اسلام آباد ( خبر نگار،این این آئی)سپریم کورٹ نے دہشت گردی کی تعریف سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے جس کے مطابق منظم منصوبے کے تحت مذہبی، نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے پرتشدد کارروائی دہشت گردی ہے ۔ بدھ کو جاری کئے گئے فیصلے میں کہاگیاکہ حکومت یا عوام میں منصوبے کے تحت خوف وہراس پھیلانا، جانی و مالی نقصان پہنچانا دہشت گردی ہے ۔ فیصلے کے مطابق منصوبے کے تحت مذہبی فرقہ واریت پھیلانا دہشت گردی ہے ،منصوبے کے تحت صحافیوں ،کاروباری برادری، عوام اور سوشل سیکٹر پر حملے ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، لوٹ مار کرنا دہشت گردی ہے ،قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے بھی دہشت گردی ہیں۔فیصلے میں کہاگیا کہ ذاتی دشمنی یا عناد کے سبب کسی کی جان لینا، جلاؤ گھیراؤ، بھتہ خوری دہشت گردی نہیں۔ ذاتی عناد اور دشمنی کے باعث مذہبی منافرت، پولیس، افواج اورسرکاری ملازم کے خلاف پر تشدد واقعے میں ملوث ہونا دہشت گردی نہیں۔فیصلہ میں کہاگیاکہ پاکستان میں 1974ء سے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مختلف قوانین متعارف کرائے گئے ۔عدالت نے کہاکہ انسداد دہشت گردی قانون انتہائی وسیع ہے ، قانون میں دہشت گردی کے حوالے سے کئی اقدمات اور ڈیزائن ایسے شامل کیے گئے جن کا دہشت گردی سے دور کابھی تعلق نہیں۔ دہشت گردی کے قانون میں ایسے سنگین جرائم کو شامل کیا گیا جن کے سبب عدالتوں میں غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے ، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کو دہشت گردی میں شامل کرنے کے سبب دہشت گردی کے اصل مقدمات کے ٹرائل میں تاخیر ہوتی ہے ،ہم پارلیمنٹ کو سفارش کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے نئی تعریف کا تعین کرے اور اس کیلئے بین الااقوامی معیار کے تناظر میں سیاسی، نظریاتی اور مذہبی مقاصد کا حصول مدنظر رکھے ۔عدالت نے کہاکہ بین الاقوامی سطح پر یہ طے ہو چکا کہ سیاسی، نظریاتی یا مذہبی مقاصد کے حصول کے بغیر پر تشدد کاروائی دہشت گردی نہیں،پارلیمنٹ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تیسرے شیڈول میں شامل ان تمام جرائم کو ختم کرے جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔60 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا۔