اگلے وقتوں میں نصیحت کا طریقہ ایسا اختیار کیا جاتا تھا، جو دل کَش بھی ہوتا اور دل نشین بھی! کم لوگ واقف ہوں گے کہ ڈپٹی نذیر احمد نے مِراۃ العروس اپنی بیٹی کے لیے لکھی تھی۔ اتفاقاً صاحب بہادر کی اس پر نظر پڑ گئی اور پھر "اکبری اور اصغری" کی یہ سبق آموز کہانی، عوام تک بھی پہنچ گئی۔ پرانے اساتذہ عبرت آموزی کا یہی انداز اختیار کیا کرتے تھے۔ حکایتوں اور کہانیوں کے ذریعے، پند و نصائح، لوگوں کے گھٹ میں اتار دیے جاتے! کلیلہ و دمنہ سے لے کر ٹوٹ بٹوٹ تک، ہزاروں کتابیں اسی موضوع پر لکھی گئی ہوںگی۔ لیکن ان سب میں، ہر اعتبار سے بہترین کتاب، شیخ سعدی کی گلستان ہے۔ زبان نہایت سہل، اسلوب میں بلا کی کشش، حکایتیں عبرت اور موعظت کا خزینہ! گویا ع روشن اندر، روشن اندر روشنیست! انسان کی لکھی ہوئی بیشتر کتابوں میں، رطب و یابس، دونوں پائے جاتے ہیں۔ لیکن اپنے محدود علم کی حد تک، یہ خاکسار کِہہ سکتا ہے کہ فارسی ہی نہیں، اردو اور انگریزی کا پورا لٹریچر، ایسی ایک بھی کتاب، پیش کرنے سے قاصر ہے! گلستان میں شیخ نے کہا ہے کہ ع جہان دیدہ، بسیار گوید دروغ یعنی، جہاں گرد یا دنیا کو زیادہ دیکھ لینے والا، اکثر جھوٹ بھی زیادہ بولتا ہے! اس کی دو وجہیں، بالکل سامنے کی ہیں۔ دنیا میں زیادہ سرگرداں، وہی ہوتے ہیں، جنہیں اس کی طلب اور للک دوسروں سے زیادہ ہوتی ہے! دنیا کو دارالغرور یعنی "دھوکے کی جگہ" بھی کہا گیا ہے۔ سو دوسری وجہ یہ ہے کہ اکثر یہاں وہی "کامیاب" ہوتے ہیں، جن کے پاس فریب دہی اور دروغ گوئی کی پونجی، وافر مقدار میں ہوتی ہے! یوں اقبال کے "سادہ دل بندوں" کی آزمائش اور امتحان، اَور کڑے ہو جاتے ہیں! ہمارے شاعر کی شکایت بے جا نہیں ہے کہ دین سے اتنا الگ، حد ِفنا سے یوں قریب اس قدر دلچسپ، پھِر کیوں رنگ ِدنیا کر دیا! رنگ ِدنیا کی اسی دلچسپی اور کشش سے، انسان کی ٹریجڈی کا آغاز ہوتا ہے! چند روز پہلے ایک کالم، پروپیگنڈے پر لکھا گیا تھا۔ اس چیز کی ابتدا مبالغے سے ہوتی ہے اور انتہا صریح دروغ گوئی پر! ناظرین سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس میدان میں، جو جھنڈے امریکنوں نے گاڑے ہیں، ان کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ حالیہ واقعات کو تِہ کر کے، ذرا اْلٹے قدموں چلیے اور دیکھیے کہ امریکن صدور کے "کریڈٹ" پر، کیا کچھ موجود ہے! بہت پرانی بات نہیں ہے جب دنیا کے ایک تہائی ممالک میں، امریکہ کے فوجی اڈے قائم تھے۔ اس وقت بھی، چالیس سے زیادہ مْلک، ان کے قدوم ِمیمنت لزوم سے مشرف ہیں! دنیا کے آدھے نقشے پر، کسی نہ کسی شکل میں، امریکن آج بھی موجود ہیں۔ جنوبی امریکہ سے لے کر وسطی ایشیا اور افریقہ سے لے کر آسٹریلیا تک، "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کی جدید اور امریکن تفسیر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ دونوں عالمی جنگوں میں، امریکہ کی آمد سے پانسہ پلٹ گیا تھا۔ مگر ان جنگوں میں امریکہ شریک کیسے ہوا، یہ قصہ اپنے اندر ایک حشرسامانی رکھتا ہے! پہلی جنگ ِعظیم میں گویا ایک دنیا الجھی ہوئی تھی مگر امریکن شہری خدا کا شکر ادا کرتے تھے کہ وہ اس ابتلا سے بچے ہوئے ہیں۔ کارکنان ِقضا و قدر نے جانچ لیا کہ عام شہری کسی عنوان اس پرائے پھٹے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ سو قربانی کا بکرا ایک ایسا بحری جہاز بنا، جس میں سو سے زیادہ امریکن شہری سوار تھے! دوسری جنگ ِعظیم میں جنوبی سرحد سے، ہزاروں میل دور، ایک بحری بیڑہ پرل ہاربر بھیج دیا گیا۔ یہ جاپان کو حملے کی، باقاعدہ دعوت دینے کے برابر تھا! نیوی کے ایڈمرل چیخ اٹھے کہ یہ کیا حماقت ہے؟ لیکن امریکن صدر فرینکلن روزویلٹ نے ساری تنبیہیں اور احتجاج نظرانداز کر دیے۔ نتیجہ یہاں بھی خاطر خواہ نکلا۔ جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کر دیا اور امریکہ جنگ ِعظیم دوم میں بھی کْود پڑا! اور جنوبی امریکہ میں منشیات کی عالمی تجارت؟ سب جانتے ہیں کہ اسے کِس کی سرپرستی حاصل رہی۔ آج بھی ٹرمپ، اسٹیبلشمینٹ کے لیے، اگر بلائے بے درماں نہ بنے ہوتے تو شاید طالبان سے مذاکرات کا معاملہ آگے نہ بڑھتا۔ ایک عالَم کو تاراج کر دینے والی امریکن اسٹیبلشمینٹ پر، ٹرمپ اور طالبان کی شکل میں سخت کڑی آئی ہوئی ہے۔ خیر، واپس چلتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔ بر ِصغیر میں پراپیگنڈے کی اہمیت کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ گاندھی جی نے سمجھ لیا تھا۔ پھر ان کا ہر قدم اٹھا ہی اسی نیت سے اور اسی غرض سے! آج حیرت ہوتی ہے کہ کتنی سہولت سے، خالص مسلمانوں کی خلافت تحریک کو، ایک کٹر ہندو نیتا نے ہائی جیک کر لیا! تو گدھی کمہار کی، تجھے رام سے کیا کام؟ لیکن اس مرحلے سے بھی گزرنا، شاید آخری منزل تک پہنچنے کے لیے ضروری تھا۔ گاندھی جی نے جان لیا تھا کہ عہدے عارضی ہوتے ہیں اور تکیہ صرف عوام کی تائید اور طاقت پر کرنا چاہیے۔ یہی دوربینی تھی کہ کانگرس کی صدارت، انہوں نے صرف ایک دفعہ قبول کی۔ پیچھے بیٹھ کر، کبھی مولانا ابوالکلام آزاد کو آگے بڑھاتے رہے اور کہیں جواہر لال نہرو کو ہشکاتے رہے! نتیجہ یہ کہ سارا نزلہ انہی دونوں سمیت، مخلص کارکنوں پر گرتا رہا۔ مہاتما پر کبھی آنچ نہیں آئی۔ عوام میں پذیرائی کے لیے، وہ طرح طرح کی شعبدہ بازیاں کرتے رہے۔ آج چرخے کی کتائی ہو رہی ہے، کل نمک مارچ ہو رہا ہے! اچھوتوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے، ان کی بستی میں قیام فرما رہے ہیں۔ "ینگ انڈیا" میں، "پبلک کی ڈیمانڈ" پر، پہلے انہیں لتاڑتے ہیں اور پھر ہریجن کا خطاب دیتے ہیں۔ اچھوتوں کے لیڈر بابا امبیڈکر واقعی بڑے آدمی تھے۔ وہ ساری زندگی گاندھی جی کو فراڈ قرار دیتے رہے۔ اندولال یاجنک، گاندھی جی کے ہم وطن گجراتی اور پکے کانگرسی تھے۔ ان کی کتاب "گاندھی ایز آئی نو ہِم" کا ترجمہ مولانا ظفر احمد انصاری نے "پیر ِصابر متی" کے عنوان سے کیا ہے۔ اس ترجمے کو برادرم راشد اشرف نے دوبارہ چھاپا ہے۔ مہاتما کی زندگی میں چھَپنے والی اس کتاب میں بھی ان کو جھوٹا اور پاکھنڈی قرار دیا گیا ہے۔