دنیا کے کسی بھی معاشرے میں تحریر یا زبان و کلام میں اس طرح کے محاورے عام مل جائیں گے جس میں آنے والے وقت سے خبردار کیا گیا ہو ،پھر یہ بتایا گیا ہوکہ دیکھو فلاں معاملے کا رد عمل ایسا ہوگا۔ انسانی تہذیب میں جنگوں کی اخلاقیات میں بھی چھپ کر وار کرنا یا شب خون مارنا انتہائی برا سمجھا جاتا رہا ہے، بلکہ اس طرح کے دشمنوں کو بزدل اور کمینہ کہا جاتا رہا ہے۔ چین میں بھی اسی طرح کا محاورہ پایا جاتا ہے۔ "وو وی یان ڑی بویو" جس کا مطلب ہے "یہ مت کہو کہ ہم نے خبردار نہیں کیا تھا"۔ انگریزی میں اسکا متبادل "don't say we didn't warn" ہے اور اس محاورے پر بے شمار شاعری لکھی اور گائی گئی ہے۔ لیکن گذشتہ کئی دنوں سے یہ محاورہ چینی انگریزی اخبارات میں ایک ہیڈ لائن بنا ہوا ہے۔ چین کی قیادت نے خلیج فارس میں امریکی بحری بیڑوں کی آمد کو اپنے لیے ایک خطرے کے طور پر لیتے ہوئے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ دیکھو اگر تم آگے بڑھو گے تو ہم بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔تم ہمارے جواب دینے کی اہلیت کو کم مت سمجھنا۔ حیرت ہے امریکی بحری بیڑے خلیج فارس میں گھوم رہے ہیں، ڈرایا اور دھمکایا ایران کو جا رہا ہے لیکن رد عمل کا اظہار چین کر رہا ہے۔ چین اس معاملے میں اسوقت سے خود کو تیار کر رہا ہے ،جب 2008ء میں عالمی مالیاتی نظام کی کشتی بھنور میں پھنس گئی تھی اور وال سٹریٹ کے تجارتی ہیڈکوارٹر کو بچانے کے لیے امریکی حکومت سے سات سو ارب ڈالر کے ریلیف کی طلب کی گئی تھی۔ ایسے میں رینڈ کارپوریشن کو اس بحران سے نکلنے کے لیے تجاویز مرتب کرنے کو کہا گیا۔ تقریبا ایک سال بعد اسکی رپورٹ آئی۔ یہ واحد رپورٹ تھی جس پر چین نے احتجاج کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق یہ کہا گیا تھا کہ امریکی معیشت کو کوئی ریلیف پیکج نہیں بچا سکتا، اسے صرف دو بڑی جنگیں بچا سکتی ہیں، تاکہ امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اسلحہ بیچ کر راتوں رات خود بھی مضبوط ہو جائے اور امریکی معیشت کو بھی سنبھالا دے سکے۔ رپورٹ میں میدان جنگ کیلئے تین مضبوط معیشتوں یعنی "پلی ہوئی گائیوں" کی نشاندہی کی گئی تھی۔ چین، بھارت اور روس۔ اس رپورٹ پر امریکی حکومت نے اس دن کے بعد سے کام شروع کردیا تھا۔ بھارت میں کارپوریٹ سرمائے سے شدت پسند ہندو کارڈ کھیلا گیا، چین کے صوبے سنکیانگ کے مسلمانوں کی حالت زار پر دنیا بھر میں شور مچایا گیا اور روس کے تاتارستان اور چیچنیا کے معاملے کو تھپکیاں دی گئیں، لیکن مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے آتے آتے چین کی معیشت روس کی معیشت کے ساتھ مل کر آنے والے دنوں کا ایسا نقشہ پیش کرنے لگی جس میں محسوس ہونے لگا کہ موجودہ مغربی مالیاتی نظام براعظم شمالی امریکہ تک سمٹ کر رہ جائے گا اور افریقہ، ایشیا اور یورپ کے بیشتر ممالک ایک نئے جنم لینے والے روس اور چین کے معاشی گروہ کے ارد گرد اکٹھے ہو جائیں گے، اور انکی ٹیکنالوجی، معدنیات، مصنوعات، زمینی و فلکیاتی رابطہ نظام سب کے سب امریکہ سے مختلف ہو جائیں گے۔ یہی وہ بڑھتا ہوا خطرہ ہے جسکے خلاف آج سے سولہ ماہ قبل امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے امریکی افواج کو بالکل نیا ہدف دیتے ہوئے کہا تھا کہ "دہشت گردی کے خلاف جنگ ،اب ہماری ترجیح نہیں ہے ، ہمیں اس دنیا میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا ہے"۔ ایسے میں ظاہر بات ہے چین کے ساتھ براہ راست جنگ کا اعلان کرنا حکمت عملی کے برعکس تھا، اس لئے آج کی جدید جنگوں کی طرح اسکی معیشت پر حملہ کیا گیا اور اسکی مصنوعات پر اتنے ٹیکس لگا دیے کہ وہ عالمی منڈی میں مہنگی ہوتی گئیں۔ دوسری جانب جنگ کا اعلان تو ایران سے کیا گیا لیکن حکمت عملی کے طور پر پاکستان کا ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے ذریعے گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی۔ اور ایسے تمام اقدامات اس لئے کیے گئے کہ سی پیک کا راستہ روکا جا سکے اور چین کو محصور کیا جائے۔ پاکستان میں چاروں جانب سے ایک کشمکش کو ہوا دی گئی اور ملک کو بے یقینی کی جانب گھسیٹا گیا۔ بظاہر لگتا تھا کہ یہ جنگ اگر ہوئی بھی تو اسکا دائرہ پاک بھارت یا پھر خلیج میں عرب ایران جنگ تک محدود ہوگا اور اگر ایسا ہو گیا تب بھی چین کو محدود کرنے کے مقاصد پورے ہو جائیں گے۔ علاقے پر جنگ کے بادل چھائے ہوں، بارود برس رہا ہو تو ایسے میں تجارت کی باتیں خواب ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ادھر امریکی بحری بیڑوں نے خلیج کا رخ کیا اور ادھر خطرہ بھانپتے ہوئے، چینی صدر اپنی قیادت کو لے کر زبانگ زی کے اس مقام پر ایک بار پھر عہد جدید کرنے جا پہنچا جہاں سے 16 اکتوبر 1934 کو ماؤزے تنگ نے لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا۔ چین کے تمام ٹیلی ویژن چینل کوریا کی جنگ کی فلمیں پورے ملک میں دکھانے لگے اور میڈیا پر آج بھی یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک جنگی ماحول چھا گیا ہو۔ جنگی تیاریوں کے ساتھ ساتھ چین نے اس ہتھیار کو استعمال کرنا شروع کیا جو گزشتہ 50 سالوں سے امریکہ اور اسکی حلیف طاقتیں کرتی چلی آرہی ہیں، یعنی "معاشی ناکہ بندی "اور ملکوں کو قرضوں میں جکڑنا۔ جہاں تک قرضوں میں جکڑنے کا سوال ہے تو چند ماہ قبل امریکی نائب صدر نے کہا تھا کہ چین اپنے زیرِ اثر ممالک کو قرضوں کے جال "Debt Trap" میں پھنسا رہا ہے۔ لیکن 29 مئی 2019 کو چین کے تمام اخبارات نے بڑی ہیڈ لائن لگائیں جنکا عنوان تھا کہ "پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی"۔ اسکے تحت چین نے اعلان کیا کہ ہم ان تمام ایسی دھاتوں کو چین سے باہر امریکہ کو بھیجنے پر پابندی لگا رہے ہیں جن پر دنیا کی تمام جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد ہے۔ انہیں Rare Earth منزلز کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دھاتیں ہیں جنکے بغیر جہاز کے پرزے بیکار، تمام موبائل اورکمپیوٹروغیرہ ناکارہ اور کمپیوٹر سسٹم سے چلنے والے ہتھیار ردّی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ معدنیات 80 فیصد چین میں ملتی ہبں، 6 فیصد ایسٹونیا، 3 فیصد فرانس، تین فیصد جاپان اور باقی پوری دنیا میں 8 فیصد ہوتی ہے۔ گویا اگر چین ان پر پابندی لگا دے تو پوری دنیا کا جدید ٹیکنالوجی پر مبنی زمینی اور سیٹلائٹ سسٹم جامد ہو کر رہ جائے۔ چین ایسا پہلے بھی دو دفعہ کر چکا ہے۔ پہلی دفعہ 1962 میں جب بھارت چین لڑائی ہوئی تو مغرب بھارت کے ساتھ ،لیکن پابندی کے بعد پیچھے ہٹ گیا اور دوسری دفعہ جب 1979 میں چین نے ایسا کیا تو ویتنام جنگ تھم گئی۔ لیکن اسکے علاوہ چین کے پاس دو اور معاشی ہتھیار ہیں جنکا استعمال جنگ کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ امریکہ کی 500 کمپنیوں کی چودہ فیصد تجارت چین کے ساتھ ہے۔ ایکدم پابندی ان کمپنیوں کو دیوالیہ کر سکتی ہے۔ دوسرا ہتھیار یہ ہے کہ چین نے 2008ء کے معاشی بحران میں امریکہ کے ایک ہزار ارب ڈالر کے ٹریژری بانڈز خریدے تھے تاکہ امریکی معیشت سنبھل جائے۔انکی واپسی کا مطالبہ امریکہ کے لئے ایسی معاشی بحرانی کیفیت پیدا کر دے گا کہ وال سٹریٹ مکمل طور پر بیٹھ جائیگی۔ ان معاشی اقدامات کے بعد اگر امریکہ خلیج میں جنگ چھیڑتا ہے تو یورپ کا تیل رک جائے گا اور امریکی اتحادی ایک ایسی جنگ میں الجھ جائیں گے جس میں کودنا تو آسان ہے نکلنا مشکل۔ ایسے میں مودی کے ذریعے پاکستان پر حملے کے خواب دیکھے جا رہے ہیں تاکہ اس طرح خطے کو جنگ میں جھونکا جائے۔ لیکن جب بھی ان عالمی حالات کی نئی سے نئی صورتحال کا مشاہدہ کرتا ہوں تو مخبر صادق رسول اکرم ﷺکی پیشین گوئیاں روشنی دیتی ہیں، ڈھارس بندھاتی ہیں،آپ ﷺنے فرمایا: سندھ (موجودہ پاکستان) کی خرابی ہند (موجودہ بھارت) سے اور ہند کی خرابی چین سے(قرطبی )۔ چین تو امریکہ سے کہہ رہا ہے کہ خبردار ! لیکن ہمیں احساس نہیں کہ ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جو بشارتوں کا دور ہے۔ دین کے غلبے کا دور ہے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔