا کر واپس جائے گا۔روس کے خلاف افغان مزاحمتی مجاہدین کامیاب تحریک چلائیں گے۔روسی شکست کے بعد افغانستان میں مزاحمتی مجاہدین کی حکومت نہیں بنے گی بلکہ افغانستان میں مجاہدین اور غیر مجاہدین کی ملی جلی سرکار سازی ہو گی۔افغانستان میں یہ دور اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک پاکستان میں ’’ڈنڈے والی سرکار‘‘ قائم نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب نے مثال دی کہ کابل چیونٹی کی طرح روسی ہاتھی کی سونڈ میں گھس گیا ہے روس کو سرنڈر کرنا پڑے گا اور روسی شکست میں پاکستان کی ضیاء الحق انتظامیہ کلیدی کردار ادا کرے گی۔نیز پولینڈ میں اس دور کی مزاحمتی تحریک ناکام رہے گی۔مشرقی یورپ کو مجموعی طور پر آزادی افغان مجاہدین کے صدقے ملے گی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی(16دسمبر 1971ء ) پاک و ہند کے مسلمانوں اور امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم سانحہ سے کم نہیں۔اس موقع پر ڈاکٹر نذیر احمد قریشی نے فرمایا: کہ مشرقی اور مغربی پاکستان دوبارہ یکجان ہو جائیں گے مگر اس میں تھوڑا وقت لگے گا۔ آ ملیں گے سینہ چاکان وطن سینہ چاک! اور ظلمت رات کی سیماب بپا ہو جائے گی! ڈاکٹر صاحب نے مزید فرمایا: کہ ذوالفقار علی بھٹو کی موت غیر فطری ہے۔اسے پھانسی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔آپ نے فرمایا کہ بھٹو کے بعد پاکستان میں ایک جرنیل آئے گا جو نرم خو ہو گا، اس کے دور میں نظام کے اندر سختی نہیں ہو گی۔اس جرنیل کے بعد پاکستان میں جمہوری اور فوجی ملی جلی سرکار سازیاں ہوں گی۔اس دور میں پاکستان کے اندر افراتفری ‘ انارکی اور خونریزی ہو گی اسی دور میں جمہوری و فوجی اکابرین آپس میں دست و گریباں ہوں گے۔حکومتیں بنتی ‘ بگڑتی رہیں گی۔حالات و واقعات ابتری کی تصویر ہوں گے، ملک کے اندر نظام اور انتظام زیرو ہو جائے گا۔ قتل و غارت اور لاقانونیت کا راج ہو گا، اسی دور میں پاکستان کے اندر گلی گلی لڑائی اور خون ہو گا اور یہ کیفیت تقریباً ہفتہ دس دن رہے گی اور پھر کچھ ینگ مگر نیشنلسٹ لوگ پاکستان کے اندر پانچ سات دن میں امن و امان بحال کر دیں گے۔میڈیا بند کر دیں گے سرحدیں سیل کر دیں گے۔غیر ملکی اور عالمی مداخلت ختم کر دی جائے گی۔شرپسند بیک لخت صاف کر دیے جائیں گے پاکستان معاشی‘ معاشرتی ‘ اخلاقی انتظامی اور مذہبی یکجہتی کا منظر بن جائے گا۔ مذکورہ ڈنڈے والی سرکار کے علاقائی اور عالمی اثرات مرتب ہوں گے یہ سرکار جمہوری ہو گی اور نہ روایتی فوجی‘ نہ پارلیمانی اور نہ صدارتی بلکہ سخت گیر نیسنلسٹ ہو گی ایک مرے گا‘ دس اس جیسے کھڑے ہوں گے دس مریں گے تو سو کھڑے ہوں گے سو مریں گے تو ہزار کھڑے ہوں گے علاقائی منظر مندرجہ بالا ہے اور عالمی منظر درج ذیل ہے۔پاکستان میں ڈنڈے والی سرکار کی آمد سے دنیا میں جمہوریت کی تکفین اور تدفین ہو جائے گی عراق اور شمالی افریقہ دو بڑی اسلامی ریاستیں Empireابھریں گی جو مشرق وسطیٰ کی امریکی روسی اور اسرائیلی استعماری ذیل ریاستیں ختم کر دیں گی یعنی جو کام صدر صدام حسین نے کویت پر قبضہ کر کے کیا تھا وہی عمل کامیابی کے ساتھ دہرایا جائے گا نیز اسرائیل مذکورہ بالا دو عظیم اسلامی ریاستوں کے درمیان سینڈ وچ بنا کر ختم کر دیا جائے گا یہ سب واقعات پاکستان میں ڈنڈے والی سرکار کی آمد کے بعد ہوں گے اور اس آمد کی نمود قریب تر ہے سٹیج تیار ہو رہا ہے امریکہ بحیثیت عالمی طاقت سکڑ کر آزاد اور خود مختار ریاستوں میں بٹ جائے گا ڈنڈے والی سرکار چین اور افغانستان کے ساتھ مضبوط سیاسی اور دفاعی محاذ قائم کریں گے جو جنوبی ایشیا اور دنیا کا نقشہ بدل دے گا پاکستان کے اندر جس نے جتنا نقصان پہنچایا ہے وہ ذرے ذرے کا حساب چکائیں گے۔یہ سب عنقریب ممکن ہے مجھے یہاں ڈاکٹر نذیر احمد قریشی کا پیغام بذریعہ صوفی صادق صاحب یاد آیا کہ استاد گرامی پروفیسر محمد منور مرزا سقوط ڈھاکہ میں اندرا گاندھی کے بعد کردار کے حوالے سے خصوصی توجہ رکھتے تھے جس کے باعث ڈاکٹر نذیر قریشی شرارتاً کہتے تھے کہ اندرا‘ مرزا صاحب کی رانی ہے غالباً فروری یا مارچ 1984ء کی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے خصوصی ’’پرسا‘‘ بھیجا کہ اندرا رانی تیزی سے ۔چٹا۔کی جانب دوڑ رہی ہے اور اندرا گاندھی 31اکتوبر 1984ء کے دن سکھ باڈی گارڈ بے انت سنگھ کے ہاتھوں ماری گئی یعنی جنرل اڑوڑہ سنگھ کی قوم نے سقوط ڈھاکہ کے کلیدی کردار کو ختم کر دیا۔پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال ایک روحانی شاعر بھی ہیں انہوں نے بجا فرمایا کہ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پر آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی