’’سر !پاکستان ہماری ضد ہے ،ہم کشمیری کلمے کے بعد اگر کچھ سیکھتے ہیں تو وہ پاکستان زندہ بادکا نعرہ ہوتا ہے ‘‘ اس نے اداسی سے مسکراتے ہوئے جواب دیاا ورمقبوضہ ’’جنت‘‘ والوں کے مخصوص لب ولہجے میں کہنے لگا’’ہم نے اتناقربانی دے دیا ہے اور اتنا آگے بڑھ گیا ہیں کہ اب واپس نہیں جا سکتا آپ کو پتہ ہے کشمیر میں ہر تیسرا گھر کسی شہید کا ہے کوئی ایسا کشمیری نہیں جس نے کسی شہید کے جنازے کو کاندھا نہ دیا ہو سکتا ہے پہلے کشمیری بھارت سے بیزار ہوتا ہو لیکن اب کشمیری لوگ بھارت سے نفرت کرتا ہے ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ کچھ جذباتی ہو گیا اسکا سرخ و سپید چہرہ مزید سرخ ہو گیا میری مقبوضہ کشمیر کے اس نوجوان سے ملاقات اسلام آباد میں ہوئی،میں اسکا نام اسکی درخواست پر نہیں لکھ رہاکہ بلاخر اس نے وادی بھی جانا ہے اور اسکے لئے مشکلات ہو سکتی ہیں بس آپ اسے عبداللہ سمجھ لیں ،عبداللہ سے میری ملاقات ایک دوست کے توسط سے ہوئی تھی ،مدثر نے باتوں باتوں میں سری نگر سے آئے ہوئے ایک نوجوان کا ذکر کیاتھا جو یہاں پرمٹ پر کشمیریوں کو تقسیم کرنے والی خونیں لکیر عبورکرکے پہنچا تھالیکن وادی کے حالات کی وجہ سے اب یہاں پھنس کر رہ گیا ہے،میں نے اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اوررات کو اسلام آباد کے ایک قہوہ خانے پر اسے بلالیا،وہ بائیس تیئس برس کادرمیانی قدوقامت کا ایک سرخ و سپید نوجوان تھاجو یہاں اپنے رشتہ داروں سے ملنے آیا تھا کہ پیچھے مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا،عبداللہ اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان میں تھا لیکن مقبوضہ کشمیر اپنے گھر والوں کے حوالے سے بہت متفکر تھا اس نے بتایا کہ محرم کے بعد اسکی بہن کی شادی بھی ہے ،والد صاحب عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اوران کا بائی پاس بھی ہو چکا ہے ،وہ کہنے لگا ’’میں ان کے بارے میں بہت پریشان ہوں ان کی خیریت جاننا چاہتا ہوں لیکن رابطے کی کوئی صورت نہیں اور یہ بھی نہیں پتہ کہ میں کب اپنے گھرجاسکوںگا‘‘ میں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا’’سب ٹھیک ہوجائے گا فکر نہ کرو‘‘ جس پر اس نے بے پرواہی سے کہا’ ’ پرواہ نہیں ،ہم حالات کاعادی ہو چکے ہیں جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اس سے زیادہ برا کیا ہوگا،انسان کے لئے سب سے قیمتی چیز زندگی ہوتی ہے وہاں یہ زندگی داؤ پر لگی رہتی ہے پھر پیچھے کیا بچا آپ نے وڈیوز دیکھا ہوگا ،چھوٹے چھوٹے بچے سنگ باری کرتے ہیں کالج کی لڑکیاں بھی میدان میں آگئی ہیں ،انہیں کوئی خوف نہیں ، کوئی ڈر نہیں ‘‘ اس کی اس بات پر میں نے میز پر کہنیاں جمائیںاور اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا’’زندگی تو بہت قیمتی ہے ،ڈر تو لگنا چاہئے‘‘ اسکا جواب کسی فلاسفر کی طرح کاتھا’’آزادی سے کم قیمتی نہیں ،مجھے نہیں پتہ آپ سوشل میڈیاکتنا دیکھتے ہیں یا نہیں اگر نہیں دیکھتے تو یوٹیوب دیکھ لیا کریں، شہیدوں کے جنازوں کی وڈیوز آپ کے اس سوال کا سب سے اچھا جواب ہیں ‘‘اتنا کہہ کر وہ بتانے لگا’’ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک بیس سال کا نوجوان رہتا تھا وہ بہت سیدھا سادا سا تھا کسی جھگڑے میں نہیں پڑتا تھا لیکن ایک دن اسے بھی آرمی والے کریک ڈاؤن میں پکڑ کر لے گئے پھر تین مہینے بعد واپس آیا اس کے بعد اس نے مجاہدین سے رابطہ کیا اور انکے ساتھ مل گیا اس نے بندوق اٹھا لی،آرمی والے اسکے گھر آئے تو اسکی ماں نے ایسے سینے پر ہاتھ مار کر کہا جاؤ ہمت ہے تو اسکے پیچھے جنگل میں جاؤ وہ اب مجاہد ہوگیا ہے‘‘ ’’کیا کیا یہ بات خود اسکی ماں نے کہی ؟‘‘میرے لہجے میں حیرت نمایاں تھی۔۔۔ ’’جی سر!وہاںمجاہد بننے کا ایک ہی مطلب ہے شہادت اوریہ بات مجاہدین کو بھی پتہ ہوتی ہے اور اسکے گھر والوں کو بھی ،وہ اسکی شہادت کے لئے ذہن سے تیار ہوتے ہیں کہ یہ اطلاع کبھی بھی آسکتی ہے،اس کے گھر والے بھی ذہنی طور پر تیارتھے اور پھر ایک دن اسکی شہادت کی خبر بھی آگئی،ہاسکی ماں کی چھوٹی سی دکان تھی جس میں محلے کے بچوں کے لئے چھوٹی چھوٹی چیزیں رکھتی تھی اسے جب بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو وہ دکان میں گئی اور ٹافیوں کی تھیلی لے کر آگئی اور بیٹے کی شہادت کی خوشی میں ٹافیاںبانٹنے لگی وہ رو بھی رہی تھی اورکہے جا رہی تھی میرا بیٹا کامیاب ہو گیا ہے جنت والا ہو گیا ہے ‘‘عبداللہ یہ بتا رہا تھا اور میں بت بنا اسکی باتیں سن رہا تھاوہ کہنے لگا’’برہان وانی شہید کے بعد کالج یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے لڑکے کا جہادکی جانب زیادہ متوجہ ہوئے ہیں اور اب اس تحریک میں ایم اے ،ایم ایس سی ،پی ایچ ڈی ڈاکٹر اورانجینئر بھی شامل ہیں ‘‘ عبداللہ نے ایک عام کشمیری کی حیثیت سے جو کچھ دیکھ رکھا تھا وہ بتا رہا تھا مقبوضہ جنت کے شب و روز میں ہونے والے مظالم کی گواہی دے رہا تھاااسکا کہنا تھا کہ آزادی کی جوت اب بجھنے والی نہیں اب کشمیریوں کے سینوں میں جوالا مکھی کھول رہے ہیں میں نے تحریک حریت میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی شمولیت پرکچھ حیرت کا اظہار کیا تو وہ تحریک حرئت کے شہداء کے نام گن گن کر بتانے لگا’’برہان الدین گنائی شہیدفزیو تھراپسٹ ڈاکٹر تھا۔۔۔ہندواڑہ میں شہید ہونے والامنان وانی علی گڑھ یونیورسٹی سے جیالوجی میں پی ایچ ڈی تھا۔۔۔پلوامہ میں شہید ہونے والے شوکت احمدبٹ نے بی فارمیسی کیا ہواتھا۔۔۔ڈاکٹر محمد رفیق بٹ کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر تھے،شوپیاں میں شہید ہوئے۔۔۔نوگام میں شہید ہونے والا سبزار احمد صوفی پی ایچ ڈٖی ڈاکٹر تھا۔۔۔وہ کتنوں ہی کے نام لیتا چلا گیا اور جب وہ خاموش ہوا تو میں نے اسے کریدنے کے لئے پوچھا ’’لیکن کشمیری کبھی تو سوچتے ہوں گے کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟‘‘ ’’سر ہم تھک جاتے ہیں تو بھارت سے نفرت اور پاکستان سے محبت ہماری تھکن ختم کر دیتی ہے آپ اس نفرت کو نہیں جان سکتے جو آزادی سلب کرنے والوں سے ہوتی کیوں کہ آپ آزاد ہواورآپکو اس محبت کا بھی اندازہ نہیںجو کشمیریوں کے دلوں میں پاکستان کے لئے ہے ،سچی بات بتاؤں تو مجھے بھی اسکی وجہ نہیں پتہ شائد ہم بھارت سے نفرت کے ردعمل میں پاکستان سے محبت کرتے ہوں گے وجہ کوئی بھی ہو پاکستان سے محبت پر کوئی سوال نہیں ،آپ کو اندازہ نہیں کہ ہمارے گھروں میں پاکستانی پرچم رکھنے کا مطلب کیا ہے اس کے باوجود شہیدوں کے جنازے کیلئے پاکستان کا پرچم دستیاب ہوتے ہیں آپ نے وہ وڈیو کلپ دیکھا ہو گا فروری میں انڈین ائیر فورس کا جہازپاکستان ائیر فورس نے مارا اور وہ وادی میں آکر گراتھا؟‘‘ میں نے تائید میں سرہلایاتو عبداللہ نے پرجوش انداز میں کہنے لگا ’’آپ نے دیکھاہوگا کہ جہاز کے ملبے میں آگ لگا ہوئی ہے پائلٹ جل چکا ہے اور لوگ اس جہاز کے آس پاس کھڑے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیںجب میں نے انڈین جہاز گرنے کا خبر اپنے ناناکو جا کر بتایا تو انہوں نے مجھے خوشی میں پانچ سو روپے انعام دیاتھا‘‘۔ عبداللہ عام کشمیریوں کی ترجمانی کررہاتھا اور اسکا تمتماتا ہوا چہرہ اسکے دلی جذبات کی،جذبات کی یہ آگ بھارت کب سے بجھانے کی کوشش کر رہا ہے ،ترغیب و تحریص ،لالچ ’’روشن مستقبل‘‘ اور لاٹھیاں گالیاں گولیاں ۔۔۔کشمیریوں پر کون سا حربہ استعمال نہیں کیا گیا لیکن کشمیری باز نہیں آئے وہ آزادی سے کم اور پاکستان سے فاصلے پر کسی طور راضی نہیں کیوں کہ پاکستان ان کی ضد بن چکا ہے۔۔۔