مکرمی !یکے بعد دیگرے اخباری اداروں کے حقوق سلب کئے جانے کی روایت اس وقت زورپر ہے اورکثیر الاشاعت ادارے دن بدن لاغر مریض کی طرح بستر مرگ پر جانے کس کے منتظر ہیں؟اخبارات میں کام کرنے والے ورکرز بے روزگار ہوکر کیا کریں گے؟کدھر جائیں گے؟یہ سوالات تو اپنی جگہ جواب طلب ہیں ہی لیکن غور طلب بات یہ بھی ہے کہ صحافیوں کے حقوق عام شہریوں سے بھی کم ہوگئے ہیں یہی وجہ ہے کہ مثبت خبروں کا راگ الاپنے والے مفکر بھی صحافیوں کے بدترین معاشی قتل عام پر چشم فکر بند کئے بیٹھے ہیں اور اسی لئے تو حکومت بھی صحافیوں کے اخباری اداروں سے بڑے پیمانے پر اور بے ڈھنگے انداز میں نکالے جانے کے باوجود بھی مکمل سکوت پر ہی تکیہ کئے بیٹھی ہے المیہ یہ ہے کہ عوامی مسائل کی نشاندہی اور عوامی مثبت و منفی آراء کی درست ترجمانی کے دعویدار سینئر صحافیوں کے پاس اپنے حقوق کے تحفظ کے معاملے میں الفاظ موجود نہیں ہیں ۔ پرنٹ میڈیا کا چھوٹا بھائی بن کر آنے والا الیکٹرانک میڈیا آج پرنٹ میڈیا کے بڑے بھائی کی حیثیت تو حاصل کرچکاہے لیکن صد افسوس کہ الیکٹرانک میڈیا ناصرف پرنٹ میڈیا کی بد حالی پر خاموش تماشائی بنا رہا ۔ اخبارات کو گزشتہ کئی سالوں سے ہی حکومتوں کی جانب سے محدود ترین سطح تک لانے کی کوشش کی جارہی تھی کبھی نئے ڈیکلریشن کے حصول میں پیچیدگیاں پیدا کرکے تو کبھی اے بی سی کے مراحل میں من چاہی تبدیلیاں کرکے اخبارات کو محدود کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ (شہزادخان، کراچی )