وزیر اعظم عمران خان نے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امور سے ملاقات میں افغان امن عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستان کا روز اول سے یہ اصولی موقف رہا ہے کہ پرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کو افغان مسئلہ کے حل کے لئے طاقت کے بجائے طالبان سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے بات چیت کا مشورہ دیتا یا ہے۔ بدقسمتی سے افغان حکومت اور امریکی انتظامیہ پاکستان کے مخلصانہ مشورہ کے بجائے را اور موساد کے شر انگیزیوں کا شکار رہی اور پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام لگا کر مسئلہ کو بزور قوت حل کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ اس کا اعتراف پاکستان میں سابق امریکی سفیر رابن رافیل نے بھی پاکستانی موقف کو درست تسلیم کرکے کیا ہے۔ یہ پاکستانی کاوشوں کا ہی ثمر ہے کہ امریکہ اور طالبان دوحا مذاکرات کے ذریعے امن حل کے قریب پہنچ چکے ہیں اور طالبان نے امید ظاہر کی ہے کہ آئندہ مذاکرات میں حتمی معاہدہ کی توقع ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا طالبان کو انٹرا افغان مذاکرات کے لئے آمادہ کی کوششوں کا یقینا افغان امن عمل میں کلیدی کردار رہے گا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اس حوالے سے صرف سہولت کار کا کردار ہی ادا کر سکتا ہے کسی قسم کی مدا خلت کر سکتا نہ ہی طالبان کومجبور کیا جا سکتا ہے۔ بہتر ہو گا امریکی انتظامیہ افغان حکومت پر بھی مثبت پیش رفت کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے تاکہ افغانستان میں پائیدار امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے ۔