لندن سے پاکستان اور پھر کشمیر کی لائن آف کنٹرول تک کا سفر کرکے تقریباً تین ہفتوں کے بعد واپس برطانیہ پہنچا ہوں اسی لئے کالم لکھنے میں تاخیر ہوئی ہے ایک طرح کی افراتفری ہی رہی ہے۔ مملکت خداداد پاکستان کا کیا حال سْنائوں موجودہ حالات کے پیشِ نظر اس کے مستقبل کی کیا بات لکھوں حالات و واقعات کو دیکھ کر مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں اپنے دوست احباب اور عوام الناس سے ملنے کے بعد جو کچھ لکھنے لگا ہوں اس پر میرا ضمیر سو فیصد مطمئن ہے اگرچہ میں ایک سال کے بعد پاکستان گیا ہوں لیکن دل خون کے آنسو روتا ہے چونکہ ہم بد سے بدتر کی جانب گامزن ہیں۔ اس وقت سیاسی‘ معاشی ‘معاشرتی اور اخلاقی اعتبار سے ہمارے ملک کے مقتدر, مالدار اور مراعات یافتہ طبقات نے اسے اس ملک کو اس مقام پر لاکھڑا کردیا ہے کہ اگر سچ بولیں تو بھی مشکل اور اگر سچ کو چھپائیں تو بھی مشکل ۔ خاموش رہیں تو سب سے بڑے قومی مجرم ۔ کیونکہ ضمیر ہمہ وقت کوستا ہے اور آمادہ کرتا ہے کہ اپنے ملک کے معاملات کو اس کی بقاء اور سالمیت کے پیشِ نظر دانشمندانہ طور پر مصلحت کے ساتھ پیش کروں۔ اس وقت میری نظروں کے سامنے پاکستان کا تازہ ترین بجٹ گھوم رہا ہے۔ بجٹ عالمی ڈکٹیشن کے تحت وضع کیا گیا ہے کیونکہ اس میں دیئے گئے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے جس سے مہنگائی بڑھتی رہے گئی اور عوام اس کے بوجھ تلے دبتے رہیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ معاملات اور شرائط میں ابھی مزید پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا اور اس اضافے کے ذریعے بھی پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان سے ہمکنار کیا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت نے مختلف معاشی اصلاحات کے ذریعے ملک کو معاشی استحکام دلانے کے لئے اپنی سمت درست کرلی تھی تو ایسے وقت میں اس کی حکومت کا خاتمہ کیوں کردیا گیا اور ترقی کے اس سفر کو روکنے کی مذموم کوششیں کیوں کی گئیں۔ اب انڈسٹری کا بیڑہ غرق ہوگیا گیس اور بجلی کو غائب کردیا گیا اور ملک میں افراتفری, سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کیا گیا۔ ملک کے بیرونی دشمن اس قسم کے حالات سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ اسی دوران مغربی سرحدوں پر دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ عالمی طاقتوں کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کسی طور پر بھی عالمی سطح پر مسلمانوں کی لیڈرشپ کا رول حاصل نہ کرسکے۔ ایٹمی پروگرام ہمیشہ ان کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے۔ عالمی ایجنڈے میں اول پاکستان کو غیر مستحکم کرو اندرونی تنازعات کو بڑھائو، تقسیم در تقسیم کو فروغ دو ۔دوسرا یہ ملک جو اسلام کے نام پر بنایا کیا گیا تھا اس میں اسلامی اقدار کو ختم کرو۔ عمران خان اسلامائزیشن کی جانب بڑھ رہا تھا۔ تیسرا اس ملک کے ایٹمی پروگرام کو روکو بلکہ اتنا مجبور کرو کہ اپنے ایٹمی اثاثے خود ہی سرنڈر کرنے پر مجبور ہوجائے۔ پاکستان کی فوج کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرو اور پاکستان کو اپنے ایجنڈے کے تحت چلاؤ اب ہم دیکھتے ہیں کہ نوے فیصد ریٹائرڈ آرمی افسران موجودہ حکومتی سیٹ اپ سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ فرسٹریشن کا شکار ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ریٹائرڈ آفیسرز ایسوسی ایشن عمران حکومت کی ختم کرنے کے خلاف سڑکوں پر آئی ہے۔ حاضر سروس وردی میں مرد و خواتین آفیسرز اور جوان جو سرحدوں کے محافظ ہیں عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی چونکہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی وجہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہی۔ جن لوگوں کو حکومت دی گئی انکی اپنی کریڈیبلٹی کیا ہے؟اس حکومت کی مثال چھپکلی کی سی ہے کہ نہ نگل پا رہی ہے اور نہ اگل پا رہی ہے۔ سب لوگ اپنے لالچ میں پاگل ہو رہے ہیں ایک کو اپنی CV پر وزیر اعظم لکھوانا تھا اور دوسرے کو وزیر اعلٰی۔ نیب کے مقدمات سے چھٹکارا حاصل کرنا اسکے علاوہ تھا۔ ایک عرصہ سے لوٹی ہوئی رقوم بکسوں میں بند تھی جو گزشتہ حکومت کی سخت چیکنگ کی وجہ سے اپنی منزل مقصود پر پہنچ نہیں پارہی تھی ان کو بکسوں میں سڑنے سے بچانا بھی بے حد ضروری تھا۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ حکومت سنبھالتے ہی کچھ غیر ضروری بیرونی دورے کئے گئے تھے۔ سب کو معلوم تھا کہ ترکی کے مالی حالات بہت حوصلہ افزا نہیں ہیں جو ہمیں وہاں سے کچھ مالی امداد ملتی تو ہم وہاں سے کیا لینے گئے تھے۔ شنید ہے کہ وہاں اپنے ڈالرز رکھنے گئے تھے کیونکہ VVIP دوروں میں سامان چیک نہیں ہوتا سلمان شہباز اسی کار خیر کیلئے وہاں بن بلائے مہمان تھے۔ آصف زرداری کا چارٹرڈ جہاز سے دبئی کا سفر بھی اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ اب صاحبوں کے اسرار پر مرتے مرتے ادھورا بجٹ پیش کر تو لیا ہے مگر یہ شاید انکی سیاسی موت ثابت ہوگئی۔ ملک کو پیرس بنانے کے دعوے کرنے والے اب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سری لنکا کی طرح ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن ووٹر لسٹوں میں بڑے زور شور سے ردوبدل کر رہا ہے ۔ اس سارے پس منظر میں فوج بھی نشانے پر ہے آخر ہماری فوج ہی تو ہے جس نے ہمیں مصر‘ عراق‘ افغانستان اور لیبیا بننے سے بچانا ہے۔ جب قوم کے جذبات اور احساسات دیکھیں تو خوفناک منظر نامہ سامنے آتا ہے ۔ ہمیں پاکستانی فوج کی نیت پر کوئی شک نہیں اور پھر جب سیاسی اور معاشی عدم استحکام اتنا زیادہ ہوگا تو یونیفارم میں مراحل اور دفاع کا کیا حال ہوگا دوسری جانب اوورسیز پاکستانی جو ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں انہیں بھی نشانے پر لے لیا گیا ہے کہ اب ملک سے وفاداری اور محبت کا صلہ یہی ہے کہ تم جہاں ہو وہاں رہو جس جس ملک میں چلے گئے ہو وہیں ووٹ ڈالو اور پاکستان کو بھول جاؤ چونکہ ان کو ان کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے ان اوورسیز پاکستانیوں کا غم و غصہ تھوڑا بہت امپورٹ ہونے کے بعد دیکھنے کو ملا ہے۔