پرانی کتابیں‘ پرانی تصویریں‘ پرانی عمارتیں اور پرانے منظر ہمیشہ مجھے آواز دیتے ہیں۔ ان پر موجود گزرے زمانوں کا نقش مجھے ہانٹ کرتا ہے انکے پرانے پن میں ضرور کوئی نئی بات ہوتی ہے سیکھنے کے لیے۔ پرانی کتابیں تو ہمیشہ سے میری پسندیدہ رہی ہیں۔ اولڈ بک شاپس پر فٹ پاتھوں پر یا سڑک کنارے سٹالوں پر سجی پُرانی کتابیں مجھے سال خوردہ بزرگوں کی طرح محسوس ہوتی ہیں جو نئی نسل کو اپنے پاس محبت سے بٹھا کر کوئی رمز بھری بات بتانا چاہتے ہیں۔ بزرگ ہمیشہ ایک انتظار کی کیفیت میں رہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کے پاس دو گھڑی بیٹھے۔ ان سے بات کرے۔ اسی طرح پرانی کتابیں بھی۔ ایک انتظار کی کیفیت میں ہوتی ہیں کہ کوئی آئے اور ان کی گرد جھاڑے۔ محبت سے ان کے صفحات کھولے اور سیاہ حروف کے صندوقچوں میں بند زندگی بھرے رمز کو سمجھے اور اپنے پلو سے باندھ لے۔ میں بھی آج آپ کے ساتھ ایک پرانی کتاب کی بات کروں گی۔ میں نے برسوں پہلے لاہور پریس کلب کے سامنے فٹ پاتھ پر لگی جو پرانی کتابوں سے خریدی تھی۔ اس وقت بھی اس کتاب کے حوالے سے کالم لکھا تھا اور آج بھی یہ کتاب مجھے یاد آئی ہے کہ اسے آپ کے ساتھ شیئر کروں اس کے یاد آنے کے پیچھے دراصل وہ مناظر ہیں جنہیں دیکھ کر دل افسوس اور تاسف سے بھر گیا۔ جی ہاں۔ گورنر ہائوس لاہور کے خوب صورت اور محنت سے آراستہ کیے ہوئے منظر نامے پر جس طرح شہریوں نے جا کر گند ڈالا۔ سرسبز لان میں جوس کے ڈبے ‘ کھانے پینے کے ریپرز پھینکے۔ پھولوں اور پھلوں کا اجاڑا کیا۔ اس کو دیکھ مجھے ایک بار پھر وہ پرانی کتاب یاد آ گئی۔ کتاب کے مصنف ایک امریکی رابرٹ فلگم (Robert Fulgum)ہیں کتاب کا نام ہے۔ All I need to know I Learned in Kindergarten''اس کتاب کو نوے کی دہائی میں بیسٹ سیلر کا اعزاز بھی ملا۔ کتاب کے ٹائٹل کے نیچے ایک اور جملہ بھی تحریر ہے۔ un common thoughts about common things. رواں اور سادہ انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب بلا شبہ ایک غیر معمولی خیال کو قاری کے سامنے پیش کرتی ہے۔کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ بہتر اور سلیقے والی زندگی گزارنے کے لیے جو کچھ ہمیں سیکھنا چاہیے وہ ہم کنڈر گارٹن میں سیکھ چکے ہوتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ بڑے ہو کر زندگی گزارنے کے وہ سنہری اصول ہم بھول جاتے ہیں۔کنڈر گارٹن کی اصطلاح سکول میں بالکل ابتدائی کلاسوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً پلے گروپ ‘ کے جی‘ نرسری وغیرہ۔ مصنف کہتا ہے کہ کنڈر گارٹن میں جب بچہ گھر کے ماحول سے پہلی بار سکول میں دوسرے بچوں کے ساتھ ایک گروپ ایکٹویٹی میں اٹھتا بیٹھتا ہے تو اسے سکھایا جاتا ہے کہ ہمیشہ سچ بولیں۔ کسی دوسرے کی پنسل‘ ربڑ کاپی مت اٹھائو۔ اپنے بستے کی حفاظت خود کرو۔ بے ترتیبی مت پھیلائو۔ اپنا بکھرا ہوا پھیلاوا خود صاف کرو۔ دوسروں کو تنگ نہ کرو۔ قطار بنائو۔ اپنی لین میں چلو۔ دھکا دے کر آگے مت بڑھو۔ اپنے لنچ کو اور کھانے پینے کی چیزوں کو دوستوں کے ساتھ شیئر کرو۔کچھ بھی جو پھینکنے والا ہو۔ مثلاً چھلکے‘ خالی ریپر ‘ جوس کا خالی ڈبہ‘ اس کو ادھر ادھر مت پھینکو‘ ہمیشہ ڈسٹ بن میں گند کو ڈالو۔ رابرٹ کا کہنا ہے کہ ایک اچھے انسان کی حیثیت سے‘ معاشرے ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے بنیادی قاعدے اور اصول ہمیں سکول کی ابتدائی کلاسوں میں سکھائے جاتے ہیں۔ جب ابھی ہم آگہی کی منزلوں سے دور بے شعوری اور کم سنی کے آنگن میں اٹھکھیلیاں کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹیچرز کی ان نصیحتوں پربچے اس وقت تو ضرور عمل کرتے ہیں لیکن پھر یہی بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو کنڈر گارٹن میں سکھائے گئے سادہ مگر بنیادی اصولوں کو بھول جاتے ہیں۔کسی سیانے کہا تھا کہ بچے تو بہت اچھے ہوتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ اور یہی بڑے پھر اس سماج کا کرتا دھرتا بنتے ہیں۔ کنڈر گارٹن میں سیکھے گئے تمام اصولوں کو پس پشت ڈال کر معاشرے میں وہ سب کچھ کرتے ہیں جس سے صرف ان کی اپنی ذات کو فائدہ ہو۔ اس کالم کا محرک تو وہ گورنر ہائوس تصاویر تھیں جو میں فیس بک پر دیکھیں کہ لوگ کتنی بے دردی سے صاف ستھرے منظر کو گندگی سے بھر دیتے ہیں۔ گند ادھر ادھر مت پھیلائو۔ گند کی ٹوکری میں ڈالو۔ کا جو سبق سب نے ہی اپنے بچپنے میں گھر اور سکول سے سیکھا ہوتا ہے نہ جانے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ذہنوں سے کیسے محو ہو جاتا ہے۔ایک اور بات جس کا تذکرہ ضروری ہے وہ یہ کہ گورنر ہائوس میں ’’اجاڑا ‘‘ڈالتے ہوئے لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ سب ہماری ٹیکس منی سے بنا ہے اس لیے اس پر ہمارا حق ہے ہم اس کے پھول توڑیں یا ادھ پکی سبزیاں کیاریوں سے اکھیڑیں کس قدر افسوسناک سوچ ہے۔ اگر آپ خود کو سیاسی وابستگی کے تعصب سے آزاد کریں تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مرو اور مارو کی یہ شدت پسند سوچ تحریک انصاف کی قیادت کی دین ہے۔ انہوں نے لوگوں کے اندر شعور کے نام پر غصہ‘ انتقام‘ شدت پسندی اور جنون تو پیدا کیا مگر ان کو تہذیب‘ تمیز‘ سلیقہ‘ اصول اور قاعدے نہیں سکھائے۔ شدت پسندی کی اس سوچ کو ترویج دینے والے یاد رکھیں کہ معاشرے انتقام پسندی‘ شدت پسندی اور جنون سے کبھی نہیں بنتے۔ جب تک یہ شدت اور جنون کسی اصول‘ ضابطے اور اخلاقیات کا پابند نہ ہو۔ تبدیلی اور انقلاب کے نام پر آپ نے گورنر ہائوس تو عوام کے لیے کھول دیا لیکن اس بلاوجہ کی سرگرمی کا مقصد کیا۔؟ اس سے عوام کے حقیقی مسائل کیا حل ہو جائیں گے۔ اس کی تو خیر بات ہی کیا۔ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی میں دن دگنی ترقی روز ہو رہی ہے۔ تازہ سخت فیصلہ گیس کی قیمتیں بڑھانے کا کیا گیا ہے۔ اس سے بھی عام آدمی کی زندگی اور مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ اس ملک کے غریب کے لیے تو پیٹ بھر روٹی کھانا اور بیماری میں دوا دارو کا بندوبست کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لوگوں نے آپ کو ووٹ دئیے تو اس تبدیلی کے لیے دیے کہ ان کی زندگیاں غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں ایک جبر مسلسل بنتی جا رہی ہیں اس میں کمی اور بہتری آئے۔ چاروں صوبوں کے گورنر ہائوسز عوام کی سیرو تفریح کے لیے کھولنے پر آسودہ حال انصافین ضرور اس انقلاب پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں مگر اس ملک کا غریب اور سفید پوش طبقہ اب بھی ایک سوال کی صورت آپ کی طرف دیکھ رہا ہے کہ اپنے وعدوں کا بھرم رکھیں۔ بات ایک پرانی کتاب سے شروع ہوئی تھی جو ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی کو سلیقے ‘ اور قرینے سے گزارنے کے لیے جو سادہ سے اصول ہیں زندگی بھر یاد رکھنے چاہئیں وہ ہم ابتدائی جماعتوں میں ضرور سیکھتے ہیں۔ اور ٹیچرز کی ہدایات پر عمل بھی کرتے ہیں، مگر پھر المیہ یہ ہے کہ بڑے ہونے پر ہم وہ سارے قاعدے اور سارے اصول طاق پر دھر دیتے ہیں۔ پھر خواہ وہ معاشرے کا کوئی عام شہری ہو جو گورنر ہائوس کے پھل، پھول اور سبزیاں توڑ کر تسکین محسوس کرتا ہے۔ پارکوں اور تفریح گاہوں پر کھانے پینے کا بچا ہوا ٹریش پھینک کر تبدیلی کا انتظار کرتا ہے۔ یا پھر وہ کوئی صاحب اختیار و صاحب اقتدار ہو۔ جو جھوٹ بولے! دھوکہ دہی کرے‘ وعدہ خلافی کرے، دھونس اور دھاندلی کرے، ضیافت کرے، خواہ مال کی ہو یا پھر سوچ اور خیالات کی سب ایک برابر ہیں۔میرا خیال ہے ہم سب بڑوں کو ایک بار کنڈر گارٹن سکول میں داخل کروانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ بھولے ہوئے سبق کو پھر سے دھرایا جا سکے۔ پرانی کتاب کے دامن سے چنی ہوئی یہ نئی بات مجھے تو اچھی لگی اور آپکو۔؟؟