بارش اور آندھی جب طوفان کی شکل اختیار کرلے تو وہ قدرت کی ان طاقت ور آفات میں شامل ہوجاتی ہیں جو چیزوں کو اِدھر سے اْدھر منتقل کرتی رہتی ہیں۔پانی حد سے بڑھ جائے تو سب کچھ غارت اور برباد کردیتا ہے۔ پانی مختلف تہیں کھولتا ہے اور زمینی خداؤں کو للکارتا ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات اِن دنوں پاکستان میں بھی ہیں۔ سیلابی ریلوں نے تو سب حدیں ہی مٹادیں۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ شناخت دشوار ہے کہ کہاں مکان تھے، کہاں کھیت تھے اور کہاں ڈھور ڈنگر تھے۔ ملک بھر میں حالیہ بارشوں نے تباہی و بربادی کی شکل اختیار کی تو عوام اس سے بچ نہیں سکے۔ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے سب سے زیادہ تباہی کے پی کے، سندھ اور بلوچستان میں مچائی۔ خصوصاً بلوچستان میں سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزررہے ہیں بستیوں کو اپنے ساتھ تنکوں کی طرح بہا لیے جارہے ہیں۔ صورت ِحال مزید تشویش ناک اس وقت ہوتی ہے جب تمام سیاسی و حکومتی انتظامیہ سوتی رہے۔ سیاست باز سیاست کرتے رہیں۔ متاثرین کی امداد کی بجائے فنڈز کو اقتدار کی ڈوبتی، ٹوٹی ناؤ اور پتوار کو بچانے پر خرچ ہوتے رہیں۔یوں بھی بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں سب سے کم فنڈز دیے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ وہاں کی آبادی بتائی جاتی ہے، رقبہ نہیں۔ گلگت بلتستان میں بھی گلیشیئرز پگھلنے سے متعدد سیاح متاثر ہوئے۔ وہاں پہ گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔ مقامی لوگ اور سیاح مختلف مقامات پر پھنس کر رہ گئے۔ برسات کی تباہ کاریاں ہنوز جاری ہیں۔ سب سے زیادہ نقصان بلوچستان میں ہوا ہے۔ یہی وقت بلوچستان اور وہاں کے عوام کو سینے سے لگانے کا ہے۔ تقریباًدوسو سے زائد قیمتی جانیں سیلابی ریلوں کی نظر ہوگئیں۔ نوشکی، لسبیلہ، خضدار، جعفرآباد، کوٹ مگسی، سبی، بولان، کچھی اور ڈیرہ بگٹی متاثر ہ علاقے ہیں۔ لسبیلہ میں لوگوں کی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ وہاں 75سڑکیں جو رابطے کا باعث تھیں ٹوٹ جانے کی وجہ سے کئی علاقوں میں لوگ ہفتے بھر سے سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ نوشکی میں لوگوں کے گھر ملیامیٹ ہوگئے۔ وائرل ہونے والی تصویروں اور ویڈیوزسے پتہ چلتاہے جیسے گھروں کی جگہ برساتی نالے ہوں ۔نجانے اس وقت ریاست اور حکومت کہاں ہے؟فلڈ کنٹرول ادارے بھی شاید نیند کی گولیاں کھا کر خواب ِخرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ سیاست کرنے کا اصل وقت تو یہی ہے۔ حکومتی ارکان کو چاہیے کہ وہاں کے متاثرین کی امداد کو ہر کام پہ فوقیت دی جائے۔ میری جعفرآباد کے ایک مقامی باشندے سے فون پہ بات ہوئی۔ اْس نے بتایا کہ اگر اس وقت پورے ملک کی فوج بھی بچانے کو آجائے تو وہاں حالیہ نقصان کو نہیں بچایا جاسکتا۔ ایک مہینہ ہونے کو آیا لیکن ابھی تک کوئی مدد کو نہیں پہنچا۔ وہاں کے روندے اور ٹھکرائے ہوئے لوگ حکومتی ارکان کو گالیاں دے رہے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے بلوچستان میں محکمہ موسمیات نام کی کوئی چیز سرے سے ہی نہیں۔ اب اس جہالت پہ کوئی کیا نوحہ پڑھے؟ بارشوں سے جمع شدہ سیلابی ریلوں کو اگر ایک جھیل کی شکل دے دی جائے تو پورے بلوچستان میں بجلی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ شاہ زین بگٹی نے بھی اپنی پوری زندگی لاہور اور امریکہ وغیرہ میں گزاری۔ اسے وہاں کے لوگوں کے دکھوں سے کیا لینا دینا۔ سنہری بچھڑے تو کسی صورت معجزے نہیں برپا کرسکتے۔ کراچی کو کوئٹہ سے ملانے والا پْل دو ہفتے سے ٹوٹا پڑا ہے۔ پورے بلوچستان میں کل تین بڑی سڑکیں ہیں۔کراچی سے کوئٹہ۔ جعفرآباد سے کوئٹہ۔ پشین سے لاہور۔ یہ سڑکیں بھی اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کہ سفر کٹھن ہے۔ اگر ان تین سٹرکوں کو بنا دیا جائے تو بلوچستان کے لوگ جی اْٹھیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انگریز کے دور میں بناہوا ریل گاڑی کا پْل جو جعفرآباد سے کوئٹہ تک جاتا ہے وہ آج تک نہیں ٹوٹا۔مگر اس کے بعد پاکستانی انجینئروں نے جو پْل بنائے وہ تمام ٹوٹ گئے۔ سلام ہے پاکستانی انجینئروں کو۔ بلوچستان کے درماندہ لوگوں کو فنڈز کی کمی کی وجہ سے نہتے ہاتھوں موت کا سامنا ہے ان دنوں۔اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کو سیاسی بھتہ خوروں سے چلایا جاتا ہے۔ سرمایہ دار اور حکومتی ارکان چاہتے ہیں کہ غریب عوام بس نیچے ہی دبے رہیں۔ سیلابی ریلوں میں تیرتی لاشیں بھی سیاست دانوں کے دلوں کو پگھلا نہیں سکیں۔ سابق وزیر اعظم جو طاقت میں آنے سے پہلے اپنے سینے میں ایک نرم دل رکھتے تھے۔ وہ ایک فیاض اور ہمدرد انسان کہلاتے تھے۔ بدقسمتی سے وہ بھی ابھی تک بلوچستان نہیں گئے۔ اْنھیں وہاں لوگوں کی دل جوئی اور مالی امدا د کے لیے ضرور جانا ہوگا۔ موجودہ وزیر اعظم بھی لگ بھگ 28دنوں کے بعد گئے۔ اخبارات میں تصویریں لگوا دیں، بیانات داغ دیے۔ اب دیکھیے کیا ہوگا۔ہماری بہادر پاک فوج نے لسبیلہ ضلع میں بلا تعطل فضائی آپریشن جاری رکھا۔یہاں تک کہ پاک آرمی کا ہیلی کاپٹر کو رکمانڈر کوئٹہ اور چھ افسروں سمیت لسبیلہ سے واپسی پہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ سیلابی ریلوں کے جمع ہوجانے کی وجہ سے پاک ایران ریلوے لائن بھی معطل ہے کہ طاقت ور پانی پٹڑیوں کو بہا لے گیا ہے۔ ابھی تو ہم صرف بلوچستان کا نوحہ پڑھ رہے ہیں۔ حالیہ برسات اور سیلاب سے سندھ اور کراچی میں بھی ناقابلِ تلافی نقصانات ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں مجموعی طور پر سینکڑوں گھرانے تباہ ہوگئے۔ بستیاں صفحہء ہستی سے مٹ گئیں۔ بچی کچھی سڑکیں تباہ ہوگئیں۔ آخر میں تڑپتے دل سے نکلتے چند مصرعے پیشِ خدمت ہیں۔ اے محبوب لاشو! تم جو پانی پہ تیرتی ہو کبھی میرے قبیلے کی اْمید تھے دیکھو اپنے منجمد ہاتھوں سے ماں کے دل کو چھْوؤ تو جانو وہاں اب دل کی جگہ جلتے انگارے رکھے ہیں