انتخابات آج ہوں یا کل ‘ رمضان المبارک کے بعد یا آئینی مدت پوری ہونے پر‘ نتائج پر زیادہ اثر ہونے والا نہیں ہے۔صف بندی ہو چکی‘ ہر ایک نے اپنا ٹھکانہ ڈھونڈھ لیا‘ اپنا رشتہ پہچان کے اپنی منزل طے کر لی‘ نہ ہی سیاسی جماعتوں کے پاس زیادہ آپشن ہیں نہ ہی ووٹر کو سوچ بچار کرنے کی ضرورت‘ ایک طرف عمران خاں ہے‘ دوسری طرف ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کا اتحاد‘ ووٹر کے پاس تیسرا رستہ ہے نہ فی الوقت اسٹیبلشمنٹ کے ہاں ان دو کے علاوہ کچھ ہے ‘ انہی میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا پڑے گا۔ایک مچھلی سارے جل کو گندا کر دیتی ہے‘ جل گندا کرنے والی مچھلی اگرچہ موجود نہیں لیکن پانی گندا ہو چکا، اس میں تعفن پھیل گیا‘ اس پانی کو صاف ہونے اور بدبو کو ختم کرنے کے لئے ایک مدت درکار ہے اور بڑی کاوش کی ضرورت ہو گی‘ فی الوقت ایسی کوئی مثبت سرگرمی نظر بھی نہیں آئی‘ ممکنہ انتخابی نتائج کیا ہونگے؟ پاکستان میں اس کا انحصار صرف ووٹوں کی تعداد پر نہیں بڑی حد تک اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بھی ہے‘ برسوں پرانی بات ہے ایک فوجی افسر جو پاکستان ملٹری اکیڈمی PMAکے لئے سلیکشن پر مامور تھے‘ ان سے سلیکشن کے دوران رشوت یا سفارش کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا یہاں رشوت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بہت کم ہوا کہ کسی نے سفارش مانی ہو۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی نتائج میں ردوبدل کی صلاحیت ایک حد تک رہی ہے لیکن رواں برس منعقد ہونے والے یہ بیس پنجاب اسمبلی اور نو(9) قومی اسمبلی کے انتخابات جو پی ڈی ایم نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مکمل اتحاد کر کے لڑے ان کے نتائج نے سیاسی اتحاد کی مقبولیت اسٹیبلشمنٹ کی صلاحیت اور عوام کے رجحانات کو پوری طرح کھول کے رکھ دیا ہے۔1956ء سے 2013ء تک انتخابی رجحانات اور نتائج کا جائزہ لیں تو حیرت انگیز انکشاف سامنے آئے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ کہے‘ سنے بغیر اس کے رجحانات کے اندازے پر تقریباً 15فیصد ووٹر اس امیدوار کی طرف پلٹ جاتے جو ان کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کا پسندیدہ ہے لیکن 2022ء میں ہم نے دیکھا کہ پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ عوام کے غم و غصے سے بڑھ کر نفرت کا نشانہ بنے ۔یوں اسٹیبلشمنٹ کو ہم نے مثبت سے منفی ہوتے دیکھ لیا۔2022ء کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے عمران خاں کے ہر مخالف کو پریشان کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ 2018ء کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے ساتھ یہ جو جماعتیں اور سیاسی شخصیات پھر سے نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھیں آج انتخاب کے نام سے ان پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے‘ اس لئے کہ ان کی آخری امید اسٹیبلشمنٹ جو 19کو 21کر سکتی تھی اس کی اکیس(21) بھی کند ہو گئی ہے۔ مونس الٰہی کے بیان اور پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب کے انٹرویو پر تحریک انصاف کے بعض دوستوں نے بُرا منایا اور دشمنوں میں امید کی جوت جگا دی لیکن پرویز الٰہی اور مونس کی باتوں میں کچھ نیا ہے نہ غلط نہ ہی ان کی روائتی سیاست سے جُدا۔ پرویز الٰہی کو تحریک انصاف کی جتنی ضرورت ہے شاید اتنی ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ خود تحریک انصاف کو ان کی ضرورت ہے‘ تحریک انصاف اور پرویز الٰہی اتحاد پی ڈی ایم کو اسٹیبلشمنٹ کی رہی سہی حمایت سے بھی محروم کر سکتا ہے‘ آج ہمارے پاس سید مودودی ہیں‘ پیر پگارہ نہ نوابزادہ نصراللہ خاں ۔لے دے کے‘ ایوان صدر میں‘ صدر پاکستان ڈاکٹر علوی ہیں اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ پنجاب کہ جس سنگم پر پھر سے سب اکھٹے ہو سکیں‘ تحریک انصاف میں ایک سی آراء اور نقطہ نظر میں کچھ نیا یا مختلف خیال ان کی بدولت راہ پا سکتا ہے‘ سوچنے فیصلہ کرنے کے نئے طریقے سجھا سکتا ہے‘ پرویز الٰہی کے پاس بھاگنے کی راہ ہے نہ تحریک انصاف کے پاس پیچھے ہٹنے کی جگہ فی الوقت دونوں کی قسمت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہے‘ پرویز الٰہی جن دنوں تحریک انصاف کی حمایت سے وزیر اعلیٰ بن رہے تھے ان دنوں روزنامہ 92میں ایک کالم بعنوان ’’پرویز الٰہی اہم ہو گئے‘‘ لکھا تھا‘ اس میں عرض کیا تھا کہ پرویز الٰہی کی صورت میں ایسا شخص میسر آ گیا ہے‘ جس کا سہارا لے کر جنرل باجوہ رسم و راہ نکالیں گے اور امریکہ بھی عمران خاں سے دوریاں ختم کرنے کے لئے انہی سے رجوع کرے گا‘ سب نے دیکھا دو ہفتوں کے اندر امریکی اہلکار پہنچ گئے اور جنرل باجوہ کے ’’لاہوری پاور بروکر‘‘ نے بھی متعدد ملاقاتیں کیں‘ اگرچہ فوری طور پر بہت سے معاملات طے نہیں پا سکے لیکن فریقین میں راہ و رسم کا ایک قابل اعتماد اور بھروسے کے قابل وسیلہ بن گیا‘ جوش میں ہوش کا دامن تھامے رکھنے والوں کی تحریک انصاف کو کہیں زیادہ ضرورت ہے‘ مسلم لیگی عیاریوں اور بعض دوسرے سیاست دانوں کی مکاریوں کو سمجھنے اور ان کا توڑ کرنے کے لئے پرویز الٰہی اچھے صلاح کار ہو سکتے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے کرنے میں وہ صدر پاکستان کی معاونت بھی کر سکتے ہیں اور الیکشن میں مسلم لیگ(نون) کی انتظامیہ سے مل کر دھاندلی کی کوششوں کا بہتر توڑ بھی ان کے پاس ہے‘ تحریک انصاف چار سالہ اقتدار کے باوجود شہری انتظامیہ اور پولیس افسران کے لئے اجنبی لوگ ہیں جبکہ مسلم لیگی نون سے ہوں یا قاف سے ،زیادہ مِلے برتے لوگ ہیں جن کے ساتھ یہ ’’بابو‘‘ کھل کے بات کر سکتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی زبان اور بدن بولی کو خوب جانتے ہیں‘ باقی رہ گئیں انتخابات کے لئے حلقوں اور سیٹوں کی بات تو جتنی مسلم لیگ(ق) کے پاس ہیں اور انہوں نے تحریک انصاف کا ساتھ دیا پرویز الٰہی کے ساتھ کھڑے رہے ان کا حق ہے کہ انہیں ان حلقوں میں پھر سے موقع دیا جائے۔ مونس الٰہی نے زیادہ بالغ نظری‘ استقامت ‘ جرأت اور عمران خاں سے وفاداری کا ثبوت دیا‘ اس کی مستقل مزاجی نے پرویز الٰہی کو سنبھالے رکھا اور شجاعت حسین کی من مانی کو روکا‘ تحریک انصاف کے دوستوں کو اس کی قدر افزائی کرنا چاہیے۔ یہ نوجوان کم از کم اپنے خاندان کی آئندہ سیاست کا امین بننے والا ہے‘ انتخابات کے بعد پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا حق دار کون قرار پائے گا‘ابھی سے اس پر تنازعہ کھڑا کرنے کی ضرورت نہیں‘ تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد وعدے کے مطابق پنجاب کو کم از کم دویا تین صوبوں میں تقسیم ہونا ہے۔ تب بہت سے لیڈروں کے لئے وزارتِ اعلیٰ اتنی پرکشش نہیں ہو گی جتنی اب ہے‘ شاہ محمود قریشی کے لئے نہ پرویز الٰہی کے لئے‘ اس لئے ابھی سے وزارتِ اعلیٰ اور حلقوں کی تقسیم کا تنازعہ کھڑا کرنا غیر ضروری ہے۔فی الوقت اس سے زیادہ اہم کام آپ کی توجہ کے طالب ہیں‘ جنرل باجوہ کی رخصتی سے آنے والی تبدیلی کے باوجود ابھی تک تبدیلیاں نہیں آئیں‘ بیدار ہو کر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔