راولپنڈی آرٹس کونسل میں 24نومبر ایک تصویری مقابلہ منعقد ہوا۔ جس میںراولپنڈی، اسلام آباد، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پچاس سے زائد نوجوان بچوں اور بچیوںنے حصہ لیا تصویری نمائش کا موضوع ترکی کے مشہور ڈرامے ارطغرل غازی کے مختلف کردار تھے۔ اِس تقریب میںراقم بھی مدعو تھا جس کی مہمان خصوصی محترمہ افشاں تحسین باجوہ تھیں جو آج کل بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق نیشنل کمیشن کی چیئرپرسن ہیں۔ تقریب میں راولپنڈی آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر وقاراحمد اور نمائش کے آرگنائزر مستحسن عباس کاظمی کے علاوہ نمائشی مقابلے میںحصہ لینے والے بچوں اور بچیوں کے والدین ، دوست احباب اور عزیزوآقارب نے بھی شرکت کی اس موقع پر کامیاب قرار دیئے گئے۔ بچو ں میں اسناد او ر نقد انعامات بھی تقسیم کئے گئے ۔ میں نے اس تقریب کا احوال بیان کرنے کے لئے اُسے کیوں چنا؟ اس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے جس وقت سے میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں ٹی وی پر میرے سامنے تین مختلف خبریں دی جارہی ہیں گوجر خان کے علاقے میں گھریلو ناچاقی کے باعث ایک ماں نے اپنی تین بیٹیاں جن کی عمریں ایک سال ،تین سال اور چھ سال تھیں کنویں میںپھینک دیں جہاں وہ دم توڑ گئیں ۔ماں نے خود کشی کی کوشش کی لیکن ابھی تشویشناک حالت میںزندہ ہے۔ ساہیوال میںایک آٹھ سالہ بچی گھر سے ٹافیاں لینے باز ار گئی جسکے ساتھ زیادتی کے بعد اُسے قتل کردیا گیا اور دومو ٹر سائیکل سواروں نے اُس کی بوری بندلاش گھر کے دروازے کے آگے پھینکنے کے بعد فرار ہوگئے۔ پنجاب کے ایک گائوں کے اسکول کا واقعہ ہے کہ ایک نوجوان ٹیچر آٹھ سے بارہ سال کی بچیوں کو گذشتہ نہ جانے کتنے عرصہ سے اپنی ہوس کا نشانہ بنا تا رہا ۔ اس معاشرتی پس منظر کے باوجود اگر آج بھی ہمارے بچے اور بچیاں دوسرے شہروں سے راولپنڈی تک کا سفر صرف ایک تصویری مقابلے میں شرکت کے لئے اختیار کرتے ہیں تو ان کی جرأت اورہمت اور اپنی قوم کے درخشاں مستقبل کایقیننہ کیا جائے تویہ زیادتی ہوگی ۔ اس وقت علامہ اقبال کی وہ عظیم نظم جو ہم سب کے بچپنے کا حصہ ہے مجھے یاد آرہی ہے۔ لب پے آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری مقابلے میںشامل ہر بچے اور بچی نے ثابت کیا کہ اُسے اس ملک اور قوم کے لئے ایک شمع بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسرا پہلو جو میرے لئے باعث اطمینان اور متاثرکن تھا یہ تھا کہ ہماری تعلیمات کے برعکس ہمارے آج کے بچے کیسے ماضی میںاپنی اُس شناخت کو تلاش کررہے ہیں جو ذہنی طور پر روشن وکشادہ ،غوروفکر کی بلندیوں سے لیس منظم اور متحد لیکن ڈھکے ہوئے جسموں کے دلدادہ کیسے بن بیٹھے ہیں ؟ کیا اپنے بڑوں کے خلاف یہ اُن کی بغاوت نہیں ہے؟ کیا ہماری تعلیم و تربیت پر یہ ایک زناٹے دار طمانچہ نہیںہے؟ ہم نے توانھیں اُردو میڈیم اور انگلش میڈیم میںبانٹ کر اُن کی شناخت ہی چھین لی تھی۔ مدرسوں کی ایک الگ ہی دنیا بساکر انھیں دے دی تھی انھیں باور کرادیا تھاکہ تعلیم ایک کاروبار کے علاوہ کچھ نہیں پھر یہ سب کیسے ہوگیا؟ ہم نے تو انھیں تفرقوں کی ایک ایسی آگ میں جھونک دیا تھا جو بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی ۔ اِس کے باوجود اگر یہ بچے اتفاق ویگانگت اور بھائی چارے کی طرف بڑھ رہے ہیں تویہ ہمارے پر اُن کا احسان نہیں تو اور کیا ہے؟ تقریب میں مجھے احساس ہوا کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ ۔ جن بچوں کی راہ میں رشوتوں، سفارشوں کیپہاڑ کھڑے کردیے گئے ہوں اور پھر بھی وہ خود کو منوا لیں تو وہ کس قدر عظیم بچے ہونگے ۔ ہم نے نہیں بلکہ گوگل انٹرنیٹ ، فیس بک اور یوٹیوب نے اُن کی راہ کی ساری رکاوٹوں کو مسمار کردیا ہے۔ یہ دنیا اُن کے لئے کھولدی گئی ہے ساری دنیا ان کی اس طرح پہنچ میں آگئی ہے کہ جس کے باعث ہم جیسے گناہ گاروں کی نسبت ہمارے بچے ’’پہنچے ہوئے‘‘ ہوگئے ہیں ۔ہمیں ابھی تک ہمارے ماضی نے شکنجوں میں جکڑ ا ہوا ہے جبکہ ہماری یہ پود مستقبل کو دبوچنے کے درپے ہے۔ پاکستان نے جس طرح گزشتہ دو ڈھائی سالوں میںکروٹ لی ہے اُس کی مثال ستر سالوں میں نہیں ملتی ۔مودی کا بھارت آج جگہ جگہ رسوا ہورہاہے، پاکستان آج امریکہ سمیت سب کی ضرورت بن چکا ہے۔ پاکستان ڈاکوئوںاور چوروں کے چنگل سے نجا ت حاصل کررہاہے۔ اپنے ہونہار بچوں کو سلام نہ کرنا ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کی انتہا ہوگی۔ او آئی سی کی حالیہ غیرمتوقع قرار داد نے بنانگ دہل ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ حکومت پاکستان نے ملکی حالات کے پیش نظر بچوں کے حقوق کی نگہداشت اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ایک کمیشن بنایا ہے جس کا باقاعدہ اجرا فروری 2020میں ہوا ۔ اس کے مقاصد میں بچوں کے اُن سارے حقوق کی نگہداشت کے اقدامات شامل ہیں جو اِس با ت کو یقینی بنائیں گے کہ پاکستان کے بچے ہر قسم کے استحصال اور جبرکے ماحول سے پاک ماحول میںعزت واحترام کے ساتھ پروان چڑھ سکیں۔ بچوں کے خلاف مجرمانہ زیادتیوں اور استحصالی اقدامات کو روکا جاسکے ان کی اعلیٰ ذہنی اور جسمانی صلاحیتیوں کو اجاگر کرنے کے لئے نئے قوانین کا اجرا اور جہاں ضرورت جو پہلے سے نافذ العمل قوانین میںمناسب ترامیم متعارف کرائی جاسکیں بچوں کے خلاف حالیہ روارکھے جانی والی زیادتیوں کی لہر کے پیش نظر کمیشن کی ذمہ داریوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا ہے۔ جو چیز باعث اطمینان ہے وہ یہ ہے کہ جس شخصیت کو تعینات کیا گیا ہے اُن سے ملاقات اور اُن کے خیالات اور افکار سے آگاہی کے بعد پورے وثوق اور اطمینان سے کہا جاسکتا ہے کہ منصب کی ضروریات اور ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے حکومت وقت کا انتخاب ایک بہترین انتخاب ہے کیوں؟ اِس لئے کہ افشاں تحسین باجوہ کا تعلیمی اور پیشہ وارنہ پس منظر ، ان کا بین ا لاقوامی اداروں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ اور پاکستان کے معاشرتی مسائل کا بھرپور ادراک اور اس سے بڑھ کر اُن کا چھلکتا ہو اولولہ اور عزم اِس بات کا غماز ہے کہ وہ محترمہ ثانیہ نشتر کی طرح بہترین نتائج دینے کی پوری ـصلاحیت رکھتی ہیں۔گذشتہ ستر سے زیادہ برسوں میںمملکت خدا داد پاکستان نے اگر کسی جنگ میں مسحورکن کامیابی حاصل کی ہے تو وہ تعلیم کے خلاف جنگ میں کی ہے یہ اسی کی برکت ہے کہ وطن عزیز کے ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں کے باہر گلیوں محلوں اور سڑکوں پر دن رات رُل رہے ہیں۔ بچوں کے حقوق کے لئے بنائے گئے کمیشن نے اس صور ت حالات سے کیسے نبٹنا ہے؟ اس کا دارومدار اب ان کی حکمت عملی پر مبنی ہوگا۔