نئے گھر میں ہمارا سابقہ پہلے ان کاکروچوں سے پڑا جو کمروں اور باتھ روموں میں نہایت دیدہ دلیری سے ادھر ادھر بھاگتے پھر رہے تھے۔ چونکہ میں بقائے باہمی کے سنہری اصول پہ یقین رکھتا ہوں اور ہر جاندار کو جینے کا حق دینے کا دل سے قائل ہوں اس لیے میں نے ان کاکروچوں کی سرگرمی کا ذرا نوٹس نہ لیا۔ لیکن میری بیوی حقیقت پسند واقع ہوئی ہے اس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مالک مکان نے ایک خطیر کرائے کے عوض مکان پر رہنے کا حق صرف ہمیں منتقل کیا ہے اس لیے اس میں شراکت داری کا حق کسی اور کو نہیں۔ میں نے لاکھ اسے قائل کرنا چاہا ٹھنڈے دل سے سمجھایا کہ کاکروچوں سے برابری کرنا مناسب نہیں۔ ان کی دشمنی مول لینا بھی اچھا نہیں۔ فرش پہ دوڑتے ہی تو پھرتے ہیں‘ ہمارا کیا لیتے ہیں مگر وہ بیوی ہی کیا جو قائل ہو جائے۔ تنگ آ کر میں نے کاکروچوں کو ان کے حال پہ چھوڑ دیا۔ قیاس تھا میرا کہ چند دنوں میں کاکروچوں کا صفایا میری سنگ دل بیوی کے ہاتھوں بآسانی ہو جائے گا۔ اس لیے کہ پچھلے مکان میں بھی وہ اس قسم کے کئی کارنامے انجام دے چکی تھی۔ برتن رکھنے والی ایک الماری کو اس نے ملازم کے ذریعے نیچے لان میں بڑی بے دردی سے پھینکوا دیا تھا اوپر ریلنگ سے یہ منظر میں دیکھ رہا تھا اور آج تک نہیں بھولا کہ بلا مبالغہ درجنوں نہیں سینکڑوں کاکروچ چلچلاتی دھوپ سے بلبلا کر لکڑی کی الماری کے سوراخوں سے نکلے اور چکر پہ چکر کھانے لگے۔ تب بیوی کے ہونٹوں پہ فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ اور میں پرامن بقائے باہمی کے سنہری اصول پر یقین رکھنے کے باوجود شکر بجا لاتا رہا تھا کہ میں حسن اتفاق سے انسان کے جون میں خلق ہو گیا ورنہ کیا حشر ہوتا۔ ہاں میں اس طرح بھی سوچتا ہوں مسئلے کو اگر درپیش ہو تو فریق ثانی کے نقطہ نظر سے بھی سوچ کر دیکھ لیتا ہوں‘ مبادا فیصلہ کرتے ہوئے راہ حق سے بھٹک نہ جائوں اور اس وقت تو یہ معاملہ اور ضروری ہو جاتا ہے جب فریق ثانی کوئی جاندار ہو‘ خواہ چھپکلی‘ کاکروچ اور کیڑے مکوڑے سہی۔ جن کا صفایا کرتے ہوئے میری بیوی میری رحم کی پر زور اپیل کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ اس کا خیال ہے کہ صفائی ستھرائی سے میری ابدی دشمنی ہی حشرات الارض سے میری دوستی کی اصلی وجہ ہے۔ ورنہ کاکروچوں اور چھپکلیوں پہ کس ذی عقل کو رحم آ سکتا ہے۔ ان سے ہمدردی کے معنی اور کیا ہو سکتے ہیں؟ اتفاق سے میری بیوی ہندوئوں کے عقیدے آواگون کی بابت کچھ زیادہ معلومات نہیں رکھتی اور یہ میرے حق میں اچھا ہی ہے ورنہ میرے پچھلے جنم کی بابت جانے وہ کیا گمان کرتی۔ سچ پوچھیے تو میں بھی کبھی اس کا تجزیہ نہیں کر سکتا کہ حشرات الارض کی زندگی‘ انہیں جینے کا حق دینے یہاں تک کہ کچن اور کمروں کے کونے کھدروں میں انہیں گھسے رہنے اور وارڈ روب اور واش روم کی نالیوں میں ان مخلوقات مثلاً چوہے‘ کاکروچ‘ چیونٹیاں اور دیگر الا بلا کو پاکر بھی کیوں مجھے تشویش نہیں ہوتی‘ گھن وغیرہ کھانا تو درکنار‘ مجھے تو اطمینان سا ہوتا ہے کہ انسان ہو کر بھی میں کس درجے بے ضرر ہوں۔ جب ان ادنیٰ درجے کی مخلوقات سے میرا معاملہ ایسی رواداری کا ہے تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ اپنے ہم جنسوں کے لیے میں کتنی گنجائشیں اپنے اندر رکھتا ہوں گا۔ بات اب چل نکلی ہے تو کسی جذبہ تعلّی کے بغیر اتنا عرض کر دینے میں مضائقہ بھی نہیں کہ اپنی فطرت میں یہ ناچیز انسان دوست ہے۔ اس کی انسان دوستی پر اہل مغرب کی انسان دوستی کا ہرگز قیاس نہ کیجیے۔ کیوں کہ اہل مغرب تو انسان کو پوجتے ہیں‘ خدا کو اس کے بلند مقام سے بے دخل کر کے انہوں نے خدا کی جگہ انسان کو بٹھا دیا ہے۔ گویا انسان ہی خدا ہے۔ ہر چند کہ وہ یہ بات زبان سے نہیں کہتے مگر ان کے جملہ معاملات اور امور ریاست میں یہی حقیقت مترشح نظر آتی ہے چونکہ ان سنجیدہ مسائل پہ میں وہاں بیٹھ کر سوچنے کا عادی ہوں۔ جہاں پہنچ کے انسان کی طاقت اور غیر معمولی ذہانت کا بھرم زور لگاتے ہی کھل جاتا ہے اس لیے معلوم ہے مجھے کہ انسان تمام مخلوقات سے اشرف و افضل ہو کر بھی اپنی حاجتوں کے آگے کتنا بے بس اور مجبور ہے۔ تو ذرا سوچیے ایسے انسان کی پرستش مجھے زیب دیتی ہے؟ انسان کو محترم جاننے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر وہ جامہ‘ انسانیت میں خود کو مطمئن پائے۔ مشکل تو یہی ہے کہ عزت کے اونچے استھان پہ بٹھاتے ہی وہ اور زیادہ عزت کا طالب ہو جاتا ہے۔ غرضیکہ اس کی طلب کی کوئی حد نہیں۔ ہر معاملے میں۔اس لیے میری انسان دوستی بس اس حد تک ہے کہ میں علاقے کے چوکیدار اور دفتر کے چپڑاسی کے مودبانہ سلام کا جواب باقاعدہ دیتا ہوں۔ دوسروں کی طرح محض سر کے اشارے پر اکتفا نہیں کرتا۔ خود سلام کرنے میں پہل اس لیے نہیں کرتا کہ یہ لوگ ایک بار کے بعد ہمیشہ سلام میں میرے ہی پہل کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں یہ کچھ انسانی فطرت کا تقاضا رہا ہو گا کہ دبائو تو لوگ دب جاتے ہیں اور اٹھائو تو اٹھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ بے چارہ اٹھانے والا بعد میں پچھتاتا ہی ملتا ہے۔ اس لیے میری انسان دوستی کی سرحدیں حقیقت پسندی سے جا ملتی ہیں۔ ایسے ہی جیسے میری بیوی کیڑے مکوڑوں کے معاملے میں حقیقت پسند ہے۔ میں اس سے نظریاتی اور اصولی اختلاف کے باوجود الجھتا نہیں۔ الجھنے سے مجھے یا خود ان کیڑے مکوڑوں کے دکھ درد کا کون سا ازالہ ہو جائے گا یہی سوچ کر میں اپنے کلیۂ احزاں میں حکیمانہ خاموشی اختیار کرنے ہی کو ترجیح دیتا ہوں۔ چلتے چلتے اتنا اور عرض کر دوں کہ نئے گھر میں آئے ہمیں سال بھر ہونے کو آیا ہے۔ ناقابل شمار تعداد میں کاکروچ میری بیوی کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتر چکے ہیں مگر عجیب و غریب واقعہ یہ ہے کہ جتنے کاکروچ مارے جاتے ہیں۔ اگلی رات اس سے کہیں زیادہ تعدادمیں نکل آتے ہیں اور فرش پہ دوڑتے پھرتے ہیں دنیا میں محکوم انسانوں کے کشت و خون کے سانحات بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ ظلم میرے گھر میں ہو یا محکوم بستیوں میں‘ پھر ظلم ہے۔ جیسے میں آواز نہیں اٹھاتا کہ بے نتیجہ اور لاحاصل رہے گی۔ میری آواز دنیا کے بیشتر ملکوں کی پالیسی بھی مظلوموں و محکوموں کی بابت کم و بیش ایسی ہی ہے۔ انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح بھاری بوٹوں تلے مسل دیے جائیں۔ اسلحوں سے سینے چھلنی کر دیے جائیں‘ عالمی ضمیر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مگر یہ عالمی ضمیر کس چڑیا کا نام ہے؟ میں نہیں جانتا دنیا پر ہمیشہ سے طاقت ہی کی حکمرانی رہی ہے۔ اور طاقت کے آگے انسانوں کی حیثیت خصوصاً جب وہ نہتے ہوں‘ کیڑے مکوڑوں ہی جیسی ہوتی ہے۔ میں ان بستیوں کا نام کیا لوں کہ ان سے کون واقف نہیں‘جہاں آئے دن خون بہتا رہتا ہے۔ لاشے اٹھتے رہتے ہیں۔ انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ حیوانوں کے تحفظ اور نگہداشت کے لیے فکر مند رہتا ہے‘ انجمنیں بناتا اور مہمیں چلاتا ہے مگر انسان قتل ہوں تو تماشائی بن جاتا ہے۔ اسٹریٹ فائٹنگ دیکھنے کا مجھے بھی شوق ہے لیکن کسی ماں کا جوان بیٹا تابوت میں کفن اوڑھے سویا ہو اور کنپٹیوں سے اس کے لہو رستا ہو تو مجھے اپنے انسان ہونے پر شرم سی محسوس ہوتی ہے۔ میں فلسطینیوں اور کشمیریوں کو تو نجات ظلم سے دلانے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن اتنا کہنے کی توفیق تو رکھتا ہی ہوں کہ دوستو!کیا تم دنیا میں صرف مرنے کے لیے پیدا ہوتے ہو؟ حقیقت کو بدل نہیں سکتے تو حقیقت کا راستہ تو اختیار کر سکتے ہو۔ راستہ حقیقت پسندانہ کیا ہے؟ اس پر تمہیں اور مجھے سوچناچاہیے۔ انسان کاکروچ نہیں‘ چھپکلی نہیں‘ حشرات الارض نہیں جسے اس طرح زندگی سے محروم کر دیا جائے۔ زندگی عظیم نعمت ہے اور خدا کی زمین تنگ نہیں اور عقل انسانی بھی بانجھ نہیں۔ ایک صورت حال سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی دوسرا دروازہ بھی ہوتا ہے‘ اسے تلاش کیوں نہیں کرتے۔ کیا ہمیں واویلا کرنے کے سوا کچھ اور نہیں آتا۔ لیکن کیا حق ہے مجھے ایسی باتیں کرنے کا‘ جو اپنے گھر کے کاکروچوں کو پرامن بقائے باہمی کے اصول کی روشنی میں جینے کا حق دینے کے باوجود ان کی حفاظت نہیں کر سکتا ‘تو انسان کو جینے دینا تو ایسی بنیادی سچائی ہے جو کتابوں میں اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں تو شاید درج ہو مگر یہ حق کمزوروں کو دیا ہی کب گیا ہے؟