سرد موسم میں گرم کافی پینے اور پسندیدہ کتاب پڑھنے سے بڑی عیاشی اور کیا ہوسکتی ہے؟ کراچی تو ابھی سرد موسم کا منتظر ہے مگر گذشتہ روز لاڑکانہ میں ایک دوست کی دعوت پر ایک رات کو ٹھہرا تو اس رات کھڑکی کے شیشے سے سرد چاند اس کمرے میں جھانک رہا تھا جہاں میں علامہ اقبال کی شاعری پڑھ رہا تھا اور میری آنکھیں اس صفحے پر کچھ دیر کے لیے رک گئیں جس صفحے پر علامہ اقبال نے ابو العلاء المعری کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے اس لیے ان کو آزمائش میں ڈالنے کے لیے ان کے دوست نے انہیں بھونا ہوا تیتر بھیجا۔ معری نے پلیٹ میں رکھے ہوئے بھونے تیتر کے حوالے سے کہاکہ کاش! تم تیتر کے بجائے شاہین ہوتے اور اپنے شکاری کی آنکھیں نوچ لیتے! علامہ اقبال کی یہ بات پڑھ کر ذہن میں بہت سارے سوالات پیدا ہوئے مگر وہ سارے سوالات ان میٹھی آوازوں تلے دب گئے جو پرندوں کی چونچوں سے نکل کر پورے ماحول کو فطرت کی موسیقی سے بھر دیتے ہیں۔ میں اس بات پر حیران ہوجاتا ہوں کہ پرندے کتنی میٹھی بولی بولتے ہیں۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ پی ٹی وی کے ایک ڈرامے میں جب ایک کسان اپنی بیٹی کو غصے سے بلاتا ہے تب وہ لڑکی ہرے درخت پر بیٹھے ہوئے پرندے کو دیکھ کر اپنے آپ سے کہتی ہے ’’بابا ! کتنا کڑوا بولتے ہیں اور پرندے کتنا میٹھا بولتے ہیں‘‘ جب اس حسین پرندے کو کوئی آگ پر پکا کر پیش کرتا ہے تو وہ عمل فطرت پر بہت بڑا ظلم محسوس ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کی کمزور اور معصوم پرندوں کے بارے میں دل کو چھونے والی بات پڑھ کر میرا ذہن سندھ کے ان دیہی علاقوں کی طرف نکل گیا جہاں موسم گرما میں جانے کا تصور کرنا بھی محال ہوتا ہے۔ سندھ میں سرما کا موسم حیران کردینے کی حد تک حسین ہوتا ہے۔ یہ وہ موسم ہوتا جس میں سندھ کی چھوٹی بڑی جھیلوں پر سرد ممالک سے آنے والے خوبصورت پرندے بہت بڑے غول بنا کر اترتے ہیں۔ مگریہ دلکش اور حسین موسم ان پردیسی پرندوں کا مقتل بن جاتا ہے جو اپنے ممالک میں پڑنے والی برف سے بھاگ کر گرم پانیوں والے ممالک میں پناہ لیتے ہیں ۔ ویسے تو اہلیان سندھ تہذیب یافتہ ہونے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر موہن جو دڑو کی مثال پیش کرنے والے اسی تاریخی شہر کے ضلع لاڑکانہ میں جس طرح معصوم پرندوں کا شکار کرتے ہیں وہ منظر حساس انسانوں کے لیے انتہائی اذیت ناک ہوتا ہے۔ کاش! سندھ کے لوگ اس بات کا احساس اپنے دل میں سمائیں کہ وہ پرندے جن کے گوشت میں کوئی خاص ذائقہ بھی نہیں ہوتا ان کو جس طرح گولیوں کا نشانہ بنایا جاتاہے وہ عمل اس دھرتی پر اچھا نہیں لگتا جو دھرتی وحدت الوجود کے راستے پر چلنے والے صوفیاء کرام کی ہے۔ سندھ کے لوگوں کے لیے شاہ لطیف کی بہت بڑی حیثیت ہے۔ مگر وہ شاہ لطیف کے بارے میں اتنا بھی نہیں جانتے کہ شاہ لطیف پرندوں کے شکار کے بہت بڑے مخالف تھے۔ میں نہیں جانتا کہ وہ پرندوں کا گوشت کھاتے تھے یا اس سلسلے میں بھی وہ ابن العربی کی پیروی کرتے تھے مگر ان کی نظر میں پرندہ پیار کی علامت تھا۔ جس طرح پرندے ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے انہوں نے اپنی شاعری میں محبت کا یہ انداز پرندوں سے سیکھنے کی تلقین کی ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ان پرندوں کو مت مارو جو تم کو محبت کا سبق دیتے ہیں۔ مگر تاریخ میں تو عوام نے محبت کا درس دینے والے پیغمبروں اور درویشوں کو سخت تکلیف پہنچائی ہے۔ میں جب بھی یسوع مسیح کا تصور کرتا ہوں تب میری آنکھیں آنسوؤں سے بھرجاتی ہیں۔انسانی تاریخ میںپیغمبروں اور معصوم پرندوں کے ساتھ اذیت ناک سلوک ہوا ہے۔ اس دور میں پیغمبروں کا سلسلہ تو رک گیا ہے مگر پرندوں کا خون بہانے کی ظالم روایت ابھی تک جاری ہے۔ حالانکہ شاہ لطیف سے لیکر شیخ ایاز تک سندھی زباں کے سارے عظیم شاعروں نے پرندوں پر ظلم کرنے کے بجائے ان سے پیار کرنے کا پیغام دیا ہے مگر ہم اپنی شکاری ذہنیت کے سبب ایسے پیغام کہاں یاد رکھتے ہیں؟ شیخ ایاز نے بہت سارے اشعار پرندوں کا شکار نہ کرنے کے سلسلے میں لکھے ہیں۔ انہوں نے ایک نظم میں لکھا ہے:’’اس پرندے کو مت مارو۔اس کا ساتھی اس کے بغیربہت اداس رہے گا!‘‘مگر سندھ میں کسی شاعر اور کسی دانشور کی ایسی کوئی بات نہیں مانی گئی جس میں فطرت کے لیے محبت کا اظہار ہو۔ حالانکہ اپنی بات کو زیادہ آسان بنانے کے لیے شیخ صاحب نے اپنی سوانح حیات میں بھی ایسے واقعات قلمبند کیے ہیں جن سے ان کی پرندوں کے شکار سے سخت نفرت عیاں ہوتی ہے۔ وہ ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سکھر میں دریائے سندھ کے پاس کچے کے علاقے میں اپنے شاعرانہ مزاج کے لیے میں سیر کرتا تھا اور وہاں پر جھیل میں تیرتی ہوئی مچھلیوں سے لیکر جھیل پر اترتے ہوئے پرندوں کے بارے میں مقامی لوگوں سے معلومات لیتا تھا۔ ایک بار میں نے جنگل سے آتے ہوئے کچھ شکاری دیکھے جو غیر ملکی پرندوں کا شکار کرنے کے بعد آگ جلا کر ان کا بار بی کیو بنا رہے تھے۔ جب وہ روسی پرندے ڈگوش کو چھیل آگ پر پکانے لگے تو میں جذباتی ہوگیا اور میں نے جیب سے پستول نکال کر ہوا میں فائر کیے ۔ شکاریوں نے سمجھا کہ ان پر ڈاکوؤں نے حملہ کیا ہے۔ اس لیے وہ خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ میں شکار کیے ہوئے پرندوں کے پاس گیا اور میں نے ڈگوش کے خوبصورت رنگ کو دیکھ کر اس سے کہا کہ اگر وہ دوبارہ تمہارا شکار کرنے آئے تو میں ان پر سیدھی فائرنگ کروں گا۔ ایک شاعر کی نظر میں پرندوں کے لیے اتنا پیار ہے مگر جب ہم سرد موسم میں اندرون سندھ کے چھوٹے شہروں سے گذرتے ہیں اور مرغی کی دکانوں پر پردیسی پرندوں کو پنجروں میں دیکھتے ہیں تو درد کی لہر پورے وجود سے گذر جاتی ہے۔ ہمیں اس بارے میں حقیقت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑا حساس بھی ہونا چاہئیے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئیے کہ جو پرندے موسم سرما میں ہماری سرزمین پر اترتے ہیں ان پرندوں کے انڈے اپنے ملک میں برف کے نیچے دبے ہوتے ہیں اور جب برف پگھلنے لگتی ہے تب ان انڈوں سے بچے نکلنے لگتے ہیں ۔ اس وقت وہ پرندے تو اپنے بچوں کو پالنے کے لیے واپس پہنچ جاتے ہیں جو ہمارے دیس کے شکاریوں کی گولیوں سے بچ جاتے ہیں مگر وہ پرندے اپنے بچوں کے پاس نہیں پہنچ سکتے جو گولیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ان مقتول پرندوں کے بچے بھوک سے بلک بلک کر مرجاتے ہیں۔ فطرت کے اس پورے سسٹم کو ہم نہیں سمجھتے اس لیے ہمارے دل میں ان پرندوں کے لیے کوئی احساس نہیں جن پرندوں کو اس دھرتی پر جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ہمیں ہے۔ یہ شعور جب ہمارے لوگوں میں آگیا تب وہ کمزور پر ظلم کرنے کے بجائے ان کا تحفظ کریں گے۔ جب موسم سرما آتا ہے اور اندرون سندھ سے دوستوں کی دعوتیں آتی ہیں۔ جب وہ فطرت کا حسن دیکھنے کے لیے بلاتے ہیں تب اس آگ پر ہاتھ سینکنے کا بڑا دل کرتا ہے جو آگ کھلے میدان میں جلائی جاتی ہے اور جس کے گرد ہم خیال دوست بیٹھتے ہیں ۔ اس محفل میں گذرے ہوئے وقت کی یادیں اور باتیں کبھی خوش کرتی ہیں اور کبھی اداس کردیتی ہیں۔ اس ماحول میں صرف خوش ہونا ہی نہیں بلکہ ناخوش ہونا بھی اچھا لگتا ہے۔ دل بڑا کرتا ہے کہ ہر موسم سرما میں سندھ کے دیہاتی ماحول کا لطف لیا جائے مگر جب حد نظر تک پھیلے ہوئے حسین کھیتوں کے پاس پانی کی جھیلوں کو پردیسی پرندوں کا بے رحمی سے شکار یاد آتا ہے اس وقت ہمت ٹوٹ سی جاتی ہے۔ اس بار بھی موسم سرما کی آمد میں سندھ کے دیہاتی حسن کو دیکھنے کا بڑا دل کرتا ہے مگر پردیسی پرندوں کے شکار کا سوچ کر سفر کا شوق سینے میں بجھ سا جاتا ہے۔ فطرت کی آغوش جب فطرت کے معصوم پرندوں کے لیے مقتل بن جائے تب کس کوہمت ہے کہ وہ منظر دیکھے جس منظر کو یاد کرکے بھی دل اداس ہوجاتا ہے۔