آج تک جتنی بھی حکومتیں پاکستان میں آئی ہیں۔ انکا معاشی ترقی کے بارے میں قبلہ درست نہیں رہا۔ کبھی بینکوں سے قرضے کی سکیمیں آتی ہیں۔ کبھی برآمدات کو بڑھانے کے لئے برآمد کنندگان کو ٹیکس میں چھوٹ دی جاتی ہے۔ کبھی آئی ایم ایف کا ایک پیکیج آتا ہے کبھی دوسرا۔ کبھی کسی علاقہ کو ٹیکس فری زون قرار دیا جاتا ہے۔لیکن آج تک پاکستان کے معاشی حالات درست نہیں ہو سکے اسکی وجوہات کیا ہے۔ سب سے پہلے امن و امان کی صورتحال اور دوسرے نمبر پر کرپشن۔کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا کہ بڑی سڑکوں پر بھی دکانیں سر شام بند ہو جاتی ہیں اسکی وجہ امن و امان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کی ڈیری فارمنگ میں سب سے بڑی رکاوٹ امن و عامہ کی صورتحال ہے۔ جانور کھیتوں میں ہونے چاہئے مگر پاکستان کے بیشتر علاقوں میں سب کھیت ویران ہو جاتے ہیں لوگ چھوٹی سی جگہ پر گائوں میں جانور رکھنے پر مجبور ہیں۔ پنجاب کے اکثر علاقوں میں راہ زنی اور ڈکیتی روٹین میٹر ہے۔ پاکستان جہاں زیادہ تر علاقوں میں چھ ماہ سخت گرمی پڑتی ہے اور دن میں صرف چار گھنٹے کام کرنے کے لیئے موزوں ہوتے ہیں، رات کو کام نہیں ہو سکتا، اسکی وجہ امن و امان کا مسئلہ ہے۔ لوکل روٹ پر ہر تین میں سے دو سٹاپ کے ساتھ کوئی آبادی نہیں ہوتی اور وہاں پر کوئی دکان بھی نہیں ہوتی کیونکہ رات کو چوری اور ڈکیتی کا خطرہ رہتا ہے۔ پاکستان میں اگر صرف دو سال کے لئے چوری اور ڈکیتی موجودہ شرح سے کم ہو کر دسواں حصہ رہ جائے تو ملک کی جی ڈی پی میں اگر 50 فی صد اضافہ نہ ہو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔ چوری اور ڈکیتی میں اضافہ کی وجہ کیا ہے، آپ کہیں گے غربت اور بے روز گاری۔ جناب آپ کی سوچ غلط ہے۔ اسکی وجہ ہے کرپشن۔ اگر پولیس کا نظام ٹھیک ہو۔ اس میں سیاسی مداخلت ختم ہو اور تعیناتی صرف میرٹ پر ہو اور جرائم کم ہوجائیں گے۔ جب جرم کم ہوگا تو تجارت بڑھے گی۔ روز گار کے مواقع عام ہونگے۔ شہباز شریف کے بارے میں ایک متھ ہے کہ وہ بہت اچھے منتظم ہیں۔ اگر وہ آنے والے چھ ماہ میں ملک میں عام طور پر اور پنجاب میں خاص طور پر چوری ، ڈکیتی اور قبضہ مافیا کا خاتمہ کر دیں تو ملک ترقی کی راہ پر پڑ سکتا ہے ورنہ آنے والے دنوں مہنگائی کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ گندم کی فی ایکڑ پیداور اس سال کم ہے، جس کی وجہ ایک تو وقت پر کھاد کی سپلائی کا فقدان اور دوسرے کھاد کی قیمت میں ہوشربا اضافہ۔ اور پھر موسم کی اچانک تبدیلی نے فی ایکڑ پیداوار میں کافی کمی کی ہے، اس لئے آنے والے دنوں میں گندم کی قیمت میں کافی اضافہ متوقع ہے اور دوسرے جب ڈیزل کی قیمت 250 تک پہنچے گی تو آنے والی چاول کی فصل پر بھی برا اثر پڑے گا۔ یہی حال کماد کی فصل کا ہوگا اور چینی کی قیمت میں اضافہ عوام کو بہت جلد متاثر کرتا ہے۔ گھی۔ آٹا اور چینی اور پٹرول ، ڈیزل یہ وہ تین آئٹم ہیں، جن کی قیمت میں اضافہ بہت اثر انداز ہوتا ہے جب ڈیزل بڑھے گا تو کرایہ بڑھے گا اور پھر ہر شے مہنگی ہو جائے گی۔ دکاندار طبقہ تو پہلے ہی مسلم لیگ کا ووٹر ہے اسکو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ مزدور اور ملازم دونے طبقے پس کر رہ جائیں گے اور کسان بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ نواز کا قلعہ چاول کا علاقہ ہے۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ ، شیخوپورہ، گجرات اور قصور۔ اگر ڈیزل اور بجلی کے بل قابو میں نہ رہے تو ان علاقوں کے لوگ بے قابو ہو سکتے ہیں۔ شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ وہ اپنے کپڑے بیچ دیں گے عوام کے لئے۔ جناب کپڑے نہ بیچیں بلکہ عوام کے تن کو ڈھانپنے کی سوچیں۔ یہ وقت جذباتی باتوں اور وعدوں کا نہیں کچھ کرنے کا ہے۔ اشتہار بازی نہ کریں سادگی کو اپنائیں۔ یہ آخری موقع ہے سب کے لئے۔ ورنہ نہ یہ میچ رہے گا اور نہ ریفری۔ عوام کے تیور اس بار بڑے خطرناک ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے بلیک میلینگ کی سیاست کا خاتمہ ہو۔ موجودہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی سب سے مخلوط اور کمزور حکومت ہے۔ کسی جماعت کے دو بندے انحراف کر جائیں تو یہ حکومت گر سکتی ہے۔ ایک طرف امریکہ ہے جو ہر قیمت پر چین کا راستہ روکنا چاہتا ہے اور دوسری طرف نئی سپر پاور چین جس کو گوادر تک رسائی ہر قیمت پر چاہئے۔ اب ان دو ہاتھیوں کی لڑائی میں پاکستان کا حال گھا س کا ہے۔پاکستان کی مقتدر قیادت کو بھی ایک بڑا امتحان در پیش ہے۔ ایک طرف پاکستان کے برے معاشی حالات ہیں اور دوسری طرف ایک اکثریت والی اپوزشن سڑکوں پر ہے۔2011 کا دس سال کا بچہ اب 21 سال کا نوجوان ہے اور اب اسکا ووٹ بھی ہے۔ 2013 میں عمران کے زیادہ سپوٹر کا ووٹ درج نہیں ہوا تھا۔ 2018 کے الیکشن انکی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور 2023 کے الیکشن میں انکی تعداد بہت زیادہ ہو گی ہے اور یہ سلسلہ 2028 تک جاری رہے گا۔ عمران خان کا طلسم توڑنے کے لئے شہباز شریف اور بلاول بھٹو کو بہت محنت کی ضرورت ہے ، سندھ میں انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کراچی میں اب ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی میں زبردست مقابلے کی پیش گوئی ہے۔پنجاب کے وزیر اعلی کے طور پر حمزہ شہباز کا ایک بڑا امتحان ہے۔ابھی پنجاب کی کابینہ کا مسئلہ درمیان میں ہے۔یہ آٹھ ماہ پاکستان کی سیاست کے سب سے زیادہ ہلچل کے ہیں۔ جنگ اب زوروں پر ہے جنگ کو صرف امن ہرا سکتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کپڑے نہ بیچیں بلکہ امن و امان دینے کے لئے ایک کپڑا اور لیں اور اسکو کفن بنا کر اپنے سر پر باندھیں۔