آصف علی زردای اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت رہے، ماضی میں ان کو مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ پاکستانی جمہوریت کا کمال دیکھیں کہ وہ ہمارے صدر مملکت رہے 5اگست 2010ء کوبرطانیہ کا ڈیلی میل اپنے صفحہ اول پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور آصف علی زرداری کی ملاقات کی تصویر شائع کرتے ہوئے اس تصویر کے ساتھ خصوصی کیپشن شائع کرتا ہے وہ ذرا ملاحظہ فرمائیں۔ "Why Cameron Should Count His Fingers After Shaking Hands With Pakistan's Mr ten Percent" اسی نوعیت کا تبصرہ ان ہی دنوں برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے بھی بڑا نمایاں طور پر شائع کیا تھا حتیٰ کہ بعض برطانوی اخبارات نے صدر پاکستان کے دورہ برطانیہ کے موقع پر یہاں تک لکھ دیا کہ… "Mr 10 percent is in 10 Downing Street" اب ذرا اندازہ کریں کہ ہماری موجودہ جمہوریت میں زرداری صاحب کو ڈھیل فراہم کر دی گئی تبھی تو وہ صحت مند‘ ہشاش بشاش ہو کر اسلام آباد میں موجود ہیں سینٹ کے انتخابات میں بھر پور انداز میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں جتنا عرصہ بھی وہ کرپشن کے مقدمات میں زیر حراست رہے وہ زیادہ عرصہ وی آئی پی کے طور پر ہسپتال ہی میں رہے۔ قومی خزانہ دونوں ہاتھوں سے لوٹا پورا سندھ کراچی سمیت برباد کر دیا۔ بے شمار کرپشن کے ثبوت منظر عام پر لائے گئے ان کا آخر انجام کیا ہوا؟ پوری قوم جانتی ہے کہ پاکستانی جمہوریت میں ہمیشہ سیاسی مفادات اور اقتدار ہی میں رہنا ہمارے نظام کی مجبوری بن چکی ہے۔ ہمارا نظام ہمیشہ چند مخصوص خاندانوں کو خود راستہ بنا کر دیتا ہے کہ آپ بار بار اقتدار میں آئیں یہ موجودہ نظام سہولت کار کا کام کر رہا ہے۔ میاں نواز شریف کو بار بار اقتدار میں لایا گیا ملک کا خزانہ ہر بار لوٹا گیا ہائوس آف زرداری اور ہائوس آف شریف نے پاکستانی جمہوریت کے ثمرات سے بھر پور فائدہ اٹھایا آج پاکستان تو کیا مغربی ممالک میں ان دونوں خاندانوں کی جائیدادیں اور اثاثے موجود ہیں ان جمہوری ثمرات کے مزید معجزے ہمارے سامنے ہیں یعنی بلاول زرداری کو بلاول بھٹو زرداری بنا دیا گیا ہم یہ تماشا بھی دیکھتے رہے آج بلاول بھٹو زرداری جیالوں کا لیڈر بن کر سامنے کھڑا ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ چودھری اعتزاز احسن اور رضا ربانی جیسے سینئر لوگ اس نئے بھٹو کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ نہ بھٹو ہے اور نہ ہی بینظیر یہ دراصل زرداری ہے یہ ہے وہ کرشمہ جو پاکستان کی موجودہ سیاست میں پوری قوم کا مذاق اڑا رہا ہے دوسری جانب دیکھ لیں کہ میاں نواز شریف کو پاکستان کی عدالتوں نے سزا دی اس کے باوجود وہ وی آئی پی بن کر جیل کی بجائے ہسپتال ہی میں رہے اور پھر بیرون ملک جانے میں کامیاب ہو گئے اس طرح کی مثال پاکستان کی تاریخ میں موجود نہیں ہے کہ ایک مجرم اپنی سزا پوری کئے بغیر ہی پاکستان سے باہرگیا ہو۔ حد تو یہ کہ پورے کا پورے ہائوس آف شریف کرپشن میں ملوث ہے خود میاں صاحب کی صاحبزادی مریم نواز ضمانت پر ہیں ان کے دونوں بھائی مفرور اور برطانیہ میں ہیں میاں صاحب کے سمدھی اسحاق ڈار مفرور ہیں وہ بھی اپنے صاحبزادوں کے ساتھ لندن میں موجود ہیں یعنی پورا خاندان قومی خزانہ لوٹنے اور دیگر بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا کر رہا ہے پھر بھی مریم نواز کو لیڈر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سیاسی جلوس‘ سیاسی جلسوں اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں مریم نواز برابر شریک ہوتی ہیں یہ بھی تو کرشمہ ہے ہماری پاکستانی سیاست کا کہ معصوم عوام جو کہ قوم تو نہ بن سکے ایک ہجوم کی شکل اختیار کئے ہوئے ہیں کبھی’’جئے بھٹو‘‘ تو پھر کبھی’’اک واری فیر شیر‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ تین سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف اور شاہد خاقان عباسی ایک بار پھر ایک ساتھ اکٹھے ہو کر وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ جمہوری ممالک میں سابق وزرائے اعظم دوبارہ اقتدار میں آنے کی بجائے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر فلاحی سرگرمیوں میں اپنے تجربات کو بروئے کار لاتے ہیں لیکن سرزمین پاکستان میں ہمارے سابقہ حکمرانوں کو بغیر اقتدار کے نیند ہی نہیں آتی۔ افسوس ہوتا ہے کہ جب ہمارے میڈیا پر اکثر اوقات ہمارے قلم قبیلے کے معروف نام آصف زرداری‘ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو زیرک سیاستدان کہتے ہیں کیا زیرک سیاستدان کبھی قومی دولت بھی لوٹتے ہیں؟ کیا بلاول ہائوس اور جاتی امرا ہمارے جمہوری نظام میں اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ ان ہائوسز میں رہنے والے ہم میں سے ہیں؟ ان ہائوسز کے تو قبرستان بھی اپنے ہیں کیا یہ عام لوگوں کے قبرستانوں میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں؟ان لوگوں کی بیماریوں کا علاج بھی بیرون ملک ممکن ہوتا ہے۔یہ پاکستان کے ہسپتالوں میں اپنا علاج بھی نہیں کرواتے۔ اب اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم جیسے لاکھوں افراد عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکے ہیں کہ ہمارا تو قافلہ ہے اب سفر آخرت کی جانب رواں دواں۔ اب کیوں نہ اپنی آنے والی نسلوں کا سوچیں۔ چھوڑیے اب نظریاتی سیاست‘ آپ نے کبھی سوچا کہ کیا وصیت کی پرچی والے زرداری بھی بھٹو بن سکتے ہیں؟ اور پھر ذرا جائزہ لیں کہ بلاول زرداری اور مریم نواز کی آخر قابلیت اور اہلیت کیا ہے؟ فقط ان دونوں کی قابلیت یہ ہے کہ یہ ہائوس آف زرداری اور ہائوس آف شریف کی پیداوار ہیں اور پھر ان ہائوسز کا ہر فرد قومی دولت لوٹنے کا مرتکب ہوا ہے۔ نسل درنسل خاندانی اجارہ داری کا غلبہ ہے جو کہ پاکستانی جمہوریت میں مافیاز کی شکل میں اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں کمال پھر ہماری جمہوریت کا یہ بھی ہے کہ ان دونوں خاندانوں کی لوٹ مار کے ثبوت بھی نہیں ہیں قومی ادارے بے بس ہیں پوری بیورو کریسی اپاہج ہو چکی ہے اسی جمہوریت کا ایک اور کمال دیکھیں کہ اب دوہری شہریت رکھنے والے بھی پاکستانی سیاست کا حصہ بن سکیں گے فیصلہ خود کر لیں کہ کیا خود ساختہ جلاوطنی میں زندگی گزارنے والے اور دوہری شہریت کے حامل افراد پاکستانی سیاست میں قومی مفاد کو کس طرح تحفظ فراہم کر سکیں گے؟ کیا اس طرح سے قومی سلامتی متاثر نہ ہو گی۔ کیا کبھی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی طرح کی پاکستانی جمہوریت کا تصور دیا تھا؟پاکستان چند مراعات یافتہ خاندانوں کی خاندانی اجارہ داری کے لئے وجود میں آیا تھا؟ یہ قومی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہیں اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔