پران نول سے آخری ملاقاتیں آکسفورڈ کے لٹریری فیسٹیول کے دوران اسلام آباد میں ہوئیں۔ چونکہ ہم ایک ہی ہوٹل میں قیام پذیر تھے اس لیے آتے جاتے کہیں نہ کہیں آمنا سامنا ہو جاتا اور وہ ایک خالص لاہوریئے کی مانند نہایت بلند آواز میں مجھے پکارتا۔ موتیاں والیو کتھے جارہو او؟ کڑیاں نوں ملن جارہے او تے مینوں وی لے چلو۔ ایک روز کسی کالج کی لڑکیوں کا ایک غول فیسٹیول میں ادیبوں وغیرہ سے ملنے آیا اور میں ہوٹل سے باہر نکل کر اپنے ایک دوست کی کار میں بیٹھنے کو تھا جب بدقسمتی سے ان کے نرغے میں آ گیا۔ حسب معمول سیلفیاں، آٹو گراف اور کتابوں پر دستخط وغیرہ۔ پران نول بھی کہیں جارہا تھا تو اس نے مجھے لڑکیوں کے گھیرے میں دیکھ لیا۔ ازاں بعد جب کبھی ملتا تو شرارتی آنکھوں سے کہتا۔ تارڑ جی کڑیاں نوں ملن جا رہے او تے مینوں وی لے چلو۔ سچی بات ہے مجھے اس کی موت کے بعد علم ہوا کہ وہ 96 برس کا تھا۔ تب اسلام آباد میں وہ 94 برس کا ہوگا۔ میں اسے اپنا ہم عمر سمجھتا رہا اور ہمیشہ اس کی صحت اور پھرتیلے پن پر رشک کیا کہ میرا حال تو بہت برا ہوتا جاتا ہے، تھک جاتا ہوں، زیادہ ہجوم ہو جائے تو برداشت نہیں ہوتا، سکت کم ہوتی جاتی ہے اور اس ہندو بچے پران کو دیکھو میری عمر کا ہے اور باقاعدہ ایک گھوڑا ہے۔ مجھے کیا پتہ تھا یہ چھریرا گھوڑا 94 برس کا ہے۔ اس فیسٹیول کے دوران خشونت سنگھ کے حوالے سے ایک خصوصی اور پرہجوم تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی خصوصیت یہ تھی کہ دلی سے خشونت سنگھ کی بیٹی اور بیٹا راہول شمولیت کے لیے اسلام آباد آئے تھے۔ مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی لیکن میں نے معذرت کرلی کہ اگرچہ میں بابا جی کا بے حد مداح ہوں، ان کو بہت پڑھا ہے لیکن کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی تو مجھے سٹیج پر نہ بلائیے گا میں جہاں کہیں بھی بیٹھا ہوں گا وہیں کچھ گفتگو کرلوں گا۔ ظاہر ہے خشونت سنگھ کی بیٹی اور ان کا صحافی بیٹا راہول مہمان خصوصی تھے۔ اعتزاز احسن نے بہت عمدہ تقریر کی کہ ان کے خاندانی مراسم تھے۔ ازاں بعد پران نول آیا اور اس نے میلہ لوٹ لیا۔ پران خشونت سنگھ کا جگر تھا اور اس کے پاس کہنے کو بہت کہانیاں تھیں اور بقول اس کے وہ اور خشونت سنگھ پہروں لاہور کی باتیں کرتے رہتے کہ خشونت نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں کچھ عرصہ پریکٹس کی اور اس دوران عین سامنے مال روڈ کے پار ای پلومر اینڈ کمپنی والی عمارت کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر ہوا۔ پران نول ان دنوں برطانوی راج کی ناچ گرلز کے بارے میں ایک کتاب لکھ رہا تھا جس میں لاہور کی ہیرا منڈی کے بھی تذکرے تھے چنانچہ جب کبھی ان دونوں کی ملاقات ہوتی تو خشونت پوچھتا ’’اوئے نول وہ والی کتاب کا کیا ہوا۔ پران نول کا کہنا تھا کہ وہ دونوں جن موضوعات پر گفتگو کرتے تھے وہ شریفوں کی اس محفل میں بیان نہیں کئے جا سکتے۔ کہیں سے آواز آئی کہ پران صاحب اس محفل میں کوئی شریف نہیں ہے۔ وہ وزیراعظم ہائوس میں ہیں آپ بیان کیجئے۔ میں نے اپنی نشست پر ہی بیٹھے بیٹھے کچھ گفتگو کی کہ کیسے دلی میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنس کے دوران میرے دوست ونود دعا نے مجھے خشونت سنگھ کا پیغام دیا کہ ہفتے کی شام تم اور تارڑ میرے ہاں آ رہے ہو اور کھانا بھی میرے ساتھ کھائو گے۔ ونود کا کہنا تھا کہ خشونت دوچار گھونٹ بھرنے کے لیے تو کبھی کبھار مدعو کرلیتے ہیں لیکن ڈنر کی دعوت کم ہی دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے مجھے ایک روز پیشتر پاکستان چلے جانا تھا تو میں خشونت کے ڈنر سے محروم رہ گیا۔ میں نے میانوالی سے لاہور ایک سیسنا جہاز کے سفر کا تذکرہ کیا کہ پائلٹ نے مجھے بتایا تھا کہ ہمارے نیچے خوشاب کا جو قصبہ گزر رہا ہے اس کا نام ہڈیالی ہے اور جب والٹن ایئرپورٹ پر اتر کر اپنے گھر میں داخل ہوا تھا تو میری بیوی نے خبر دی تھی کہ وہ تمہارا بابا خشونت سنگھ نائنٹی نائن پر آئوٹ ہو گیا ہے۔ کیا یہ عجب اتفاق نہیں کہ جس لمحے میں خشونت سنگھ کے آبائی قصبے ہڈیالی کے اوپر سے گزر رہا تھا تو عین اس لمحے خشونت سنگھ مر گیا۔ اس شب لٹریچر فیسٹیول میں شامل ہونے والے کچھ ادیبوں کو برطانوی ہائی کمشنر نے انہیں سفارت خانہ کے وسیع لان میں ڈنر پرمدعو کیا۔ وہاں بہت دانہ پانی میسر تھا۔ پران دانے کی بجائے پانی میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا اور اس کی سوئی لاہور پر اٹک چکی تھی۔ کچھ دیر بعد مجھے دانے دنکے کی تلاش ہوئی۔ خشونت سنگھ کی بیٹی اور بیٹا ڈائیننگ ٹیبل پر تنہا بیٹھے ہوئے تھے۔ اس شب ان دونوں سے ان کے باپ کے بارے میں دل کھول کر باتیں عجب عجب ہوئیں۔ ایک سرائیکی نوجوان صدیق شہزاد نام کا ہے جسے لاہور کے سحر نے ڈس لیا ہے، اسے یوں کاٹ لیا ہے کہ وہ پانی تک نہیں مانگتا صرف دنیا بھر سے برطانوی آرکائیو سے، دلی اور نیویارک سے صرف لاہور کے بارے میں دفن شدہ تصویریں اور معلومات مانگتا ہے اور انہیں اپنی مشہور عالم لاہور کی ویب سائٹ ’’لاہور سٹی آف گارڈنز‘‘ پرنمائش کردیتا ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمان، ہندو، سکھ اور پارسی لاہوریئے اس کے مداح ہیں۔ جب لاہور کی بات ہوتی ہے تو صدیق شہزاد کی بھی بات ہوتی ہے۔ پچھلے برس میری دو کتابیں پنجاب اور لاہور کے بارے میں شائع ہوئیں ’’پیار کا پہلا پنجاب‘‘ اور ’’لاہور آوارگی‘‘ صدیق شہزاد میرے اور پران کے تعلقات کے بارے میں آگاہ تھا چنانچہ فون پر اس نے پران کو میری لاہور کی کتاب کے بارے میں بتایا۔ اس گفتگو کی ریکارڈنگ مجھے صدیق نے بھجوائی ہے۔ پران کہہ رہا ہے۔ مجھے دنیا بھر میں سب سے پیارا شہر لاہور ہے اور صدیق شہزاد کہہ رہا ہے کہ میری ملاقات مستنصر حسین تارڑ سے بھی ہوتی رہتی ہے تو پران کہتے ہیں، ہاں ہاں میں ان کو جانتا ہوں، وہ دوست ہیں، میں نے ’’ہیرالڈ‘‘ میں ان کا طویل انٹرویو پڑھا تھا۔ وہ تو بہت مہان رائٹر ہیں۔ صدیق ان سے ’’لاہور آوارگی‘‘ کا تذکرہ کرتے ہیں تو وہ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری بہترین خواہشات ان تک پہنچا دیجئے گا۔ پران نول ایک انٹرویو میں کہہ رہے ہیں کہ میں لاہور میں پیدا ہوا۔ یہیں پرورش پائی اور تعلیم حاصل کی۔ میری ذات لاہور کا ایک حصہ ہے اور لاہور میری ذات میں گھلا ہوا ہے۔ اس شہر کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اب بھی جب میں لاہور آتا ہوں، مال روڈ پر چہل قدمی کرتا ہوں تو میرے آس پاس وہی تاریخی اور قدیم عمارتیں ہوتی ہیں جنہیں میں اپنے بچپن اور جوانی میں دیکھا کرتا تھا۔ باوا ڈنگا سنگھ بلڈنگ، شاہ دین بلڈنگ، دیال سنگھ مینشن، لاہور ہائی کورٹ اور ای پلومر کی دکان، میں چیئرنگ کراس سے جی پی او کے چوک تک جاتا ہوں، وہی عمارتیں، میں انارکلی کی سیر کرتا ہوں اور پھر قدیم شہر کی گلیوں میں نکل جاتا ہوں۔ میں نے پوری دنیا دیکھی ہے، پورا لاطینی امریکہ دیکھا ہے لیکن کبھی بھی لاہور کا ثانی نہیں دیکھا۔ دلی میرا گھر کبھی نہ ہوا۔ صرف لاہور میرا گھر ہے، آپ جانتے ہیں کہ دلی اور لکھنو کو نہیں، لاہور کو ’’جیم آف انڈیا‘‘ ہندوستان کا ہیرا کہا گیا۔ جہاں ہندوستان کے کسی بھی شہر کی نسبت سب سے زیادہ اور اعلیٰ پائے کے تعلیمی ادارے تھے۔ گورنمنٹ کالج کے مقابلے کا کوئی اور کالج نہ تھا اور کنیئر ڈ کالج ایسا لڑکیوں کا کوئی اور کالج ہندوستان بھر میں نہ تھا اور یہاں کی لڑکیاں بھی سب سے خوبصورت… ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ۔ اور ہم نے اس لاہور کا چہرہ بلکہ ہم نے نہیں شریفوں نے اس لاہور کا چہرہ بگاڑ دیا۔ اس کی تاریخی عمارتیں، مسجدوں اور مزاروں اور چوکوں کے درمیان سب کچھ ڈھا کر ایک دیوار برلن تعمیر کردی۔ ایک سرخ میٹرو بس اور ایک اورنج ٹرین اس کے سینے پرمونگ دلتی اس کے قدیم چہرے کو کاٹتی مسخ کرتی چلی جاتی ہے۔ میں دنیا بھر کے بڑے شہروں کے عینی شاہد کے طور پر گواہی دیتا ہوں کہ آج تک کسی ایسے تاریخی شہر کومیٹرو کے نام لے کر کسی نے ہلاک نہیں کیا۔ اس کے چہرے کو مسخ نہیں کیا اور میں ڈیلفی پہاڑ پر براجمان آئندہ زمانوں کو پڑھنے والا ایک قسمت کا حال بتانے والا دیوتا تو نہیں ہوں لیکن میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ کبھی نہ کبھی اس دیوار کو مسمار کردیا جائے گا اور ایک بار پھر لاہور کا چہرہ اپنے اصل روپ میں دکھائی دے گا۔ پران نول مر گیا ہے۔شاید اس نے بھی خشونت سنگھ اور کلدیپ نیئر کی مانند وصیت کی ہو کہ میری راکھ کو میرے وطن لے جانا، لاہور کی گلیوں میں بکھیر دینا۔ اگر وصیت نہ بھی کی ہو تو بھی اس کی خاک یہاں تک پہنچے گی جہاں اس کا خمیر تھا۔ اس کی روح خاموشی سے نسبت روڈ کے اس مکان کے کسی کمرے میں سکونت اختیار کرے گی اور اسے کوئی بے دخل نہ کر سکے گا۔ نہ کوئی اس کا پاسپورٹ یا ویزا چیک کرے گا کہ روحوں کے نہ پاسپورٹ ہوتے ہیں اور ویزے۔ روحوں کے لیے سرحدیں معنی نہیں رکھتیں۔ تو اے پران نول۔ میں تمہیں لاہور میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہمیشہ کے لیے اپنے محبوب شہر میں آباد ہو جائو۔ ویل کم پران نول!