دْور کی کوڑیاں لانا، کوئی ہمارے شاعروں سے سیکھے۔ شب ِغم اور وہ بھی اندھیری۔ اس مضمون میں جدت، یوں پیدا کی گئی۔ کیوں اندھیری ہے شب ِغم ہے بلائوں کا نزول آج اْدھر کو ہی رہے گا دیدہ اختر کھْلا؟ جہاں دِل کا دخل نہیں ہو گا، دماغ یونہی ٹامک ٹوئیاں مارا کرے گا۔ آپ بیتی نہ ہو، آنکھوں دیکھی بھی نہ ہو، مگر کچھ تو دل پہ گزری ہوئی ہو! شیخ سعدی نے، خدا جانے، کیا دیکھا اور کیا سہا، جو کہا۔ چنان قحط سالے شْد اندر دمشق کہ یاراں فراموش کردند عشق مصیبتیں آئی ہیں اور آتی رہیں گی مگر وہ کیسی ابتلا ہو گی، جس میں عشق و عاشقی بھی محو ہو کر رہ گئیں۔ سچ ہے کہ ایسے مضمون اْترتے ہیں، اِلقا ہوتے ہیں۔ لیکن دماغ تک پہنچتے ہیں، دل سے ہو کر! "یاراں" کا لفظ، بتائے دے رہا ہے کہ یہ آپ بیتی ہے۔ بلا شبہ، فارسی زبان اس شعر پر، سدا فخر کر سکتی ہے۔ طربیوں سے زیادہ، انسان رزمیوں اور اس سے بھی زیادہ المیوں میں کشش پاتا ہے۔ شاید انسان کے خمیر میں، ٹریجڈی سے مناسبت، گوندھ دی گئی ہے۔ ہر ذی روح کی زندگی کا خاتمہ، موت پر ہوتا ہے۔ شاید اسی المیے نے، ایسے قصوں میں بلا کی جاذبیت بھر دی ہے۔ قیس باقی ہے نہ وہ صاحب ِمحمِل باقی ہے اک افسانہ دیوانگی ِدِل باقی وینزویلا کی بھی ٹریجڈی، جلد ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ چند ہفتے پہلے، امریکن صدر کے سکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن، ایک نوٹ پیڈ لیے گھوم رہے تھے، جس پر "کولمبیا میں پانچ ہزار فوجی کی تعیناتی" لکھا ہوا تھا۔ امریکی میڈیا میں غیر جانبدار صحافی، آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ یہ برملا جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس سے پتا چلتا ہے کہ اب وینزویلا کا تیل نکالا جائے گا! تازہ خبر ہے کہ یہ مْلک، دوبارہ تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔ امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ البتہ گھی کے چراغ جلا رہے ہیں۔ ان پر، پچھلے ڈھائی سال سے، روس کے ساتھ گٹھ جوڑ کے جو الزامات لگے ہوئے تھے، بڑی حد تک کمزور پڑ گئے ہیں۔ تفتیشی افسر نے، انہیں بری تو قرار نہیں دیا، مگر یہ کِہہ کر ان کی تقریبا گلو خلاصی کر دی ہے کہ واضح ثبوت نہیں مِل سکے۔ ایسی ہی دْبدھا سے، اسرائیلی وزیر ِاعظم بینجامن نتن یاہو بھی گزر رہے ہیں۔ ایک کیس، ان کے خلاف کھْلا ہوا ہے۔ نریندر مودی کی طرح، نتن یاہو بھی اگلے مہینے الیکشنز سے گزر رہے ہیں۔ مودی کی مثال ان کے سامنے تھی۔ بھارتی فوج کی پاکستان سے پٹائی کرا کے بھی، مودی نے اپنے ووٹ بڑھا لیے ہیں۔ نتن یاہو کے امریکا پہنچتے ہی غزہ کے علاقے سے راکٹ کے حملے کی خبر چلنے لگی۔ اپنے دورہ امریکہ کو مختصر کرتے ہوئے، اب یہ واپس تشریف لے جاتے ہیں۔ یہ نہ پوچھیے کہ تازہ حملہ، انتخابات سے صرف چند روز پہلے کیوں کیا گیا۔ اور یہ تو بالکل نہ پوچھیے کہ دنیا کا بہترین دفاعی انتظام رکھنے کے باوجود، راکٹ اسرائیلی آبادی تک پہنچ کیسے گیا! نتن یاہو کی خوشی کا کیا ٹھکانا؟ اسرائیل پر راکٹ کا حملہ ہو گیا اور امریکن صدر نے انہیں، گولان کی پہاڑیاں "تحفہ" میں پیش کر دیں۔ انتخابات سے دو ہفتے پہلے، ان کے دونوں ہی میٹھے ہو گئے۔ انتخابی چہل پہل، امریکا میں بھی ہے۔ سو دو ہزار بیس کے صدارتی انتخاب کی تیاری، شروع کر دی گئی ہے۔ ٹرمپ کے مقابلے میں، جو امیدوار ڈیموکریٹس کی جماعت سامنے لا رہی ہے، ان میں اکثر نامعقول، دو تین نیم معقول اور صرف ایک معقول ہے۔ موخر الذکر برنی سینڈرز، ایماندار اور کھرے آدمی ہیں۔ یہ دو ہزار سولہ میں بھی کوشاں تھے کہ ڈیموکریٹس کے امیدوار منتخب ہو جائیں۔ لیکن ہلری کلنٹن کی خاطر، انہیں دھاندلی کر کے ہروا دیا گیا۔ سیاست کے میدان میں،سارے نظریات اتفاق کرنے کے لائق، کِس کے ہوئے ہیں؟ مگر یہ کیا کم ہے کہ برنی سینڈرز یہودی النسل ہونے کے باوجود، فلسطین کے لیے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ عراق پر حملہ کرنے کے، یہ سخت خلاف تھے۔ ان کے بیشتر ساتھیوں کے کھیسے، یوں تو زیادہ بھرے ہوئے ہیں، اس طرح کے اعمال سے، البتہ خالی ہیں! اب ہو گا یہ کہ برنی کے خلاف دوبارہ کوئی ہلری کلنٹن کھڑی کی جائے گی اور وہ ان سے جیت بھی جائے گی۔ امریکا میں ایسے لوگوں کا مقدر، لوگوں کی تحسین و عقیدت تو ہو سکتی ہے، صدارت وغیرہ ہرگز نہیں۔ شعر و حکمت کی ہزار کتابیں، اس ایک مصرع پر قربان ع خوب ہوتی، تو دنیا کیوں ہوتی؟ ٭٭٭٭٭ کراچی کی بس کا سفر جوش صاحب سے کسی نے پوچھا کہ اولاد نالائق نکلے تو اسے ناخلف کہا جاتا ہے، نالائق والدین کو کیا کہیے گا؟ جوش صاحب نے ترنت کہا "نا سَلَف"! ایک نوجوان سیاستدان کو بھی، کچھ ایسی ہی صورت ِحال کا سامنا ہے۔ اس کی راہ میں، سب سے بڑی رکاوٹ، اس کے اپنے بزرگوار بنے ہوئے ہیں۔ دنیا نے ایسے منظر تو بہت دیکھے ہوں گے، جہاں اولاد کی کرنی کا پھل، ماں باپ کو مِلا۔ لیکن باپ کی زد میں بیٹے کا آ جانا، اور روند میں یوں کْچلے جانا، عبرت ناک ہے! اولاد نالائق ہو یا پسند کی نہ نکلے تو والدین، عاق کر کے، لاتعلق ہو سکتے ہیں۔ قانون لاتعلقی کا حق، اگر اولاد کو بھی دیتا ہے تو استعمال، اس سے زیادہ برمحل، کیا ہو گا؟ اپنے جلتے ہوے پَیروں کو بچانے کے لیے، اولاد پر کھڑے ہو جانا، افسوس ناک ہے! حد یہ ہے کہ نوجوان کو ان طاقتوں سے بھِڑایا جا رہا ہے، جنہیں للکار کر، خود والد صاحب چمپت ہو گئے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اداروں میں ساری خرابیاں، اقتدار سے باہر آ کر ہی کیوں نظر آتی ہیں؟ دوسری طرف حکومت موجود ہو کر بھی، کَم کَم نظر آ رہی ہے۔ وزیر ِاعلیٰ کو "وسیم اکرم" ثابت کرتے کرتے، خود وزیر ِاعظم کا "عمران خان" ہونا، معرض ِسوال میں آتا جا رہا ہے! پہلا "احسان"، جو تیسری دنیا کی کوئی بھی حکومت عوام پر کر سکتی ہے، وہ بدعنوانی نہ کرنے کا ہے۔ سو، یہ بات خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت بدعنوان نہیں ہے۔ اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ کام ہوتے ہوئے فوراً نظر بھی آنے چاہئیں۔ اس لیے کہ پچھلی حکومتیں، جلوے زیادہ دکھاتی تھیں، کام کم کرتی تھیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ سفر صحیح سمت میں ہونا چاہیے۔ نیت نیک سہی اور سمت بھی درست۔ لیکن یاد رہے کہ سات آٹھ مہینے گزر چْکے ہیں۔ فی الحال، یہ لگ رہا ہے کہ گاڑی رکی ہوئی ہے اور کاروبار ٹھپ ہیں اور بقول ِضمیر جعفری نہیں ہو رہا ہے، مگر ہو رہا ہے کراچی کی بَس میں، سفر ہو رہا ہے