پاکستان کا موجودہ پارلیمانی نظام انگریز کا دیا ہوا ایک نوآبادیاتی تحفہ ہے ۔ اس نظام میںبنیادی اکائی ’’حلقۂ انتخاب‘‘ رکھے گئے تھے۔حلقۂ انتخاب کی سیاست انگریز کو اپنے مفادات کی تکمیل اور نوآبادیاتی طرزِ حکمرانی کیلئے بہت راس آئی تھی۔ اس نے تقریباً دو سو سال کی محنت سے ہر علاقے میں اپنے کچھ وفادار جانثار خاندان ایسے پیدا کر لئے تھے، جن کو سرکاری مراعات دے کر انگریز نے اس قابل بنادیا تھا کہ وہ اب اپنے علاقوں میں بلا شرکتِ غیرے ہر قسم کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے تھے۔ ان غداروں کا انتخاب 1757ء میں ہونے والی جنگ ِ پلاسی میں بنگال کی فتح کے ساتھ ہی شروع کر دیا گیا تھا۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس صرف 750برطانوی سپاہی تھے اور اس نے اپنے ساتھ صرف 2,100 ہندوستانی بھرتی کیے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ انگریزوں کے پاس 100توپچی اورصرف 50کشتی بان تھے۔ جبکہ انگریز کے مقابلے میں نواب سراج الدولہ کی افواج میں تیس ہزار مسلح انفنٹری کے سپاہی اور بیس ہزار گھڑ سوار ایسے تھے جو تلواروں اور تیروں سے مسلح تھے۔پچاس فرانسیسی توپچی بھی پیچھے پہاڑی پر موجود تھے اور اس کی اپنی فوج کے پاس بھی تین سو توپیں الگ تھیں۔ مزید کمک کے لئے میر مدن اور دیوان موہن لال کی 7ہزارپیدل اور پانچ ہزار گھڑ سوار فوجی ایک دائرے کی صورت میں لارڈ کلائیو کی افواج کے مقابلے کے لئے پہاڑوں پر کھڑے کئے گئے تھے۔مگر سراج الدولہ کی اتنی بڑی فوج کے مقابلے میں چند ہزار کے لشکر کے ساتھ لارڈ کلائیو اپنے مورچے میں بیٹھا میر جعفر کی غداری کی خبر کا انتظار کر رہا تھا۔23جون 1757ء کو اسے میر جعفر کا خط موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ لارڈ کلائیو سے ’’داؤد پوتا‘‘ کے مقام پر ملنا چاہتا ہے۔ اگلی صبح میر جعفر وہاں پہنچا تو لارڈ کلائیو نے اسے سیلوٹ کرتے ہوئے نواب آف بنگال، بہار اور اڑیسہ کے ٹائٹل سے پکارا۔ اس استقبال کے اگلے روز غدار میر جعفر کا پندرہ ہزار سواروں کا دستہ الگ ہو کر مرشد آباد میں سراج الدولہ کی فوج کی پشت پر چلا گیاتاکہ انگریز فوج کے حملے کی صورت پیچھے سے وار کر سکے ۔اس غداری کے بعدجو کچھ ہوا وہ ایک المناک تاریخ ہے۔ اتنی بڑی فوج کی اتنی چھوٹی سی انگریز کی فوج کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست نے برصغیر میں انگریزوں کے وفادار اور ملت کے غدار خاندانوںکے ایک ’’نئے شجرے‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔ یہ وہی ’’شجرہ‘‘ ہے جو میر جعفر کی اولاد سے نسل در نسل چلتا ہوا سکندر مرزا تک جا پہنچتا ہے۔آج ہمارے ہاں ایک میر جعفر اور نسل میں سے ایک سکندر مرزا نہیںہے بلکہ ہر شہر، بستی، قریہ اور علاقے میں غداروں اور انگریز کے ’’وفاداروں‘‘ کی کہانی موجود ہے جنہوں نے انگریز کو ہندوستان میں قدم جمانے کیلئے افرادی قوت فراہم کی اور انگریز نے جنگ جیتنے کے بعد انہیں اپنے علاقے میں تاج ِ برطانیہ کا نمائندہ بنا دیا۔ ان کے خاندان کے افراد کو آنریری مجسٹریٹ، آنریری کیپٹن، نمبر دار، ٹمن دار، نواب، سردار، خان، نائٹ آف برٹش ایمپائر (KOBE)، آرڈرآف برٹش ایمپائر (OBE)جیسے اعزازات و اختیارات سے نوازا گیا۔ یوں ایک پورا علاقہ ایسے لوگوں کا مطیع و فرمانبردار بنا دیا گیا۔ لوگوں کے کام انہی سے پڑتے اور لوگوں کی سرکاری مشکلیں بھی وہی حل کرواتے۔ مالیہ، لگان، آبیانہ وصول کرنے اور معاف کرنے سے لے کر عمومی مقدمات کے فیصلے بھی انہی کے ہاں ہوتے۔ کورٹ کچہری، تھانہ اور پٹوار خانے میںبھی انہی کی سنی جاتی۔ کم از کم ایک سو سال یعنی تین نسلوں تک ایسا انتظامی بندو بست جاری رکھا گیا۔ یوں ہر علاقے کے لوگوں کو یہ یقین ہو گیا کہ ان کے ہاں یہی ایک بااثر خاندان ہی تو ہے جو سرکار کے حوالے سے ان کے ہر دکھ کا مداوا ہے۔ انگریز نے اپنے وفاداروں کی جو پنیری آغاز میں لگائی تھی وہ 143سال گذرنے کے بعدیعنی 1920ء میں وطن فروش سیاسی، قبائلی اور نسلی رہنماؤں کا ایک تناور درخت بن چکاتھا۔ اب انگریز کو یقین ہو گیاکہ کوئی ٹوانہ ہو یا نون، دولتانہ ہو یا تالپور، بگٹی ہو یا ارباب ان سب کا اپنا ایک ایسا ’’حلقۂ انتخاب‘‘ بن چکا ہے جس میں اگر الیکشن کروایا جائے تو یہ لوگ آسانی سے جیت جائیں گے۔اس یقین کے بعد 1920ء میں پہلی ’’لجسلیٹو کونسل‘‘ کے الیکشن کروائے گئے۔یہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے پہلے ’’جمہوری ‘‘الیکشن تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب پورے ہندوستان میں تحریکِ خلافت چل رہی تھی اور لاتعداد عظیم رہنما میدانِ عمل میں موجود تھے۔ مولانا محمد علی جوہراور مولانا شوکت علی اس کی قیادت کر رہے تھے جبکہ گاندھی اوراسکی کانگریس بھی اس تحریک کا حصہ تھی ۔ لیکن انگریز کی آشیرباد سے بنائی گئی ایک سیاسی پارٹی ’’ڈیموکریٹک پارٹی‘‘یہ الیکشن جیت گئی۔ شاید آج کسی کو یہ نام بھی یاد نہ ہو کہ اس پارٹی کا سربراہ انگلستان میں تعلیم حاصل کرنے والا ایک ہندوستانی وکیل ’’ہری سنگھ گور‘‘ تھا۔ مرکزی اسمبلی کی 104نشستوں میں سے 48سیٹیں اس پارٹی نے جیتیں، جبکہ آزاد امیدواروں اور دیگر چھوٹی پارٹیوں نے 47نشتیں حاصل کیں اور 9سیٹیں گوروں کے لئے مخصوص تھیں۔ مرکزی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کے بھی الیکشن کرائے گئے۔صوبائی اسمبلیوں کی 637نشستیں تھیں جن میں سے 188امیدوار بلا مقابلہ جیت گئے۔ گاندھی نے ان تمام الیکشنوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ، لیکن اس اعلان کا کوئی اثر نہ ہوااورپورے ہندوستان میں صرف چھ نشستیں ایسی تھیں جہاں کاغذاتِ نامزدگی داخل نہ کروانے کی وجہ سے الیکشن نہ ہوسکے۔ برطانوی ہندوستان، جہاں اس وقت تک کانگریس اپنی سیاسی جگہ بنا چکی تھی، مسلم لیگ بھی کسی نہ کسی حد تک ایک قابلِ غورتنظیم ضرور تھی، تحریکِ خلافت نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھا ہوا تھا، مگر ایسے کشیدہ ماحول میں بھی الیکشن ہوئے، ووٹ پڑے، اسمبلیاں بنیں اور لوگ منتخب ہو کر وزرائے اعظم اور وزیربھی بنے۔ آج 2021ء ہے اوران پہلے الیکشنوں کو ٹھیک ایک سو سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ایک صدی بعد بھی انگریز کے بنائے ہوئے ’’حلقۂ انتخاب‘‘ اور ان میں لوہے کی میخوں کی طرح گاڑے ہوئے یہ’’ خاندان‘‘ ویسے ہی قائم ہیںاور اسی طرح الیکشن جیتتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں کچھ نئے اثر و رسوخ والے کنبوںاور نو دو لتیے افراد کا اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن جمہوریت کی حلقہ بندی والی سیاست آج بھی ویسی ہی ہے۔ یہ ہے وہ جیتنے والے خاندانوں کی سیاست جسے عرفِ عام میں ’’الیکٹیبلز‘‘ (Electables)کی سیاست کہتے ہیں۔ اس کی اہم تاریخی مثال یہ ہے کہ پنجاب میں 1936ء کے الیکشنوں میں 157کے ایوان میں انگریز سرکار کی وفادار ’’یونیسٹ پارٹی‘‘ نے 98سیٹیں جیتیں تھیں اور قائد اعظم کی آل انڈیا مسلم لیگ کے حصے میں صرف دو نشستیں آئیں تھیں۔ لیکن جیسے ہی یہ حلقۂ انتخاب والے ’’الیکٹیبلز‘‘ نے ہوا کا رخ بدلتے ہوئے دیکھا اور وہ جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہونا شروع ہوئے تو 1946 والے الیکشنوں میں مسلم لیگ 73نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ آج پچھتر سال گذرنے کے بعد بھی یہی لوگ ہیںجو ہوا کا رخ بدلتے ہی کسی نئی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیںاور پھر جیت انکا مقدر بن جاتی ہے۔یہی لوگ ہیں جو پوری کی پوری جمہوری سیاست کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ یہی سیاست دان ہیں جو کسی سیاسی پارٹی کو نظریاتی رہنے دیتے ہیں اور نہ دیانت دار۔