گذشتہ روز سے پاکپتن حاضر ہونے کی سعادت میسر ہے ، جہاں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کا 777واں سالانہ عرس جاری ہے ،جس میں دنیا بھر سے زائرین بالخصوص خواجہ نظام الدین اولیائؒ ( دہلی )اور خواجہ معین الدین چشتیؒ (اجمیر)کے سجادہ نشین …حاضری کی سعادت سے بہر مند ہورہے ہیں ۔حُسنِ اتفاق …جماعت اسلامی کے امیر سینٹر سراج الحق بھی حاضر ہوئے ، ان کے قائد قاضی حسین احمد نے اس ’’حجاب‘‘ کو دور کیا ،اور وہ حضرت میاں میر ؒ کے مزار پر باقاعدہ حاضری دیتے رہے ،اس پر میری ان سے تفصیلی بات چیت بھی ہوئی ،جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ،بہر حال… حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ؒ کے مزارِ اقدس کے قدموں کی طرف واقع دروازہ کو "بہشتی دروازہ"کہا جاتا ہے ، جس کی قفل کشائی کی رسم گذشتہ شب اداکی گی ،یہ دروازہ حضرت بابا فرید کے سالانہ عرس کے موقع پر 5تا 9 محرم الحرام… روزانہ بوقت مغرب وعشاء کھلتا اور بوقتِ فجر بند ہوتا ہے۔ گذشتہ سال یعنی آپؒ کے776ویں سالانہ عرس پر ان پانچ راتوں میں تقریباً چار لاکھ چھیاسٹھ ہزار سے زائد زائرین نے اس دروازے سے گزرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے وصال 1266ئ/679ھ کے بعد آپ کے خلیفہ خاص اور جانشین حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیائؒ ۔۔۔ حفاظ کی ایک جماعت کے ساتھ دہلی سے پاکپتن حاضر ہوئے اور آپ کے موجودہ حجرہ مزار کی تعمیر اپنی نگرانی میں کروائی۔ حجرہ شریف کی ایک ایک اینٹ پر قرآن پاک پڑھا گیا، جبکہ وقتِ تعمیر مزدور اور مستری باوضو ہو کر یہ فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ اس حجرہ کی تکمیل پر حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ نے جن خصوصی انواروتجلیات کا نظّارہ کیا اور جو فرمانِ ذیشان انہوں نے بنی اکرم ﷺ کی زبان فیضِ ترجمان سے سُنا، اُسی کی روشنی میں قدموں کی سمت کا یہ "بہشتی دروازہ"مقام رفیع کا حامل ہوگیا، جس پر آج بھی یہ الفاظ درج ہیں "من دخل ھذا الباب اٰمن " یعنی جو اس دروازے میں داخل ہوگا …امان پائے گا۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے برصغیر میں طریقت وشریعت کے سرخیل اور امام ہونے کے ناطے، اﷲ تعالیٰ کی واحدانیت ، نبی اکرم ﷺ کی رسالت اور اسلام کی حقانیت کی ترویج کا فریضہ جس اخلاص، تندہی اور جانفشانی سے سرانجام دیا، اس کے سبب اس خطہ کے مسلمانوں کی گردنیں فرطِ عقیدت سے، ہمیشہ ،حضرت بابا صاحبؒ کے سامنے خم رہیں گی ۔ آپؒ نے اس کار گہہ حیات میں ، جو اسلوب زندگی اختیار کیا اور طرزِزیست اپنایا ، وہ آج کے مادہ پرست انسان کے لیے مشعل ِراہ ہے ، آپ ؒ کے پیرو مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے فرمایا تھا کہ :’’سالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم سوئے ، کم بولے ،کم کھائے اور لوگوں سے کم ملے ۔‘‘ حضرت بابا فریدا لدین ؒ نے اپنے مرشد کے فرمان کی روشنی میں ساری زندگی فقیر انہ عُسرت اور درویشانہ استغنا کے ساتھ گذاری ۔لباس اور غذا میں از حد سادگی تھی۔ آپؒ کے اسلوب ِحیات اور تعلیمات میں ’’دل کی استعداد اور صلاحیت‘‘ پر بڑا زور تھا ، آپؒ فرماتے تھے یہ صلاحیت صرف اس شخص کو حاصل ہوسکتی ہے، جولقمۂ حرام سے پرہیز اور دنیا داروں سے اجتنا ب کرے ۔ایک مرتبہ مریدین کو نصیحت کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا کہ : i۔’’جو شخص زکوٰۃ نہیں دیتا…اللہ اس کے دل سے برکت اُ ٹھا لیتا ہے۔ii۔ جو شخص قربانی نہیں کرتا…اللہ اس سے عافیت چھین لیتا ہے۔ iii ۔جو شخص نماز نہیں پڑہتا…اللہ مرتے وقت اس سے ایمان کو جداکرلیتا ہے۔‘‘ ’’کرامت‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : ’’ اس کا اظہار پست حوصلہ لوگوں کا کام ہے ،مشائخ نے اس کے اظہار کو پسند نہیں کیا کہ اس سے نفس میں تکبر پیدا ہو تا ہے۔‘‘ آپ ؒنے انسان دوستی ، محبت، رواداری اور فقر و درویشی پر مبنی جو اسلوبِ حیات اور طرزِ زیست اپنایا، اس کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کرنا ہی دراصل’’ بہشتی اور جنتی‘‘ ہونے کا ذریعہ ہے اور اسی عزم اور ولولے کیساتھ، آپؒ کے عقیدتمند اس بہشتی دروازے سے گزرتے ہیں اور گزرتے رہیں گے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی ؒ جو تصوّف وطریقت اورعلم وحکمت کے گنجِ گراں مایہ تھے --- پاکپتن عرس پر حاضری کے موقع پر آپؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ ؒ جیسا عالم بھی اس دروازے کو ’’بہشتی دروازہ‘‘سمجھتا ہے…؟ آپؒ نے فرمایا :کیا تم نے یہ حدیث نہیں سُنی ،کہ مؤمن کی قبر ’’رَوْضَۃٌ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ‘‘ یعنی : ’’ جنّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔‘‘ ہوتی ہے ۔ آپ نے فرمایا اگرمومن کی قبر پرلفظ ’’جنت‘‘ کااطلاق ہوسکتاہے ،تو اس کے دروازے کو ’’بہشتی‘‘ کہنے پر کیااعتراض ہے۔ ابتدائی طور پر یہ دروازہ صرف 5 اور 6 محرم الحرام کو کھلتا تھا۔ مگر ازاں بعد گورنمنٹ نے اس قدیم روایت میں ترمیم کرتے ہوئے دو دن کی بجائے، اسے سات دن تک کھلا رکھنے کے احکام جاری کیئے ۔درگاہی ماحول میں خانقاہی رسومات بہت معتبر ہوتی ہیں۔ اس سرکاری مداخلت پرسجادگان اور خانقاہی حلقے مضطرب ہوئے ، جس کے پیشِ نظر اس کوسات کی بجائے پانچ دن تک موقوف کر دیا گیا، جس کے مطابق 5 اور 6 محرم الحرام کو بہشتی دروازے کی کشادگی کی رسومات حسبِ روایت سجادہ نشین ، جبکہ تیسرے دن اوقاف ایڈمنسٹریشن جن میں وزیر اوقاف اور ڈائریکٹر جنرل اوقاف ، چوتھے روز، سیکرٹری اوقاف، کمشنر اور آرپی او ساہیوال جبکہ پانچویں روز زونل ناظم اوقاف پاکپتن ،ڈپٹی کمشنر پاکپتن اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرپاکپتن اس سعادت سے مستفید ہوتے ہیں۔ راقم کو سال 2007ء میں مکمل… جبکہ سال 2016، 2017ء اور2018ء میں جزوی طور پر، بطور ڈائریکٹر جنرل اوقاف یہ دروازہ کھولنے کی سعادت میسر آئی۔ اس دروازے کی قفل کشائی ابتدائی دو دنوں میں آٹھ بجے شب، جبکہ باقی تین دنوں میں نمازِ مغرب کے فوراً بعدعمل میں آتی ہے۔سجادہ نشین صاحب اپنے عقیدتمندوں کے ایک بڑے ہجوم میں رسومات کی ادائیگی کے لیے مزار شریف پر آتے ہیں۔ بالعموم ان کی یہ آمد "بوجوہ"تاخیر کا شکار ہوجاتی ہے، جبکہ مزار شریف سے متصل بہشتی دروازہ سے گزرنے والے زائرین سرِ شام ہی ایک طویل قطار میں شامل ہوکر، دروازہ کھلنے کا انتظار کرتے ہیں،جو تقریباً 5کلومیٹر لمبی ہوتی ہے ۔قفل کشائی کی رسومات میں تاخیر بعض اوقاف حادثات کا باعث بھی بنتی ہے، جیسا کہ دو سال قبل بھی ایک قیمتی جان ضائع ہوئی۔ گذشتہ تجربات کے پیشِ نظر ہر سال اس عمل کو بہتر بنانے کے لیے اوقات، ضلعی انتظامیہ اور پولیس اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، جامع حکمت عملی اوربہترین منصوبہ بندی کرتے ہیں ، تاہم آخری تین دن کیونکہ سرکاری کنٹرول مستحکم ہوتا ہے، لہٰذا نمازِ مغرب کے فوراً بعد قفل کشائی کی رسم ادا کر دی جاتی ہے، جس کے نتیجہ میں زائرین بڑی سہولت کے ساتھ اس سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ چنانچہ گذشتہ سال کے اعداد و شمار کے مطابق پہلے دو دن ایک لاکھ پچاس ہزارسات سو جبکہ آخری تین دن میں تین لاکھ پندرہ ہزار چھ سو زائرین نے اس سے استفادہ کیا۔ 1973ء میں حضرت بابا صاحبؒ کے آٹھ سو سالہ جشنِ ولادت پر دہلی، لکھنو اور اجمیر میں بڑی بڑی تقریبات کا اہتمام آپؒ کے فیضِ عام کا منہ بولتا ثبوت۔۔۔ اور ان میں کنور مہندر سنگھ بیدی کے یہ اشعارلائقِ تحسین ہیں: ٹوٹ سکتا ہے نظامِ انجم و شمس و قمر اور مٹ سکتے ہیں دنیا سے یہ دشت و بحر و بر لیکن اے گنجِ شکر! تو زندہ و پائندہ ہے کل بھی تابندہ رہے گا ، آج بھی تابندہ ہے