بچوں کی کہانیوں میں ’’گڈریا اور شیر) کی کہانی تقریباً ہر پاکستانی نے اپنے پرائمری سکول کے زمانے میں پڑھ رکھی ہے‘ گڈریئے کو گائوں کے باہر اپنی بھیڑوں کو چراتے ہوئے ایک دن شرارت سوجھتی ہے اور وہ گائوں والوں کو اپنی طرف چلا چلا کر پکارتا ہے شیر آیا‘ شیر آیا‘ گائوں کے لوگ لاٹھی‘ کلہاڑی برچھی جو کچھ ہاتھ لگا اٹھائے گڈریے کی طرف بھاگ کھڑے ہوتے ہیں کہ اسے شیر کا شکار ہونے سے بچائیں لوگ جو اسے شیر سے بچانے آئے تھے جب اس کے نزدیک پہنچتے ہیں تو گڈریا ہنس دیتا ہے اور الٹا ان کی سادگی پر ٹھٹھا اڑاتا ہے‘ دوسری پھر تیسری بار وہ احمق گڈریا ایسا ہی کرتا ہے ہر مرتبہ گائوں کے لوگ اس کی مدد کو جاتے اور الٹا اس کی طنزیہ ہنسی کا نشانہ بنتے رہے‘ بدقسمتی سے ایک دن واقعی شیر آ جاتا خونخوار اور بھوکا شیر‘ گڈریا زور زور سے چلاتا اور گائوں والوں کو مدد کے لئے پکارتا ہے لیکن گزشتہ تین چار بار تجربے کے بعد کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں پہنچتا اور شیر چلاتے اور شور مچاتے گڈریے کو مار ڈالتا ہے رات گئے تک جب گڈریا گھر واپس نہیں آتا تو لوگ اس کی تلاش میں جاتے ہیںچراگاہ کے ایک کونے میں اس کی آدھ کھائی لاش اور چچوڑی ہوئی ہڈیوں کے سوا کچھ باقی نہیں تھا‘ ہم پاکستانی بھی اس عاقبت نااندیش اور کھلنڈرے گڈریے کی طرح بے وقت دہائی دیتے ہیں اور دیتے ہی چلے جاتے ہیں‘ چنانچہ حقیقی خطرے کے دنوں میں تنہا کھڑے رہ جاتے ہیں کوئی دوست ہمدرد ہماری مدد کو نہیں پہنچتا کہ بے وقت کی چیخ کو پکارنے ان سب کو بدظن کر دیا ہوتا ہے‘ گزشتہ 75 برس سے ’’پاکستان اپنے خطرناک دور سے گزر رہا ہے‘‘ کی گردان سنتے کان پک گئے اپنے بہترین زمانوں میں بھی ہمارا یہی وطیرہ رہا چنانچہ جب جب ہمارے اوپر خطرے کے ادوار آئے تو ہمارے مدد گار بدظن ہو چکے تھے‘ ایسے ہی دن آج ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے۔ ساٹھ کی دہائی پاکستان کی اقتصادی اور صنعتی ترقی کا بہترین زمانہ تھا‘ جن دنوں دنیا بھر کے مقابلے میں ہم تیز ترین رفتار سے آگے بڑھ رہے تھے‘ ہم خوش حال بھی تھے‘ روشن مستقبل مضبوط دفاع‘ کوئی دشمن براہ راست ٹکرانے کی ہمت نہیں رکھتا تھا‘ اپنے سب سے قریب اور بڑے دشمن بھارت کو ہم نے کوسوں پیچھے چھوڑ دیا تھا‘ وہ حسد کی آگ میں جل بھن رہا تھا، تب اس نے سمجھ لیا کہ پاکستان سخت جان قوم ہیں‘ بہادر‘ سربکف اور براہ راست میدان میں اس کے مقابل اترنا خطرناک ہو سکتا ہے چنانچہ اس نے ’’پراکسی وار‘‘(خفیہ جنگ) کا راستہ اختیار کیا‘ مشرقی پاکستان کو اپنی ترک نازیوں کا مرکز بنایا‘ ہندوئوں کی مدد سے تعلیمی اداروں‘ زبان کے مسئلے کو بنیاد بنا کر’’مجیب الرحمن‘‘ کو سیاست میں خفیہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا‘ پراکسی وار Proxy warسے کہیں زیادہ ’’پراکسی پالیٹکس‘‘ نے پاکستان کو کہیں زیادہ نقصان پہنچایا‘ 1948ء اور 1965ء کی جنگوں کے بعد پاکستان اور مسلم امہ کے دشمن اس کی طرف متوجہ ہوئے انہوں نے پاکستانیوں کی جانثاری‘ بہادری اور مادی ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے اندر سے نقب زنی کا فیصلہ کیا‘ میر جعفروں اور میر صادقوں کی تلاش شروع کی‘ خفیہ ایجنسیاں بروئے کار آئیں‘ اسرائیل روس اور بھارت کا گٹھ جوڑ‘ چھوٹے سے پاکستان نے ان تینوں کو اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کر دیا تھا۔ خطرناک گٹھ جوڑ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنا‘ اب پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا لیکن آدھا رہ جانے والا پاکستان 80ء کی دہائی میں اٹھ کھڑا ہوا‘ روس افغانستان میں آن گھسا تھا‘ جہاں افغانستان میں روس کی آمد ہمارے لئے خطرہ تھی وہیں مشرقی پاکستان میں اس کے کردار پر قرض چکانے کا موقع بن گیا‘ پاکستان کو دولخت کرنے والا بارہ(12) ٹکڑوں میں تقسیم ہوا‘ انڈیا کی روس کو دی جانے والی مدد کسی کام نہ آئی‘ اس عرصے میں پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا‘اپنے دشمنوں کے اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لئے قابل بھروسہ میزائل سسٹم بنا لیا گیا‘ اب دشمن کے لئے پاکستان کو براہ راست نشانہ بنانا اور میدان جنگ میں اس کے مقابل کھڑے ہونا ممکن نہیں رہا‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور 70ء کی جنگ میں ہزیمت کے تین کردار‘ یحییٰ‘ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو‘ ان کو اپنے کئے کی سزا کیا ملتی الٹا انہیں اقتدار سونپ دیا گیا اور یحییٰ خاں کو اپنی ہی فوج کے جوانوں کے غضب سے بچانے کے لئے مضبوط حفاظتی حصار میں اپنے ہی گھر میں آرام کرتے رہنے کے لئے نظر بند کر دیا گیا‘ مشرقی پاکستان میں لڑی جانے والی خفیہ جنگ کا ایندھن مکتی باہنی تھی، بھٹکے ہوئے اور مجیب الرحمن کے بہکائے بنگالی نوجوان‘ سادہ کپڑوں میں بھارتی فوجی اور دکھانے کے دانت سیاستدان جو غداری کے صلے میں حکمران بنے مکافات عمل کا شکار ہو کر غیر فطری موت مرے لیکن انہی دشمنوں کی مدد اور تعاون سے آج تک کسی نہ کسی طرح ان کی اولادیں پاکستان کے دونوں حصوں میں حکمران چلی آتی ہیں کوئی ان کی راہ روکنے والا ابھی تک میسر ہوا بھی تو اسے کامیاب نہیں ہونے دیا گیا‘ خفیہ جنگ کا لازمی ہتھیار سیاستدان بھی ہے‘ کمبوڈیا ہو‘ ویت نام‘ عراق ہو یا لیبیا‘ افغانستان ہو یا پاکستان‘ افغانستان میں روسیوں کو بھی سیاسی جماعتیں اور حکمران بنانے کے لئے نمائشی چہرے میسر تھے‘ روسیوں نے یکے بعد دیگرے چار حکمران بنائے آخری ڈاکٹر نجیب اللہ تھے‘ روسیوں کے بعد افغانستان پر امریکیوں نے قبضہ کرنے کی کوشش میں بیس(20) برس لگا دیے ان بیس برس میں کابل میں حکمران بظاہر افغان ہی تھے پہلے دس برس حامد کرزئی اور پھر اشرف غنی جیسی کٹھ پتلیاں میسر آئیں‘ پراکسی وار‘ پراکسی پالیٹکس لازم و ملزوم ہیں‘ پاکستان کے خلاف ’’پراکسی وار‘‘ کا دوسرا دور نئی صدی کے ساتھ ہی شروع ہوا تئیس(23) برس گزرنے پر اب بھی جاری ہے‘اب کے بار روس کی جگہ امریکہ نے لے لی باقی کردار وہی ہیں‘ بھارت‘ اسرائیل امریکہ اور اس کی کٹھ پتلیاں‘9اپریل 2022ء خفیہ جنگ کا اہم دن ہے‘ پاکستان حامد کرزئیوں اور اشرف غنیوں کی سیاسی قیادت میں دے دیا گیا ہے اور فوج کے سامنے نام نہاد پاکستانی طالبان اور داعش نامی کرائے کے جنگجو کھڑے کئے گئے ہیں امریکہ کی سرپرستی‘ بھارت اور اسرائیل کی تربیت افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق اہلکاروں کے تعاون سے جنگجوئوں کی بھرتی۔ پاکستان کے ریاستی ادارے اس ساری صورت حال کو دیکھ کر گویا سکتے میں ہیں‘ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کریں تو کریں کیا‘9اپریل کی صورتحال حال کا سہولت کار اگرچہ موجود نہیں لیکن خرابی کی وجہ جب تک نظام میں باقی ہے‘ قوم کو امن نصیب ہو گا نہ راہ سلجھائی دے گی۔