ناجانے کب سحر ہوگی! ناجانے کب؟ اک نسل اس امید میں بجھ گئی‘دوسری تگ ودوکے مرحلے میں کبھی داخل تو کبھی نا امیدی کی رسم کفر کا شکار ہوجاتی ہے‘کیوں نہ ہو؟ اس کا مقابلہ براہ راست مافیا سے ہے۔بیورو کریسی سے لیکر اشرافیہ اور حکمران اشرافیہ کیا کسی مافیا سے کم ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے عام آدمی کے 75سال بیت گئے‘اس دوران کئی لیڈر ابھرے‘انہوں نے امیدسحر دکھائی‘ خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے متلاشی پروانوں کی مانند ان کے پیچھے چل دئیے مگر کہیں کچھ تبدیل نہ ہوسکا۔پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے‘ مہنگائی‘بیرو زگاری‘غربت‘افلاس وغیرہ وغیرہ تمام مسائل انہی بنیادوں پر استوار ہو کر بحران کی شکل اختیار کرتے ہیں۔وقت رواں میں اس حقیقت تلخ سے انکار کیسے ممکن ہے؟ کیا ہر شخص بینائی نہیں رکھتا اور وہ دیکھ نہیں سکتا کہ بجلی‘گیس‘پٹرولیم مصنوعات‘ اشیاء خوردنوش کی قیمتوں میں کس بھیانک انداز سے اضافہ کیا گیا‘غلطی اس پر اپنی تسلیم کرنے کی بجائے پی ڈی ایم جماعتوں کے چوں چوں کے مربہ نے بھڑکیں لگانا شروع کررکھی ہیں کہ وہ مشکل فیصلے کررہے ہیں‘ایسے فیصلوں پر اللہ کا عذاب نازل ہو۔ حکمران مشکل فیصلوں کا عذاب عوام پر نازل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے۔ ہم اگر ترقی یافتہ جمہوریت کے باسی ہوتے‘ ہماری سماجی ترقی رفعتوں کو چھو رہی ہوتی تو نالائقوں‘ نااہلوں اور غفلت کے خوگروں کو بتاتے: جناب مشکل فیصلے آپ نے معاملات حکومت کے اخراجات محدود کرکے کرنے ہوتے ہیں۔ آپ جنہیں مشکل فیصلوں کا نام دے رہے ہیں وہ عوام کو مایوسی‘نفرت اور لاقانونیت کی راہ دکھانے کے مترادف ہیں‘ ستم اس پر یہ کہ پی ڈی ایم کے سارے حکمران عوام دشمن ثابت ہونے کے بعد اپنی اصلاح کرنے‘اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنے‘عوام کو ڈلیور کرنے یا کم از کم سیلاب متاثرین کی ہر ممکن امداد کرنے کی بجائے اپنی گفتگو کا آغاز اور اختتام عمران خان پر تنقید کی صورت میں کرتے ہیں‘ ان دیوانوں کو کوئی بتائے:جس طرح آپ نے عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹا‘اسکے بعد جیسے تحریک انصاف کی بات کرنے والوں کو ریاستی ظلم و جبر کا نشانے بنانا شروع کررکھا ہے،آپ کی حکومت عوامی سطح پر کیسے مقبولیت حاصل کرسکتی ہے۔ موجودہ حکومت اتنی نااہل ہے:اس نے تحریک انصاف کو نیا سیاسی جنم بخشا۔مہنگائی پر جو تحریک انصاف ہدف تنقید پر تھی‘پی ڈی ایم حکمرانوں نے ملکی تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کرکے عمران خان کو ہیرو بنادیا‘ اب انہیں زیرو بنانے کی کوشش میں روز منہ کی کھاتے ہیں۔ عمران خان جلد احتجاجی تحریک جسے وہ حقیقی آزادی کا نام دیتے ہیں‘ اسے شروع کرنے جارہے ہیں‘اس سے بہت پہلے خائف حکمرانوں نے اسلام آباد میں کنٹینرز اور خاردار تاروں کی بھرمار کردی‘گویا قبل از وقت اپنی شکست کو تسلیم کرلیا گیا‘ کوئی مانے یا نہ مانے‘پنجاب میں گزشتہ ہونیوالے ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی بدترین شکست‘درحقیقت 25مئی کے ظلم و جبر کا ردعمل تھا۔ عمران خان کیخلاف جب بھی کوئی ریاستی ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا ہے‘وہ مزید ان کی مقبولیت اور عوامی عروج کا باعث بن جاتا ہے‘ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔عمران خان کی عوام میں حد سے زیادہ مقبولیت کا نتیجہ ہے کہ شہباز شریف سے لندن میں نواز شریف نے ملاقات کے بعد متفقہ اعلامیہ جاری کیا کہ انتخابات کسی دباؤ کے بغیر بروقت منعقد ہونگے۔ نواز شریف کسی طور پر پہلے بھی انتخابات نہیں چاہتے تھے‘ یہ صرف ن لیگ کا میڈیا سیل تھا جس نے ایک ہوا بنا رکھا تھا کہ نواز شریف فوری انتخابات‘فریش مینڈیٹ چاہتے ہیں‘یہ سب جھوٹ تھا اور ثابت ہوگیا۔ پنجاب میں وفاقی حکومت کو سی سی پی او لاہور کے حوالے سے شدید پریشانی لاحق ہے‘اسلام آباد تک محدود وفاقی حکومت کو صرف ایک ہی فکر ہے:اگر عمران خان اس مرتبہ نکلے‘ان کے ساتھ عوامی قوت کئی گنا زیادہ ہوگی‘اسے روکنے کیلئے پنجاب اور کے پی کے سے پویس طلب کی جارہی ہے‘ یہ سب حکومتی ذہنی پستی کا ثبوت ہے۔پنجاب حکومت وفاقی حکومت کے سر پر بھوت کی طرح سوار ہوچکی‘وہ اسے گرانے کیلئے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈہ اپنا رہی ہے۔ عمران خان نے چکوال کے جلسہ عام میں انکشافات کیا کہ ہمارے ارکان کو نامعلوم افراد نامعلوم نمبرز سے کال کرکے دھمکا رہے ہیں‘انہوں نے کہا کہ آپ کو جو دھمکی دے‘اسے برابر دھمکی د۔‘عمران خان مسلسل وطن عزیز میں انقلاب آنے یا لانے کی باتیں بھی کررہے ہیں‘فی الوقت عوام اس حد تک بیزار ہوچکی ہے کہ انقلاب کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔ پاکستان کا قیام از خود بہت بڑا انقلاب تھا۔ وقت بار بار عیاں کررہا ہے: چودہ اگست 1947 کو ہم نے جغرافیائی طور پر آزادی حاصل کی‘سامراجی طاقتوں کے تسلط سے باہر نہیں نکل پائے۔ عمران خان حکومت میں رہنے کے بعد سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں‘ اس کا مشاہدہ انہیں ہوچکا‘غیر ملکی مداخلت اور سازش پر انہو ں نے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا‘نتیجہ جس کا یہ نکلا کہ ان کو مسلسل دبانے‘منظر سے ہٹانے اور ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کی سازشیں شروع ہوگئی ہیں۔ کسی نے عوام کے علاوہ سازش کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا‘جس پر تا وقت محاذ آرائی اپنے نقطہ عروج پر ہے‘طاقت کے زعم میں اہل اقتدار ہواؤں کا رخ اور عوام کی نبض شناسی سے مکمل طور پر محروم ہوچکے ہیں‘ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اور شعور دھندلا چکا ہے‘ شاید یہی وقت انقلاب کی راہ ہموار کردے‘وگرنہ جیسے جیسے ہتھکنڈے اپنائے گئے‘جو کچھ کیا گیا‘آمریتوں میں بھی اس کی مثال کم ملتی ہے۔ حکمران جتنا توڑیں گے‘ جتنے ریاستی جبر کرینگے‘جتنی سازشیں ہونگی‘جتنے عیب نکالیں گے اور جتنی رعونیت کا مظاہرہ کرینگے‘اس سے دگنی شدت کیساتھ ردعمل آئیگا۔ ملک تبدیلی کے اہم ترین دوراہے پر کھڑا ہے‘عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے‘ عمران خان میدان عمل میں ہیں‘پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں‘ اس فیصلہ کن مرحلے کی نزاکت حکمرانوں کو سمجھ نہیں آرہی‘ان کی بوکھلاہٹ بڑھ رہی ہے اور عمران خان میدان میں پورے مقابلے کیلئے تیار ہیں‘ یہ سیاسی ماحول روایت پسند کرپٹ سیاستدانوں کیلئے کسی قیامت سے کم نہیں‘ اس لئے بے چینی و اصطراب میں کوئی نہ کوئی بونگی مارتے جارہے ہیں۔