بہت سے دینی طبقے ایسے ہیں جن کی فکر میں اساسی کجی سے ایک ایسی ٹیڑھی عمارت کھڑی ہو جاتی ہے جو تاریخ میں پیسا کے منار کی طرح زندہ تو نہیں رہے گی مگر ہم جیسے کم علموں کے لئے بے شمار مغالطے چھوڑ جائے گی۔ ماحول ایسا ہو گیا ہے کہ جو شخص بھی دین کا نام لیتا ہے اس کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرنا پڑتا ہے۔ یا کم از کم میں نے اسے عادت بنا لیا ہے۔ اسے میری مصلحت دینی کہہ لیجیے یا حد سے بڑھی ہوئی احتیاط۔ میرے بعض دوست یہ سمجھتے ہیں کہ یہ رویہ درست نہیں ۔یہ دین میں گمراہی کو راہ دینے کے مترادف ہے۔ آج ایسا ہی معاملہ درپیش ہے۔ اپنے بعض دوستوں کی باتوں کومیں چپکے سے پی جاتا ہے اور یہ کہہ کر نظر انداز کر دیتا ہوں کہ بحث کرنے کے لئے یہی لوگ رہ گئے ہیں۔ آخر دین کی بات تو کرتے ہیں۔ مگر مسلسل غلط نتائج نکلنا شروع ہو جائیں تو بند باندھنا پڑتا ہے۔ برادر عزیز خورشید ندیم ایک عالم فاضل آدمی ہیں۔ مگر فکر غامدی کی زد میں بہہ کر اکثر اوقات ایسا موقف اختیارکرتے ہیں کہ آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ کئی باتوں پر میں نے دم سادھے رکھی۔ اگرچہ بہت بنیادی تھیں مگر آج جانے ایک نسبتاً چھوٹی سی بات پر چپ رہنے کو جی نہیں چاہا۔ گزشتہ دنوں خیبر پختونخواہ میں لڑکیوں کے سکول میں عبایا‘ حجاب یا چادر پہننے کا مسئلہ درپیش ہوا۔ میں نے بھی اس پر لکھا ‘مگر ذرا مختلف زاویے سے۔ خورشید ندیم نے اس پر دوچار باتیں ایسی کی ہیں جو کئی مغالطے پیدا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے چند سوالات اٹھائے ہیں جن کے بڑے خطرناک جواب دیے ہیں۔ ابھی کل ہی میں نے امریکی مصنفہ سوسن سونٹاگ کے ہاں ایک دلچسپ قول پڑا ہے کہ دلچسپ جواب وہ ہوتا ہے جو سوال ہی کو ملیا میٹ کر دے۔ ان کے جواب تو سوال کو اور توانا کر دیتے ہیں اوریہی خطرناک بات ہے۔ پہلا سوال ہے کیا اسلام نے مردوزن کے لئے کوئی لباس طے کیا ہے۔ پہلے تو اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ مذہبی سوال ہے‘ اس لئے عام آدمی کو اس میں سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ جوآدمی مذہب کو نہیں مانتا۔ اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔معاشرے میں اس کے جواب پر کوئی اختلاف ہو تو حکومت کی رائے مان لینا چاہیے۔ پھر فرماتے ہیں‘اور آپ ذرا غور سے سنئے کہ اسلام نے مرد و عورت کے لئے کوئی لباس طے نہیں کیا۔ اضافہ کرتے ہیں پردے کی اصلاح بھی اسلام کے لئے اجنبی ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان ایک خاص اخلاقی شعور کے ساتھ زندگی گزارے۔ یہ عاجز اس کے حوالے سے یہ عرض کرتا ہے کہ آپ کی اس بات میں تین نکات ہیں اور تین ہی مغالطے ۔ یہ بہت پرانی بات ہے کہ حلقہ ارباب ذوق کراچی میں کلچر پر بات چھڑ گئی جس میں پاکستان کے مختلف لباسوں کا ذکر آیا۔ میں نے عرض کیا بلکہ سوال کیا کہ مجھے پاکستان کے ہر علاقے ہر صوبے اور ہر قومیت کے اس لباس کا تعارف کرائے جو اسلام کے ستر پوشی کے اصولوں کے خلاف ہو اور نماز پڑھنے میں حارج ہوتا ہو ۔آپ کیسے کہتے ہیں کہ اسلام لباس پر کوئی پابندی نہیں لگاتا۔ اسلام میں نہیں‘ ہر معاشرہ اورہر تہذیب اپنے رہنے والوں کے لئے لباس کی حدود و قیود کا تعین کرتے ہیں۔ یہاں سے کئی نکتے پیدا ہوتے ہیں مگر اس وقت ہمیں اس طرف نہیں جانا۔ دوسری بات آپ نے یہ فرمائی کہ اسلام میں پردے کی اصطلاح اجنبی ہے۔ یہ بہت ہی لغو اوربے معنی بات ہے۔ اسلام میں نماز کی اصطلاح بھی اجنبی ہے۔ قرآن میں ہے نہ حدیث میں۔ کہاں سے لی ہے آپ نے۔ اسی چکر میں بعض لوگوں نے خدا کے لفظ پر بھی اعتراض باندھ دیا تھا۔ تیسری بات پر خاصی نازک بحث ہو سکتی ہے کہ اسلام چاہتا ہے کہ انسان ایک خاص اخلاقی شعور کے ساتھ زندگی گزارے۔ یہ اخلاقی شعور کہاں سے آئے گا۔ آسمان سے ٹیک پڑے گا یا زمین سے اگ آئے گا۔ اخلاقی شعور خلا سے پیدا نہیں ہوتے اور جب اس کے ساتھ خاص کا لاحقہ بھی لگا ہو تو پوچھا جا سکتا کہ یہ خاص بن گیا۔ ہوتا ہے اور کہاں سے آتا ہے ۔ آپ نے تو دین کا مطالعہ بہت گہری نظر سے کر رکھا ہے۔ ہماری روایت عقائد اوراعمال کے خراب ہونے کے نتائج سے آپ واقف ہوں گے۔ اس لئے ایک ترتیب مراتب ہے۔ عقائد ‘ عبادات‘ معاملات‘ معاشرت اور آخر میں اخلاق ۔ یہ مولویوں کے ڈھکوسلے نہیں ہیں ‘یہ گہرے علمی سرچشموں کا وہ شفاف پانی ہے جسے سمجھے بغیر آپ تہذیب و معاشرت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہ اس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ آپ سطحی باتوں پر فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ تصدیق باالقلب کیا ہے؟ اقرار باللسان کیا ہے؟ سارتر کی کومٹ منٹ کیاہے؟ انگیخت کیا ہے؟ ایمان اور نیت کا کیا رشتہ ہے‘ ایمان اور اعمال کا کیا تعلق ہے۔ اس کی سمجھ نہ ہو تو شعور کے معنی بھی غلط ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے مارکس اورہیگل کی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ معاشرہ شعور بناتا ہے یا شعور معاشرہ؟ پھر یہ شعور آتا کہاں سے ہے؟ اس پورے نظم میں اخلاق کا مقام کہاں ہے؟ ٹی وی شو میں بیٹھی لڑکیوں کو سند بنانے لگیں گے تو مری جان بڑی خرابی ہو گی۔ ویسے اس بچی نے اپنے سیاق میں غلط بات نہیں کہی تھی۔ آپ کا مگر سباق دوسرا ہے۔ دوسرا سوال آپ نے یہ کیا ہے کہ کیا ریاست کا حق ہے کہ اپنے شہریوں کو ایک خاص لباس پہنانے کا پابند بنائے؟ اس حوالے سے آپ جہاں تک گئے ہیں‘ وہ صرف آپ کے فلسفے‘ میں جائز ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو جو لوگ سمجھنا چاہتے ہیں وہ جاوید غامدی اور وحید الدین خاں کو ذرا سرسری نظر ہی سے دیکھ لیں۔ غامدی صاحب نے یہ اصول تو اگرچہ اپنے استاد امین احسن اصلاحی سے لیا ہے مگر اس کا بے محابا استعمال غلام احمد پرویز کی طرح کرنے لگے ہیں۔ قرآن کے کچھ حکم اس زمانے کے لحاظ سے اور عارضی تھے اور کچھ قانون دائمی ہیں۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ جس قانون کو چاہتے ہیں عارضی قراردے کر آج کے عہد کے لئے غیر ضروری قرار دے دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں مستقل سمجھ لیتے ہیں۔ اس کی جھلک اس بحث میں بھی ہے ۔ اس زمانے کے اوباش لوگ مسلمان خواتین کو باہر نکلنے پر تنگ کرتے تھے۔ اس لئے اس موقع پر مسلمان خواتین سے کہا گیا کہ باہر نکلو تو اپنے اوپر ایک چادر ڈال لو۔ ان ہدایات کا تعلق خصوصی حالات سے ہے۔ عمومی ہدایات سے نہیں۔ اس بحث میں انہوں نے کئی نکتے اٹھائے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ اس پر کھل کر بات کی جائے اور کوئی لگی لپٹی نہ رکھی جائے۔ ان کا اصرار ہے کہ عمومی حالات میں خواتین کو خاص لباس کا پابندی نہیں بنایا جا سکتا۔ ویسے کون بنا رہا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ جب مغرب میں حجاب پر پابندی لگتی ہے تب آپ نہیں بولتے کہ ریاست یا سکول انتظامیہ کون ہوتی ہے پابندی لگانے والی۔ یورپ کی نفسیات کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ اب دہرانا نہیں چاہتا۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں پردے کے مسئلے پر کوئی دینی بحث کر رہا ہوں۔ یہ نہیں کہ اس سے اجتناب کر رہا ہوں۔ مگر اس وقت یہ بحث ہے نہیں۔ جن لوگوں نے اسے دینی مسئلہ بنایا وہ یقینا وہ لوگ ہیں جو دینی سے کد رکھتے ہیں۔ ایسے میں آپ کہاں سے کود پڑے اور انہیں قرآن و سنت سے تقویت پہنچانے لگے۔ رہا پردے کا مسئلہ تو ہمارے ہاں یہ پتا نہیں۔ سرسید احمد خاں کیا روشن خیال ’’مجاہد‘‘ تھے۔ ممتاز علی نے جب حقوق نسواں پر اپنی کتاب لکھی تو خوشی خوشی لے کر سیدھے سرسید احمد خاں کے پاس پہنچے۔ سرسید نے کتاب لے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک کر جو جملے کہے وہ تاریخ میں آج بھی محفوظ ہے۔ خود اکبر الٰہ آبادی نے یہ کیا۔ اپنے دوست ممتاز علی کے گھر جا پہنچے اور سیدھے زنان خانے میں گھستے گئے۔ شور مچ گیا ممتاز علی بھی آن پہنچے۔ اکبر نے صرف اتنا کہا اور چل پڑے کہ جس بات کو تم اپنے لئے جائز نہیں سمجھتے‘ وہ کرتے کیوں ہو۔ معاشرہ خود بخود اپنی راہیں تراش لیتا ہے۔ اقبال سے لے کر سید مودودی تک اس مسئلے سے الجھتے رہے۔ آپ اسے یوں نہ سنواریے کہ تماشا بن جائے۔ آج بھی مسلمان گھرانوں کی اپنی دینی روایات ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ کئی برس پہلے میں نے ٹی وی کے لئے ایک بحث ریکارڈ کرائی تھی۔ دل چاہتا ہے کہ کہیں سے اس کی کیسٹ مل جائے۔ مہتاب اکبر راشدی میزبان تھیں جو دوپٹے کی وجہ سے اپنے موقف کے لئے مشہور ہو چکی تھیں۔ دوسری عائشہ منور تھیں جو میرے لئے منور حسن صاحب کی وجہ سے بہت ہی احترام کا درجہ رکھتی ہیں اور تیسری شائستہ زیدی تھیں جو کرارحسین صاحب کی صاحبزادی ہیں جو مرے استادوں کے بھی استاد ہیں۔ اللہ کی توفیق سے اس دن بہت عمدہ باتیں ہوئیں کئی بار اس کی خواہش ہوئی کہ کہیں سے وہ ٹیپ مل جائے تو اس بحث کو نقل کر لیا جائے۔ خیبرپختونخواہ کے تجربے کو پردے کے معاملے سے گڈ مڈ نہ کیجیے۔ آپ کے مکتب فکر کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے ہر’’جدید اور روشن خیال بات ‘‘ کا دفاع کرنا ہے اور ماشاء اللہ قرآن سے کرنا ہے۔ خرد افروزی کا یہ مکتب فکر غلام احمد پرویز سے بھی خطرناک ہے کہ یہ مذہب کے روایتی ہتھیاروں سے لیس ہو کر آتا ہے اور وحید الدین کی طرح تاریخ کے واقعات کی من پسند ناویلیں کرتا ہے جیسے اس بحث میں پردہ کے حکم کو ایمرجنسی کا حکم ثابت کرنے میں کیاگیا ہے۔ ایک بار پھرعرض کردوں یہ دین کا مسئلہ نہیں تھا مگر دین کے دشمنوں نے اسے دین کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اس لئے میں بھی ہتھیار بند ہو کر حاضر ہو گیا ہوں۔