لاہور کی سڑکوں پر سرخ سویرے کا پرچم اٹھانے والے یہ وہی لوگ ہیں گذشتہ پچیس سال سے امریکہ، یورپ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بڑے بڑے بتوں کے سامنے سجدہ ریز تھے۔اپنا قبلہ بدلنے میں کمال رکھتے ہیں۔ جس دن سوویت یونین کے شہر لینن گراڈ میں غصے میں بپھرے ہوئے ہجوم نے سویت یونین کے بانی ولادی میر لینن کا مجسمہ گرایا، پچھتر سال سے روس پر مسلط جبر و استبداد کے نظام کا بوسیدہ لباس اتارا، لینن گراڈ کا نام بدل کر واپس مذہبی شخصیت کے نام پر سینٹ پیٹرزبرگ رکھا، تو عین اسی دوران یہ سب کے سب اپنا نظریہ چھوڑ کر کیمونزم کے دشمن اول، امریکہ، اور سرمایہ دارانہ سامراج کے کاسہ لیس ہوگئے۔ ظاہر ہے جب کوئی اللہ کا انکار کرتا ہے تو پھر اسے پرستش کرنے کے لئے اپنے ہاتھوں سے بت تراشنا پڑتا ہے تاکہ اسکی پوجا کرسکے۔انکار و اقرار کی یہ جنگ ازل سے چلی آ رہی ہے اور قیامت تک چلتی رہے گی۔ اقبال نے کہا تھا ؎ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مُصطفویؐ سے شرارِ بُولہبی قرآن پاک اسے طرز زندگی (Lifestyle) کی جنگ قرار دیتا ہے۔ ہر دور میں انسانوں کے ایک گروہ نے خالق کائنات کی ہدایات اور اس کے بھیجے گئے پیغمبروں کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کی بجائے، ازخود اپنا ایک طرز زندگی یا لائف سٹائل ایجاد کیا، جسے وہ آئیڈیل تصور کرتے تھے اور اپنے تخلیق کردہ اس نظام زندگی کو وہ انسانوں کے لئے بہترین سمجھتے تھے۔ قرآن،حضرت موسیٰؑ اور فرعون کے درمیان جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتاتا ہے '' آخر کار انہوں نے کہا: یقینی طور پر یہ دونوں (موسیؑ اور ہارونؑ) جادوگر ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور پر تم لوگوں کو تمہاری سرزمین سے نکال باہر کریں اور تمہارے بہترین طرز زندگی (Lifestyle) کا خاتمہ کر ڈالیں'' (طٰہٰ: 63)۔ قرآن پاک نے یہاں لفظ '' طَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلَی '' استعمال کیا ہے یعنی ''آئیڈیل لائف سٹائل''۔ یعنی فرعون اور اسکے حواری اپنے لائف سٹائل کو دنیا کا آئیڈیل طرز زندگی تصور کرتے تھے اوروہ حضرت موسیٰؑ کے لائے گئے دین کو اپنے اس لائف سٹائل کے لئے ایک ایسا خطرہ تصور کرتے تھے جو ان سے ان کی زندگی کی تمام رنگارنگی چھین لے گا۔ اصل جنگ یہی ہے کہ اللہ کے عطا کردہ نظام حیات اور طرز زندگی کی نفی کرنا اور اپنے خود ساختہ نظام کو آئیڈیل سمجھنا۔ یہ جنگ نہ دنیا کی تاریخ میں نئی ہے اور نہ ہی پاکستان میں یہ کوئی اجنبی کھیل ہے۔ پوری دنیا میں یہ کھیل سرمایہ دارانہ جمہوریت بمقابلہ کیمونزم دو صدیوں سے کھیلا جارہا ہے۔ لیکن پاکستان میں اسکا رنگ روپ مختلف ہے۔یہاں یہ کھیل، اسلام بمقابلہ کیمونزم اور پھر اسلام بمقابلہ جمہوریت برپا کیا گیا۔کچھ طبقات کا اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک، پاکستان کے ساتھ دشمنی اور بغض و عناد اس قدر شدید اور گہرا ہے کہ یہاں سرمایہ دارانہ جمہوریت اور کیپٹل ازم کے ماننے والے اپنے دشمن کیمونسٹوں سے بھی اسلام دشمنی میں بغل گیر ہو جاتے ہیں۔ستر سالہ تاریخ میں اس کشمکش کا اصل میدان جنگ تعلیمی ادارے تھے ۔طلباء تنظیمیں تھیں جنہوں نے اس معرکے کو ہمیشہ گرم رکھا۔ پچاس کی دہائی میں کیمونزم اور سوشلزم کی سیاست اپنی معرکہ آرائی میں داخل ہوئی۔ یوں تو کیمونزم یا سوشلزم کے علمبردار دنیا بھرمیں ڈیموکریسی اور جمہوریت کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے۔ لیکن پاکستان میں ایک خاص منافقت کے بغیر چارہ نہ تھا، اس لئے یہاں ڈیموکریسی کے نام سے بہروپ اختیار کیا گیااور تنظیم کا نام ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن رکھا۔ انکے نزدیک معاشرے میں موجود طبقاتی کشمکش سے انقلاب انکا راستہ تھا۔ نعرہ یہ بلند کیا جاتا تھا کہ دنیا میں امیر اور غریب دو ہی طبقے ہیں اور بس انقلاب انہی دونوں کی جنگ سے آئے گا۔ لیکن کچھ عرصے بعد انکو احساس ہو گیا کہ پاکستان میں معاشرے کو طبقات میں تقسیم کرکے تیز کرنے کا راستہ تو قوم پرستی ہے۔اس طرح پورے ملک کے طبقات کو نفرت کی لپیٹ میں لا یا جاسکتا ہے۔ خالق دنیا ہال کراچی میں 1953ء میں کنونشن منعقد ہوا اور تنظیم کا نام بدل کر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کردیا گیا۔ اس کیمونسٹ طلبہ تنظیم کا مقابلہ پورے پاکستان میں صرف اور صرف ایک ہی تنظیم نے کیا جس کا نام اسلامی جمیعت طلبہ ہے۔ مسلم لیگ کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان بننے کے بعد دم توڑ چکی تھی اور دوسری بات یہ تھی کہ انکے پاس کسی قسم کا کوئی نظریاتی لٹریچر ہی موجود نہ تھا کہ وہ این ایس ایف کے کیمونسٹ نظریات کا مقابلہ کرسکتی۔ جبکہ اسلامی جمیعت طلبہ کو سید ابوالاعلی مودودی کی تحریروں نے وہ زندگی عطا کی کہ اس نے کیمونزم کے طوفان کا زور توڑ دیا۔ اس نظریاتی محاذ پر انکی جدوجہد اس قدر کامیاب تھی کہ ستر کی دہائی میں شاید ہی کوئی یونیورسٹی یا کالج ایسا ہو جس میں سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں اسلامی جمیعت طلبہ کامیاب نہ ہوئی ہو۔ دوسری جانب این ایس ایف کی طلبہ سیاست کیمونزم، سوشلزم اور قوم پرستی سے بارہ مسالے کی چاٹ بنانے کی کوشش میں بکھرتی چلی گئی۔ اس پر پہلا کاری وار ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے کیا۔ معراج محمد خان نے پہلے این ایس ایف کا چینی سوشلزم ایڈیشن بنایا،جبکہ باقی ماندہ این ایس ایف کاظمی گروپ کے طور پر رہ گئی جو روسی کمیونزم کو پسند کرتی تھی۔ معراج محمد خان کی این ایس ایف کو اسکے بعد بھٹو کی پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کھا گئی اور کاظمی گروپ کی این ایس ایف کو ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کا سیلاب بہا لے گیا۔ انکی طلبہ سیاست قوم پرستانہ سیلاب میں بہہ گئی۔ نیشنل عوامی پارٹی کے زیر اثر این ایس ایف کی کوکھ سے رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے تعصب میں ڈوبی ہوئی لا تعداد طلبہ تنظیمیں نکلیں۔ سرحد اور بلوچستان میں پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے جنم لیا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش چھاترا لیگ (بی سی ایل) کو اسی این ایس ایف کی راکھ سے اٹھایا۔بی ایس او سے بلوچستان لبریشن آرمی،پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن سے ''الذوالفقار ''، الطاف حسین کی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کا خمیر بھی اسی مٹی سے تھا۔ انہی تنظیموں کی نرسری سے پاکستان میں طرح طرح کے اسلحہ بردار گروہ پیدا ہوئے۔ پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے ''پختون زلمے'' نکلی، بی سی ایل سے'' مکتی باہنی'' نے جنم لیا انکی طلبہ سیاست اور اے پی ایم ایس او سے ایم کیو ایم کے سیکٹر کمانڈر پیدا ہوئے۔ مدتوں ان تمام قوم پرستانہ تنظیموں کا قبلہ سوویت یونین تھا۔ روس کی یونیورسٹیاں انہیں داخلے دیتیں، جلا وطنی پر انہیں وظیفے ملتے،مفت رہائش اور پناہ گاہیں میسر آتی۔ان طلبہ تنظیموں میں سے کون تھا جس نے کیمونزم کی طلبہ سیاست کی ہو اور روس کی فیاضی سے سیراب نہ ہوا۔ نظریاتی محاذ پر یہ عالمی اشتراکی لٹریچر کے اردو ترجمے سے لیکر سید سبط حسن کی موسیٰ سے مارکس تک اور کرنل (ریٹائرڈ) فیض احمد فیض کی شاعری تک سے مدد لیتے ۔یہ بحیثیت گروہ لینن ایوارڈ یافتہ فیض کی عزت کرتے اور سعادت حسن منٹو کو گالی دیتے۔ 60 ء اور 70 ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان میں طلبہ تنظم بی سی ایل اور مغربی پاکستان میں این ایس ایف،، بی ایس ایف، بی ایس اواور پی ایس ایف کی سیاست کی نفرت کا مرکز و محور سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ذات تھی اور اسلام جمعیت طلبہ تھی۔مولانا مودودی کا فکری اثاثہ اس قدر مدلل تھا کہ اس کا مقابلہ کرنا ان سب کیلئے بہت مشکل تھا۔ پورے بیس سال اسٹوڈنٹس یونین انتخابات ہوئے اور ہر کالج یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی صورت میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر جیتتی رہی اور تمام کیمونسٹ طلبہ تنظیمیں شکست کا منہ دیکھتی رہیں۔ (جاری ہے)