کورونا وائرس کی تباہ کاریوں اور لاک ڈاؤن کے باعث تین کروڑ سے زائد دیہاڑی دار افراد معاشی تنگدستی سے دوچار ہوچکے ہیں ۔ ہزاروں خاندانوں کے پاس راشن ختم ہوچکا‘غریب عوام ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ۔ انسانی تاریخ کا ایساالمناک باب رقم ہورہا ہے جسے بیان کرنے کی سکت نہیں ۔اگرچہ لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں محدود ہوکرہی کورونا وائرس کی وباء سے بچاؤ تجویز کیا گیا ہے اور عوام نے جیسے تیسے حکومتی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے آپ کو گھروں میں قید بھی کرلیا ہے مگر بیوی بچوں کے لیے روزانہ کی بنیادپر روٹی سالن کا بندوبست کرنے والے کروڑوں افراد اب بھوک کے وائر س کی زد میںہیں۔ایسی کربناک صورتحال میں عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے دوانتہائی مؤثر فارمولے بھی تیارہیں، جسے آپ ’’پردیسی فارمولہ ‘‘یا’’ملتانی فارمولہ ‘‘کا نام دے سکتے ہیں ۔ ان فارمولوں کی تفصیلات آگے چل کربیان کروں گا‘تاہم پہلے حکومتی اقدامات کا جائزہ لیا جانا بھی ازحدضروری ہے ۔ وزیراعظم عمران خان بذریعہ ’خطابات‘دن رات عوام کا حوصلہ بڑھائے ہوئے ہیں‘ہفتہ قبل سے200ارب روپے کے پیکج پر عمل درآمد کروانے میں بھی کوشاںہیں مگر یہ ضابطے کی کارروائی ہے کہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اقتصادی ٹیم یوٹیلٹی سٹورز اور عوام کو نقد امداد کیلئے رولز آف بزنس کے تحت مختلف فورم سے منظوریاں لینے میں مصروف ہے جبکہ غریب عوام صبح و شام حکومتی امداد کی راہ تک رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ سفید پوش طبقہ بھی مہنگائی کے بھنورمیں حکومتی پیکج کا انتظا ر کرتے کرتے سرخ فیتے کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہے ۔شومئی قسمت کہ حکومتی سطح پر غریب عوام کیلئے جب بھی کوئی پیکج تیار ہوتا ہے تو بیوروکریسی اور وزارت خزانہ کو 1973ء کے رولز آف بزنس اور قانون کی یاد ستانے لگتی ہے مگر جب اپنوں کو نوازنا ہو تو سال بعد بھی کابینہ سے منظوری حاصل کرلی جاتی ہے‘اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ وزارت خزانہ کے حکام نے وزیراعظم کو خوش کرنے کیلئے ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ روک دیاہے‘سات غیر ملکی بینکوں سے اپریل 2019ء سے مارچ2020ء تک 2ارب 30کروڑ ڈالرز قرض لیا۔ قرض کا حصول اوراس پر شرح سودکی وفاقی کابینہ سے منظوری ہی نہیں لی گئی تھی۔وزرات خزانہ نے خاموشی سے وفاقی کابینہ سے مطلوبہ منظوری گزشتہ ہفتے حاصل کرتے ہوئے قواعد وضوابط کی فائل مکمل کرلی۔ اگر یہ سب کچھ ممکن ہے تو غریب عوام کے لئے اعلان کردہ پیکج پر رولز آف بزنس کی تلوار کیوں لٹکا دی گئی؟ یہ حقیقت ہے کہ قومی خزانے اور سرکاری مشینری میں اتنی سکت نہیں کہ کورونا وائرس کے باعث بے روزگار ہونیوالے کروڑوں خاندانوں کی مالی ضروریات اس انداز میں پوری کی جاسکیں کہ ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی فرد بھوکا نہ رہے۔ حکومت کا اخلاص اپنی جگہ مگر ماضی کی دوبڑی صعوبتوں یعنی 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب کی تباہی کاریوں کے متاثرین آج بھی در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبورہیں۔ عالمی برادر ی کی جانب سے اربوں ڈالرز امدادبھی ملی مگر حق‘ حقدار تک نہ پہنچ سکا بلکہ پہنچایا ہی نہیں گیا۔ لہٰذا ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے دوکامیاب فارمولوں پر عملدرآمد ہوناچاہئے۔ پہلا فارمولہ جسے ’’پردیسی فارمولہ ‘‘کہہ سکتے ہیں ۔یہ فارمولہ پاکستان کے ممتارکاروباری خاندان’ پردیسی‘ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کیلئے تیار کیا گیا ہے۔ پردیسی فیملی کے ایک فرد نے مشکل کی اس گھڑی میں فوری طور پر 50ارب روپے ملک بھر کے مصیبت میں گھرے افراد کو راشن پہنچانے کیلئے فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے‘ جس میں تھیلیسیمیاکے مریضوں کیلئے بھی چار ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ایک انتہائی مؤثر پلان کیساتھ یہ فارمولہ وزیراعظم عمران خان کو پیش کیا جا چکا ہے۔اس فارمولے کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو پیش کش کی گئی ہے کہ نیشنل بینک آف پاکستان کو ہدایت کی جائے کہ اسلام آبادکی پرکشش لوکیشن پر تعمیر پراپرٹی کی48گھنٹوں میں ’ویلیوایشن ‘کروائی جائے۔ اس جائیداد کی مالیت 50ارب روپے سے کہیں زیادہ ہے۔نیشنل بینک’ ویلیوایشن ‘کے بعد پراپرٹی کے قانونی تقاضوں کے مطابق پراپرٹی کی ملکیت لیتے ہوئے 50ارب روپے کی رقم جاری کرے۔ یہ رقم کسی سرکاری اکاؤنٹ میں قطعا ًنہیں جائے گی بلکہ چاروں صوبوں میں انسانی خدمت میں نام کمانے والی شخصیات کی تنظیموں کے اکاؤنٹس میں منتقل کی جائے گی۔ 10ارب روپے ہر صوبے کے عوام کو راشن فراہم کرنے جبکہ 1ارب روپے تھیلیسیمیا کے مریضوں کو خون فراہم کرنے کیلئے خرچ کئے جائینگے۔ اس فارمولے پر عملدرآمد کے بعد اگر رقم کم پڑگئی توپھر بھی حکومت پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا بلکہ دیگر کاروباری افراد سے مزید رقم کا بند وبست کیا جائے گا۔ یہ ہے وہ’ پردیسی فارمولہ ‘جو ایک درددل رکھنے والے محب وطن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو پیش کیا گیا ہے۔ اب وزیراعظم کی خدمت میں پیش ہے ’’ملتانی فارمولہ‘‘۔ابھی حکومت سوچ وبچار میں پھنسی ہوئی تھی کہ لاک ڈاؤن کے بعد دیہاڑی دار افراد کو فاقوں سے بچانے کیلئے کیا جائے‘اس موقع پر ملتان کے نوجوان سلمان نعیم نے اپنی یونین کونسل میں رضاکاروں کے ذریعے سروے کروایا۔ 10ہزار انتہائی غریب خاندانوں کا تعین کیا ‘راشن بیگ تیار کروائے اور ایک دن ضائع کئے بغیر ہرگھر میں20روز کا راشن پہنچا کر بجھتے چولہے دوبارہ جلا دئیے۔ وزیراعظم صاحب!خدارا ‘افسر شاہی کی تجاویز‘ پیچیدہ قانونی دلیلوںاور ’’رنگ بازیوں‘‘سے باہرنکلیں ۔کروڑوں عوام اس وقت فوری طور پر راشن کے منتظر ہیں۔قیامت کی اس المناک گھڑی میں ماضی کے فرسودہ نسخوں کے بجائے ’’پردیسی ‘‘یا’’ ملتانی فارمولہ‘‘ اپناتے ہوئے عوام کے دکھ درد کو سمیٹ لیجئے۔ کہ آپ کا یہ ناگزیر اقدام ہی ریاست مدینہ کے فلسفے کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔